بچےجنہوں نے دنیا تبدیل کردی
کتابیں اس درجہ وزنی ہوتی تھیں کہ بچوں کے لیے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانااَزحددشوارتھا
لوئی بریل فرانس کے تاجر کا بیٹا تھا۔ والد کی ورکشاپ اس کے کھیلنے کی جگہ بن چکی تھی۔لوئی بچپن سے تجسس رکھنے والے ذہن کے ساتھ پیداہواتھا۔تجربات اورنئی جہتوں پرغورکرنے والامعصوم سابچہ۔آج سے دو صدیاں پہلے کا فرانس تھا۔1809ء کاملک۔بریل صرف تین برس کا تھا۔ حسبِ معمول والدکی ورکشاپ میں کھیل رہا تھا۔اسی جگہ پر ایک حادثہ ہوااوراس کی دونوں آنکھیں ضایع ہوگئیں۔تین برس کی ننھی سی عمرمیں بریل اب نابینا تھا۔شروع میں اسے قطعاً معلوم نہیں ہواکہ کس درجہ قیمتی آنکھوں کوکھو بیٹھا ہے۔
ہروقت اپنے والدین سے پوچھتارہتاتھاکہ اس کے اردگرد ہر وقت اندھیرا کیوں ہے۔ والدین اس کے سوال کاکوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ صرف یہ کہتے تھے کہ ابھی دن نہیں نکلا۔ بریل والدین کے آنسونہیں دیکھ سکتا تھا۔ بچے کو پڑھنے اورلکھنے سے عشق تھا۔ سمجھ چکاتھاکہ اس کی بصیرت ختم ہوچکی ہے۔مگراس نے حادثہ کواپنے لیے سوہان روح نہیں بنایا۔اسکول میں داخلہ لے کرتعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ دس برس کی عمرمیں پیرس کی''رائل انسٹیٹیوٹ فاربلائنڈ'' میں داخلہ مل گیا۔وہاں تمام طلباء اورطالبات نابینا تھے۔ بریل نے محسوس کیاکہ اسکول میں بھی پڑھنے کے لیے جوطریقہ کاراپنایاگیاہے،وہ انتہائی مشکل بلکہ پیچیدہ ہے۔ابھرے ہوئے لاطینی الفاظ، بڑے ضخیم کاغذپرنقش کردیے جاتے تھے۔
کتابیں اس درجہ وزنی ہوتی تھیں کہ بچوں کے لیے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانااَزحد دشوارتھا۔یہ طریقہ ولنٹین ہیوا (Valentin Hauy)نام کے ایک عظیم آدمی نے تشکیل دیا تھا۔ انسٹیٹیوٹ بھی اس نے بنایا تھا ۔ولینٹن نے اپنی پوری زندگی اورجائیداد،بے بصیرت لوگوں کے لیے وقف کرڈالی تھی۔ بریل کے ذہن میں خیال تھا،کہ کسی بھی طرح نابینا انسانوں کے لیے پڑھائی آسان کر دے۔ایک دن اسے خیال آیاکہ پورے الفاظ کاغذ پر کیوں نقش ہوں۔بریل نے ایک کاغذلیا۔تمام تحریر کو الفاظ کے بجائے چھوٹے چھوٹے ابھرے ہوئے نقطوں میں تبدیل کر ڈالا۔کوئی بھی بچہ اپنی انگلیوں سے ان ابھرے ہوئے نقطوںکومحسوس کرکے الفاظ ترتیب دے سکتاتھا۔بریل اس وقت صرف پندرہ برس کاتھا۔بریل نے نابیناانسانوں کے پڑھنے کے لیے ایک ایسے آسان طریقے کی بنیادڈالی جوآج تک قائم ہے۔پندرہ برس کے بچے نے ایک ایساکارنامہ انجام دیا،جوہرطریقے سے ایک تعلیمی انقلاب کی بنیادبن گیا۔دوصدیاں گزرنے کے بعدآج بھی بینائی سے محروم لوگ بریل سسٹم کے ذریعے ہی کتابیں پڑھتے ہیں۔ جب تک دنیا قائم ہے، اس بچے کے عظیم کام کی خوشبوقائم ودائم رہے گی۔
