شیروں کا دوست

جنوبی افریقا کا کیون رچرڈسن، جو اپنے ان دوستوں کی بقا اور سلامتی چاہتا ہے


Mirza Zafar Baig June 11, 2017
جنوبی افریقا کا کیون رچرڈسن، جو اپنے ان دوستوں کی بقا اور سلامتی چاہتا ہے۔ فوٹو : فائل

جنوبی افریقا کا کیون رچرڈسن شیروں کا دوست ہے جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے، ان سے باتیں کرتا ہے، انہیں اپنی باتیں سناتا ہے، ان کی باتیں سنتا ہے اور ان وحشی جانوروں کے ساتھ بہت خوش و خرم رہتا ہے۔

ویسے تو کیون رچرڈسن کو اس حیثیت سے ساری دنیا میں ہی پسند کیا جاتا ہے، لوگ اسے اپنے ببر شیروں کے ساتھ کھیلتے کودتے اور اٹکھیلیاں کرتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اس کی ہمت و جرأت کی تعریف کرتے ہیں، مگر خود رچرڈسن کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ اس کے شیروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ان کے جسم پر پیار سے ہاتھ پھیریں یا تھپکیاں دیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے پالتو وحشی شیر دوسروں کے لیے تفریح طبع کا ذریعہ بنیں۔


اس حوالے سے کیون رچرڈسن کا کہنا ہے:''آج کا زندہ شیر ببر کل کی ٹرافی بن جاتا ہے، مجھے اپنے پاس آنے والے یہ سیاح کافی مشکوک دکھائی دیتے ہیں، نہ جانے کیوں مجھے ان کی نیتوں میں فتور دکھائی دیتا ہے، مجھے تو ان کے ہاتھوں پر اپنے ان شیروں کا خون لگا نظر آتا ہے۔ یہ مجھے ان کے قاتل لگتے ہیں۔''


افریقی جنگلات میں ان وحشی شیروں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ان کی تعداد میں 40فی صد کے لگ بھگ کمی واقع ہوگئی ہے اور یہ جنوبی افریقا کے جنگلوں میں کم و بیش 20,000 تک کم ہوگئے ہیں۔

کیون رچرڈسن اپنے گھر میں ان خوں خوار شیروں کے ساتھ ایسے اطمینان اور سکون سے رہتا ہے جیسے یہ سب اس کے پالتو جانور ہوں، کیوں کہ یہ سب اس کے ایک اشارے پر حرکت کرتے ہیں اور جس طرح حکم دیتا ہے، بالکل اسی طرح اس پر عمل کرتے ہیں۔ شیروں کے جھرمٹ میں افریقی جنگل میں جھاڑیوں اور پیڑ پودوں کے درمیان کیون رچرڈسن کا گھر کسی سرکس کا منظر پیش کرتا ہے، مگر رچرڈسن اس غیرمعمولی منظر نامے کو کیش نہیں کراتا اور نہ ہی دوسروں کو ایسے عجیب و غریب منظر دکھاکر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتا ہے۔

اس کے بجائے وہ یہ انوکھے منظر دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں اور تماش بینوں کو بالکل پسند نہیں کرتا، کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے شیر ساری دنیا کے سامنے تماشا بنیں یا وہ انہیں دوسروں کے سامنے پیش کرکے اپنے لیے آمدنی کے حصول کا ذریعہ بنائے۔ شیروں کا یہ انوکھا دوست کیون رچرڈسن افریقا کے اس انڈسٹری کے سخت خلاف ہے جس میں مخصوص علاقوں میں ان وحشی جانوروں کو قید کرکے رکھا جاتا ہے اور بعض مقامات پر تو انہیں بے دردی سے ہلاک کرنے کا اجازت نامہ بھی دے دیا جاتا ہے۔