کلاڈیٹ کی لون(Claudette Colvin) ایک سیاہ فام بچی تھی۔الابامہ میں پیداہونے والی یہ بچی قطعاً نہیں جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے امریکا میں سیاہ فام لوگوں کا مقدر،قسمت،مستقبل اورحقوق سوفیصدتبدیل ہوجائینگے۔ کلاڈیٹ عام سی لڑکی تھی۔سیاست سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں تھی۔1955ء کے امریکا میں سیاہ فام لوگوں کے عملی طورکوئی حقوق نہیں تھے۔سفرکے دوران رنگت کی بنیادپرنشستوں کی تقسیم موجود تھی۔کالی جلدوالے اپنی مخصوص نشستوں پربیٹھے تھے اورگورے اپنی پر۔اسکول بھی الگ الگ تھے۔کالوں کے لیے ہرسہولت گوروں سے الگ تھی۔اپنے اسپتال،اپنی آبادیاں اورایک مخدوش مستقبل۔ عملی طورپرامریکا میں یہ تمام لوگ دوسرے درجہ کے شہری اور تیسرے درجہ کے انسان تھے۔اس لیے کہ دوسرے درجہ پر گوروں کے پالتو جانورآتے تھے۔جنکی قدرومنزلت سیاہ فام انسانوں سے بہت زیادہ تھی۔کوئی ایک یادوصدیوں پرانی بات نہیں۔ چند دہائیاں پہلے کی بات ہے۔شہرکاقانون یہ بھی تھاکہ اگرکسی بس میں تمام نشستیں بھری ہوئی ہیں اورکوئی سفیدفام مسافر آجاتاہے تو سیاہ فام مسافراپنی سیٹ سے اُٹھے گا اور کھڑا ہوجائے گا۔
گورا،اس خالی کردہ نشست پربیٹھ جائے گا۔کسی روایت یارسم کاذکرنہیں کررہا۔یہ الابامہ ریاست کاقانون تھا۔ کلاڈیٹ 2مارچ1955ء کواسکول سے بس میں واپس آرہی تھی۔اسٹاپ پربس رکی توایک سفیدفام مسافربس میں آگیا۔تمام سیٹیں کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔گورے مسافر کے لیے کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔مقامی قوانین کے تحت ڈرائیورنے بس کے مسافروں کوغورسے دیکھا۔اسے کلاڈیٹ ایک کمزورسی لڑکی نظرآئی جسے اپنی نشست سے آسانی سے اُٹھایاجاسکتاتھا۔ڈرائیورنے پندرہ سالہ بچی کو حکم دیاکہ اپنی سیٹ سفیدفام شخص کے لیے خالی کر دے۔ کلاڈیٹ نے اُٹھنے سے مکمل انکارکردیا۔جواب تھاکہ اس نے بس کااتناہی کرایہ دیاہے جتناسفیدفام شخص نے۔ لہذا اس کے بحیثیت مسافراتنے ہی حقوق ہیں جتنے کسی گوری چمڑی والے کے۔ڈرائیورکااس نحیف سی لڑکی کے متعلق اندازہ مکمل طورپرغلط ثابت ہوا۔موقعہ پرپولیس بلالی گئی اوربچی کوگرفتارکرکے پابندسلاسل کردیاگیا۔
ضمانت کے بعدجب گھرپہنچی،توتمام محلہ اوربالخصوص گھرمیں خوف کی فضا تھی۔ سب کودھڑکالگاہواتھاکہ سفیدفام غنڈے ان کے گھروں کوجلاڈالیں گے اور قتل کردینگے۔بہرحال معاملہ یہاں تک نہیں بگڑا۔مگرکلاڈیٹ کواسکول سے نکال دیا گیا۔ وہ نوکری تلاش کرنے جہاں بھی جاتی،اسے ایک باغی اور سازشی انسان قراردیاجاتا۔نوکری کے تمام دروازے پندرہ سالہ بچی پربندکردیے گئے۔اب ایک طرف وہ ایک کمزور فریق تھی اوراسکامقابلہ ایسے نظام سے تھاجس میں صرف سفیدفام ہی انسان کہلانے کے حقدار تھے۔ کلاڈیٹ مصیبتوں،پریشانیوں اورغربت سے لڑتی رہی۔ اس نے چارکالے لوگوں کے ساتھ عدالت عظمیٰ میں جانے کافیصلہ کیا۔ سفیدفام لوگوں نے تمام درخواست گزاروں پربے پناہ دباؤڈالا۔ایک درخواست گزار دباؤ کامقابلہ نہ کرسکی اور مقدمہ سے دستبردارہوگئی۔مگرکلاڈیٹ نے کسی بھی دباؤ میں آنے سے انکارکردیا۔1956ء میں مقدمہ کافیصلہ ہوا۔ یہ تاریخی فیصلہ امریکا میں انسانی حقوق کی بنیاد بنا۔ فیصلہ میں درج تھاکہ بسوں میں سیاہ فام اور سفیدفام نشستوں کامختص ہونا،آئین کے خلاف ہے۔ کسی بھی کالی رنگت والے مسافر کواس کی نشست سے کسی بھی صورت میں محروم نہیں کیا جاسکتا۔اس عظیم فیصلے سے امریکا میں سیاہ فام انسانی حقوق کی تنظیموں میں جان پڑگئی۔