کیون رچرڈسن اور اس جیسے دوسرے ناقدین ایسے شکار کے سختی سے مخالف ہیں جس میں شکار کیے گئے شیروں کو کو بعد میں بھس بھر آرائش و سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسی طرح بعض مقامات پر ان کی لاشوں کو عرصہ دراز تک کے لیے محفوظ بھی کرلیا جاتا ہے۔ اسی لیے کیون رچرڈسن اور اس جیسے مزاج کے حامل دوسرے شکاریوں کو وہ سیاح بالکل پسند نہیں آتے جو ان کے شیروں کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کے خصوصی پنجروں کے پاس آکر ا ن کے جسموں پر ہاتھ پھیرنے یا انہیں تھپکیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض شیروں کے چھوٹے بچے جو بے چارے جنگلوں میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے، انہیں بعد میں گولی مار کر ''ٹرافی انڈسٹری'' کے لیے تیار کردیا جاتا ہے اور ان کی بھاری قیمت وصول کرلی جاتی ہے۔

دوسری جانب سیاحوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اس طرح شیروں کے چھوٹے بچوں کو ہلاک کرکے ان کے جسم حنوط کرنے کے بعد جس طرح انہیں ٹرافی بناکر بیچتے ہیں، اس سے شیروں کے تحفظ کے لیے خصوصی فنڈز فراہم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے، یہ ان لوگوں کی خام خیالی ہے، اس طرح چھوٹے شیر مارنے کے بعد شیروں کے تحفظ کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا یہ خیال بالکل لغو اور بے کار ہے۔ یہ تاجروں کی چالاکی ہے، انہوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے منصوبے بنائے ہیں جن میں وہ کام یاب ہیں۔

کیون رچرڈسن کو افریقی جنگلات میں lion whisperer کا خطاب ملا ہوا ہے، وہ شیروں کا دوست اور ہمدرد ہے اور ان سے اس طرح باتیں کرتا ہے جیسے عام انسانوں سے کی جاتی ہیں۔ شیر بھی اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور اس دوران اسے بہ غور دیکھتے ہیں، اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں جیسے اس کے دل کی باتیں سمجھ رہے ہوں۔

شیروں کا یہ دوست اپنے شیروں کے ساتھ جنوبی افریقا کے دارالحکومت پری ٹوریا کے نزدیک Dinokeng Game Reserve میں بڑے سکون اور اطمینان سے رہتا ہے۔ وہ ہر روز جب گھر سے باہر چہل قدمی کے لیے جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے شیر اس طرح چلتے ہیں جیسے اس کے باڈی گارڈ ہوں۔ اس وقت کیون رچرڈسن کی شان بھی دیکھنے والی ہوتی ہے اور اس کے پالتو اور دوست شیروں کی شان بھی الگ ہی دکھائی دیتی ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنے شیروں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہتا ہے، ان سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، جواب میں شیر بھی اس کے ساتھ شوخیاں کرتے ہیں۔

کیون رچرڈسن کا کہنا ہے کہ اس طرح میں شیروں سے محض کھیلتا نہیں، بلکہ ان کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ افریقا کے لوگوں کو افریقی شیروں کی اہمیت اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوجائے۔ یہ محض کھیلنے یا تماشا دکھانے والے جانور نہیں ہیں، بلکہ یہ تو ہمارے لیے ایسا ریسرچ مٹیریل ہیں جس پر بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے تحفظ اور سلامتی کے لیے خصوصی اور ہنگامی اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔

کیون رچرڈسن کے بقول:''شیروں کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان کی تعداد ہماری دنیا کے جنگلات میں مسلسل اور تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ اگر یہ تعداد میں اسی طرح کم ہوتے رہے تو بہت جلد ہم کرۂ ارض کی اس شان، اس عظیم شیر سے محروم ہوسکتے ہیں اور میرا خیال یہ ہے کہ ہم اپنی اس ''دولت'' سے کبھی محروم ہونا پسند نہیں کریں گے۔''

شیروں کا یہ انوکھا دوست اور ہمدرد کیون رچرڈسن ہر روز پری ٹوریا کے قریب روز ڈنوکینگ گیم ریزرو میں اپنے تین خاص شیروں کے ساتھ چہل قدمی کرتا ہے اور واک مکمل ہونے کے بعد ان کے ساتھ خوب اٹکھیلیاں کرتا ہے، انہیں گدگداتا ہے، ان کے ساتھ کھیلتا ہے اور اپنے ان بے زبان دوستوں کے ساتھ دل کی باتیں بھی کرتا ہے، انہیں اپنے قصے سناتا ہے اور پھر بڑی توجہ سے ان کی باتیں بھی سنتا ہے۔

جنوبی افریقا کے ''دی لائن اینڈ سفاری پارک'' میں ایک مقامی آپریٹر نے بتایا کہ ہم نے اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کو شیروں کے بچوں کو تھپکنے یا ان کے جسم پر ہاتھ پھیرنے سے روک دیا تھا تو اس کے بڑے حیرت انگیز منفی نتائج نکلے، وہ یہ کہ وہاں شیروں کے بچوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگئی تھی۔ چناں چہ ہمیں اس کی اجازت دینی پڑی جس کے بعد وہاں آنے والوں کی تعداد ایک دم بڑھ گئی، اس سے اندازہ ہوا کہ آنے والے سیاح شیر کے بچوں کو تھپ تھپانے کے کتنے شوقین ہیں۔ ممکن ہے انہیں اس کام میں بہت مزہ آتا ہو یا شیر کے بچوں کو پیار کرتے ہوئے انہیں خاص لطف محسوس ہوتا ہو۔

کیون رچرڈسن کا کہنا ہے کہ میں اپنے شیروں کو اپنے پاس رکھتا ہوں اور ان کی موت کے بعد ہی ان کی لاش کو یا تو کسی قدرتی مقصد کے لیے دے دیتا ہوں یا پھر انہیں اپنے ملک اور شہر کے نامی گرامی چڑیا گھروں اور پارکوں وغیرہ کو عطیہ کردیتا ہوں۔ میں اپنے شیر کسی بھی قیمت پر شکاریوں کے ہاتھوں فروخت نہیں کرتا۔

آج کیون رچرڈسن کی عمر 42سال ہوچکی ہے، وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔ وہ ایک بڑے وائلڈ لائف ایریا کا انتظام سنبھالتا ہے جس میں 31شیر ڈنوکینگ ریزرو میں ہیں جو جنوبی افریقا کے دارالحکومت پری ٹوریا کے شمال میں واقع ہے۔

ان میں سے بعض شیر ایسے تھے جنہیں جنگلوں میں نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، یہ شیر بعض اہم آپریشنز کے بعد شکاریوں کی قید سے چھڑا ئے گئے تھے اور ایسے شیر بھی تھے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ غیرقانونی طور پر منتقل کیے جارہے تھے کہ انہیں پکڑلیا گیا۔ ان شیروں کو بھی قتل کرنے کے لیے لے جایا جارہا تھا لیکن انہیں ان کے گاہکوں تک پہنچنے سے پہلے ہی چھڑا لیا گیا۔

کیون نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے شیروں کی افزائش نسل نہیں کرتا، بلکہ اپنے 1300 ہیکٹئر یا 3200ایکڑ کے رقبے پر اپنے شیروں کو گائے، ہرن اور بارہ سنگھوں کی عطیہ کی گئی لاشیں بہ طور خوراک استعمال کراتا ہے۔

کیون رچرڈسن نے اپنے ایک پیارے سے شیر کی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا:''مجھے لوگ شیر کش نہیں سمجھتے بلکہ شیروں کا فخر قرار دیتے ہیں۔ میں خود بھی بے حد محتاط آدمی ہوں اور اس موقع پر اور بھی زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ یہ شیر محض جنگلی جانور نہیں بلکہ بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ وہ آپ کو احساس دلاسکتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ وہ پیار کرنا بھی جانتے ہیں اور انہیں پیار کروانا بھی آتا ہے۔''