کیٹی سٹاگ لی اینوکی عمرصرف بارہ برس تھی۔ بچی نے اردگرددیکھاتواسے بہت سے انسان نظرآئے جنھیں دووقت کاکھانانصیب نہیں تھا۔کیٹی ایک حساس لڑکی اور ذہین طالبعلم تھی۔اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کسی غریب کوکھاناخریدکردے سکے۔گھرکے پچھلی طرف ایک بہت چھوٹاساباغ تھا۔ کیٹی نے کتابیں پڑھیں اورتحقیق کرتی رہی کہ اتنی محدودسی جگہ پرعام لوگوں کی بہتری کے لیے کیاکرسکتی ہے۔بچی کے ذہن میں ایک اچھوتاخیال آیا۔ باغیچہ میں کیٹی نے گوبھی اُگانی شروع کردی۔تحقیق کے مطابق کھاد،پانی اورنمکیات ڈالنے سے گوبھی کا ہر پھول بیس کلووزن کاہوگیا۔بچی اسکول سے آتی۔گوبھی کاٹ کر کھانابناتی ۔بے سہارااورغریب لوگوں کوان کے گھر پر کھانا دے آتی۔کچن سے پہلے دن تین سو بندوں کو کھانا مہیا کیا گیا۔جب لوگوں کومعلوم ہواکہ بارہ برس کی لڑکی اتنانیک کام کررہی ہے توانھوں نے اسے مالی امدادفراہم کرنے کی کوشش کی۔کیٹی نے امدادلینے سے انکارکردیا۔اس نے ایک گروپ بنایا جس میں تمام لوگ مختلف جگہوں پرحسب اطاعت فصلیں اُگاتے ہیں۔صرف دس ماہ میں مفلوک الحال لوگوں میں ہزاروں کلوسبزی،پھل اور کھانا تقسیم کیا گیا۔اب یہ ایک مہم کی صورت اختیارکرچکی ہے۔ اب کیٹی صرف چودہ برس کی ہے۔مگراس نے اتنی ننھی سی عمرمیں وہ نیک کام کیاجولوگ اپنی تمام عمرمیں بھی نہیں کرپاتے۔
ہمارے ملک کے بچے اوربچیاں دنیاکے ذہین ترین قوموں کی طرح کے ہی ہیں۔کسی اعتبارسے بھی کمتر نہیں۔مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے طالبعلم اور طالبات نئی جہتوں پرکیوں غورنہیں کرتے۔اس کی متعدد وجوہات ہیں۔جیسے ہی بچے بڑے ہوتے ہیں، ان کوایک اَن دیکھے سماجی خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ذہین ترین سوالات کاجواب دینے کے بجائے انھیں ڈانٹ دیا جاتاہے۔ان کی سوچ پرمختلف طرح کے قفل لگادیے جاتے ہیں۔آہستہ آہستہ ہمارے باصلاحیت بچے بھی نئے خیال کو سوچنے کی طرف راغب ہونا بند کر دیتے ہیں۔ نوکری، ذریعہ معاش اورمعاشرہ کی منافقت ان کے ذہنوں پرہاوی کردی جاتی ہے۔ قدرت ان بچوں سے فکر کا انعام واپس لے لیتی ہے۔یہ ہمارے معاشرے کے عام سے انسان بن جاتے ہیں اورپھرعام سی زندگی گزارکرراہِ فناکاشکار ہوجاتے ہیں۔بچپن کے تجسس کو بھرپور طریقے سے برباد کیا جاتا ہے۔نتیجہ سامنے ہے کہ وہ ذہنی مفلوج ہجوم میں تبدیل ہوجاتے ہیں،جسکی نہ کوئی منزل ہے اورجسکے پاس نہ ہی کوئی راستہ ہے۔تمام معاشرہ ایک ایسے ذہنی جوہڑ میں تبدیل ہوچکاہے جس میں ذہین بچوں کوان کی صلاحیت کے مطابق پھلنے پھولنے کاکوئی موقعہ میسرنہیں ہے۔ یہاں کاتمام سماج نئی سوچ سے بھرپورطریقے سے خوف ذدہ ہے۔یہ خوف کبھی ختم نہیں ہوگا!نئی سوچ کبھی جنم نہیں لے گی!
ہروقت اپنے والدین سے پوچھتارہتاتھاکہ اس کے اردگرد ہر وقت اندھیرا کیوں ہے۔ والدین اس کے سوال کاکوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ صرف یہ کہتے تھے کہ ابھی دن نہیں نکلا۔ بریل والدین کے آنسونہیں دیکھ سکتا تھا۔ بچے کو پڑھنے اورلکھنے سے عشق تھا۔ سمجھ چکاتھاکہ اس کی بصیرت ختم ہوچکی ہے۔مگراس نے حادثہ کواپنے لیے سوہان روح نہیں بنایا۔اسکول میں داخلہ لے کرتعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ دس برس کی عمرمیں پیرس کی''رائل انسٹیٹیوٹ فاربلائنڈ'' میں داخلہ مل گیا۔وہاں تمام طلباء اورطالبات نابینا تھے۔ بریل نے محسوس کیاکہ اسکول میں بھی پڑھنے کے لیے جوطریقہ کاراپنایاگیاہے،وہ انتہائی مشکل بلکہ پیچیدہ ہے۔ابھرے ہوئے لاطینی الفاظ، بڑے ضخیم کاغذپرنقش کردیے جاتے تھے۔
کتابیں اس درجہ وزنی ہوتی تھیں کہ بچوں کے لیے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانااَزحد دشوارتھا۔یہ طریقہ ولنٹین ہیوا (Valentin Hauy)نام کے ایک عظیم آدمی نے تشکیل دیا تھا۔ انسٹیٹیوٹ بھی اس نے بنایا تھا ۔ولینٹن نے اپنی پوری زندگی اورجائیداد،بے بصیرت لوگوں کے لیے وقف کرڈالی تھی۔ بریل کے ذہن میں خیال تھا،کہ کسی بھی طرح نابینا انسانوں کے لیے پڑھائی آسان کر دے۔ایک دن اسے خیال آیاکہ پورے الفاظ کاغذ پر کیوں نقش ہوں۔بریل نے ایک کاغذلیا۔تمام تحریر کو الفاظ کے بجائے چھوٹے چھوٹے ابھرے ہوئے نقطوں میں تبدیل کر ڈالا۔کوئی بھی بچہ اپنی انگلیوں سے ان ابھرے ہوئے نقطوںکومحسوس کرکے الفاظ ترتیب دے سکتاتھا۔بریل اس وقت صرف پندرہ برس کاتھا۔بریل نے نابیناانسانوں کے پڑھنے کے لیے ایک ایسے آسان طریقے کی بنیادڈالی جوآج تک قائم ہے۔پندرہ برس کے بچے نے ایک ایساکارنامہ انجام دیا،جوہرطریقے سے ایک تعلیمی انقلاب کی بنیادبن گیا۔دوصدیاں گزرنے کے بعدآج بھی بینائی سے محروم لوگ بریل سسٹم کے ذریعے ہی کتابیں پڑھتے ہیں۔ جب تک دنیا قائم ہے، اس بچے کے عظیم کام کی خوشبوقائم ودائم رہے گی۔
کلاڈیٹ کی لون(Claudette Colvin) ایک سیاہ فام بچی تھی۔الابامہ میں پیداہونے والی یہ بچی قطعاً نہیں جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے امریکا میں سیاہ فام لوگوں کا مقدر،قسمت،مستقبل اورحقوق سوفیصدتبدیل ہوجائینگے۔ کلاڈیٹ عام سی لڑکی تھی۔سیاست سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں تھی۔1955ء کے امریکا میں سیاہ فام لوگوں کے عملی طورکوئی حقوق نہیں تھے۔سفرکے دوران رنگت کی بنیادپرنشستوں کی تقسیم موجود تھی۔کالی جلدوالے اپنی مخصوص نشستوں پربیٹھے تھے اورگورے اپنی پر۔اسکول بھی الگ الگ تھے۔کالوں کے لیے ہرسہولت گوروں سے الگ تھی۔اپنے اسپتال،اپنی آبادیاں اورایک مخدوش مستقبل۔ عملی طورپرامریکا میں یہ تمام لوگ دوسرے درجہ کے شہری اور تیسرے درجہ کے انسان تھے۔اس لیے کہ دوسرے درجہ پر گوروں کے پالتو جانورآتے تھے۔جنکی قدرومنزلت سیاہ فام انسانوں سے بہت زیادہ تھی۔کوئی ایک یادوصدیوں پرانی بات نہیں۔ چند دہائیاں پہلے کی بات ہے۔شہرکاقانون یہ بھی تھاکہ اگرکسی بس میں تمام نشستیں بھری ہوئی ہیں اورکوئی سفیدفام مسافر آجاتاہے تو سیاہ فام مسافراپنی سیٹ سے اُٹھے گا اور کھڑا ہوجائے گا۔
گورا،اس خالی کردہ نشست پربیٹھ جائے گا۔کسی روایت یارسم کاذکرنہیں کررہا۔یہ الابامہ ریاست کاقانون تھا۔ کلاڈیٹ 2مارچ1955ء کواسکول سے بس میں واپس آرہی تھی۔اسٹاپ پربس رکی توایک سفیدفام مسافربس میں آگیا۔تمام سیٹیں کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔گورے مسافر کے لیے کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔مقامی قوانین کے تحت ڈرائیورنے بس کے مسافروں کوغورسے دیکھا۔اسے کلاڈیٹ ایک کمزورسی لڑکی نظرآئی جسے اپنی نشست سے آسانی سے اُٹھایاجاسکتاتھا۔ڈرائیورنے پندرہ سالہ بچی کو حکم دیاکہ اپنی سیٹ سفیدفام شخص کے لیے خالی کر دے۔ کلاڈیٹ نے اُٹھنے سے مکمل انکارکردیا۔جواب تھاکہ اس نے بس کااتناہی کرایہ دیاہے جتناسفیدفام شخص نے۔ لہذا اس کے بحیثیت مسافراتنے ہی حقوق ہیں جتنے کسی گوری چمڑی والے کے۔ڈرائیورکااس نحیف سی لڑکی کے متعلق اندازہ مکمل طورپرغلط ثابت ہوا۔موقعہ پرپولیس بلالی گئی اوربچی کوگرفتارکرکے پابندسلاسل کردیاگیا۔
ضمانت کے بعدجب گھرپہنچی،توتمام محلہ اوربالخصوص گھرمیں خوف کی فضا تھی۔ سب کودھڑکالگاہواتھاکہ سفیدفام غنڈے ان کے گھروں کوجلاڈالیں گے اور قتل کردینگے۔بہرحال معاملہ یہاں تک نہیں بگڑا۔مگرکلاڈیٹ کواسکول سے نکال دیا گیا۔ وہ نوکری تلاش کرنے جہاں بھی جاتی،اسے ایک باغی اور سازشی انسان قراردیاجاتا۔نوکری کے تمام دروازے پندرہ سالہ بچی پربندکردیے گئے۔اب ایک طرف وہ ایک کمزور فریق تھی اوراسکامقابلہ ایسے نظام سے تھاجس میں صرف سفیدفام ہی انسان کہلانے کے حقدار تھے۔ کلاڈیٹ مصیبتوں،پریشانیوں اورغربت سے لڑتی رہی۔ اس نے چارکالے لوگوں کے ساتھ عدالت عظمیٰ میں جانے کافیصلہ کیا۔ سفیدفام لوگوں نے تمام درخواست گزاروں پربے پناہ دباؤڈالا۔ایک درخواست گزار دباؤ کامقابلہ نہ کرسکی اور مقدمہ سے دستبردارہوگئی۔مگرکلاڈیٹ نے کسی بھی دباؤ میں آنے سے انکارکردیا۔1956ء میں مقدمہ کافیصلہ ہوا۔ یہ تاریخی فیصلہ امریکا میں انسانی حقوق کی بنیاد بنا۔ فیصلہ میں درج تھاکہ بسوں میں سیاہ فام اور سفیدفام نشستوں کامختص ہونا،آئین کے خلاف ہے۔ کسی بھی کالی رنگت والے مسافر کواس کی نشست سے کسی بھی صورت میں محروم نہیں کیا جاسکتا۔اس عظیم فیصلے سے امریکا میں سیاہ فام انسانی حقوق کی تنظیموں میں جان پڑگئی۔
کیٹی سٹاگ لی اینوکی عمرصرف بارہ برس تھی۔ بچی نے اردگرددیکھاتواسے بہت سے انسان نظرآئے جنھیں دووقت کاکھانانصیب نہیں تھا۔کیٹی ایک حساس لڑکی اور ذہین طالبعلم تھی۔اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کسی غریب کوکھاناخریدکردے سکے۔گھرکے پچھلی طرف ایک بہت چھوٹاساباغ تھا۔ کیٹی نے کتابیں پڑھیں اورتحقیق کرتی رہی کہ اتنی محدودسی جگہ پرعام لوگوں کی بہتری کے لیے کیاکرسکتی ہے۔بچی کے ذہن میں ایک اچھوتاخیال آیا۔ باغیچہ میں کیٹی نے گوبھی اُگانی شروع کردی۔تحقیق کے مطابق کھاد،پانی اورنمکیات ڈالنے سے گوبھی کا ہر پھول بیس کلووزن کاہوگیا۔بچی اسکول سے آتی۔گوبھی کاٹ کر کھانابناتی ۔بے سہارااورغریب لوگوں کوان کے گھر پر کھانا دے آتی۔کچن سے پہلے دن تین سو بندوں کو کھانا مہیا کیا گیا۔جب لوگوں کومعلوم ہواکہ بارہ برس کی لڑکی اتنانیک کام کررہی ہے توانھوں نے اسے مالی امدادفراہم کرنے کی کوشش کی۔کیٹی نے امدادلینے سے انکارکردیا۔اس نے ایک گروپ بنایا جس میں تمام لوگ مختلف جگہوں پرحسب اطاعت فصلیں اُگاتے ہیں۔صرف دس ماہ میں مفلوک الحال لوگوں میں ہزاروں کلوسبزی،پھل اور کھانا تقسیم کیا گیا۔اب یہ ایک مہم کی صورت اختیارکرچکی ہے۔ اب کیٹی صرف چودہ برس کی ہے۔مگراس نے اتنی ننھی سی عمرمیں وہ نیک کام کیاجولوگ اپنی تمام عمرمیں بھی نہیں کرپاتے۔
ہمارے ملک کے بچے اوربچیاں دنیاکے ذہین ترین قوموں کی طرح کے ہی ہیں۔کسی اعتبارسے بھی کمتر نہیں۔مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے طالبعلم اور طالبات نئی جہتوں پرکیوں غورنہیں کرتے۔اس کی متعدد وجوہات ہیں۔جیسے ہی بچے بڑے ہوتے ہیں، ان کوایک اَن دیکھے سماجی خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ذہین ترین سوالات کاجواب دینے کے بجائے انھیں ڈانٹ دیا جاتاہے۔ان کی سوچ پرمختلف طرح کے قفل لگادیے جاتے ہیں۔آہستہ آہستہ ہمارے باصلاحیت بچے بھی نئے خیال کو سوچنے کی طرف راغب ہونا بند کر دیتے ہیں۔ نوکری، ذریعہ معاش اورمعاشرہ کی منافقت ان کے ذہنوں پرہاوی کردی جاتی ہے۔ قدرت ان بچوں سے فکر کا انعام واپس لے لیتی ہے۔یہ ہمارے معاشرے کے عام سے انسان بن جاتے ہیں اورپھرعام سی زندگی گزارکرراہِ فناکاشکار ہوجاتے ہیں۔بچپن کے تجسس کو بھرپور طریقے سے برباد کیا جاتا ہے۔نتیجہ سامنے ہے کہ وہ ذہنی مفلوج ہجوم میں تبدیل ہوجاتے ہیں،جسکی نہ کوئی منزل ہے اورجسکے پاس نہ ہی کوئی راستہ