کیون رچرڈسن نے یہ بھی بتایا کہ ان گزرے برسوں میں میرے ان دوست شیروں نے مجھے بارہا کاٹا بھی ہے اور اپنے تیز ناخنوں سے میرے جسم پر جگہ جگہ کھرونچیں بھی ڈالی ہیں، مگر مجھے یہ سب چیزیں بہت اچھی اور پیاری لگتی ہیں، کیوں کہ ان سے مجھے آج تک نہ تو کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی میں ان کی وجہ سے زخمی ہوا ہوں۔ ایک بار تو میں نے ایک فلم کے لیے اپنے شیروں کی ساتھ عکس بندی کرائی تھی جس میں میں نے اپنے شیروں کے ساتھ ریسلنگ لڑی تھی، مجھے وہ تجربہ بہت اچھا اور دل چسپ لگا تھا۔ جسے میں آج تک نہیں بھول سکا، کیوں کہ گرجتے برستے اور چنگھاڑتے شیروں کے ساتھ مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

کیون رچرڈسن کی ویب سائٹ پر ٹی شرٹس، کی چین اور کیلینڈر بھی ملتے ہیں، وہ اس کے ذریعے جنگلی حیات کے تحفظ کی مہم چلاتا ہے اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ویب سائٹ کیون رچرڈسن کی کوششوں سے ایک طرف تو جنگلی حیات کے تحفط کی تعلیم کو فروغ دے رہی ہے اور ساتھ ساتھ شعور و آگہی بیدار کرتے ہوئے فنڈنگ کے لیے بھی راہ ہموار کررہی ہے۔

''پنھترا'' نامی ایک کنزرویشن گروپ کے صدر لیوک ہنٹر کا کہنا ہے:''رچرڈسن ایک زبردست انسان ہے، وہ بہت باہمت، نڈر اور کمٹ منٹ والا انسان ہے جسے شیروں سے بہت محبت ہے اور وہ ان کی حفاظت، بقا اور سلامتی کے لیے بھی کوشاں ہے۔ وہ جو کچھ کررہا ہے، یہ سب بہترین اور لائق تحسین ہے۔ وہ لوگوں کی اس قدیم روایت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے جس میں وہ آتے جاتے شیروں کے ہاتھ مارتے تھے یا محض شغل کے لیے ان کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ اسے یہ چیز پسند نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ شیر بھی ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں، انہیں انسانوں کی طرح سمجھا جائے اور ان کے ساتھ پیار بھرا برتاؤ کیا جائے، یہی زندگی ہے اور یہی ہمارے شیروں کا حق ہے۔

کیون رچرڈسن کو شیروں کے گھروں اور ان کی پناہ گاہوں کی بہت فکر ہے۔ وہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتا ہے کہ شیروں کی کمین گاہوں کو تحفظ دیا جائے اور انہیں برباد ہونے سے بچایا جائے۔ وہ شیروں کے شوقیہ شکار کے بھی سخت خلاف ہے اور انہیں ہر گز قیدی بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شیر کی خوراک جیسے ہرن، بارہ سنگھے وغیرہ کے اسٹور کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ وہ شیروں کو دام یا پھندے لگاکر پکڑنے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ہمارے دوست شیروں کی ہڈیاں بعض ایشیائی ممالک میں روایتی دواؤں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ کام پوچرز بہت آسانی سے کرلیتے ہیں، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شیروں کے اس طرح شکار کو روکا جائے بلکہ اسے قانونی جرم قرار دیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔

فی الوقت جنوبی افریقا میں شیر کی ہڈیوں کی چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو برآمدات کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن کیون رچرڈسن کو شیروں سے بہت پیار ہے، اسے ان کے تحفظ اور سلامتی کی فکر ہے اور وہ اس شاہی جانور کو صحیح سلامت دیکھنا چاہتا ہے۔

اس کا کہنا ہے:''آپ لوگ شیروں سے میرے پیار کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ میں اس جانور سے اس حد تک پیار کرتا ہوں کہ اسے اپنے پاس قید میں رکھتے ہوئے بھی بہتر اور معیاری زندگی دینا چاہتا ہوں۔ میں اپنے اس دوست کی اس وقت تک دیکھ بھال کروں گا جب تک میرے دم میں دم ہے، اور جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تب بھی میری یہ دعا ہوگی کہ شیر بادشاہ سلامت رہے اور اس زمین پر ہمیشہ کی طرح دندنا پھرے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں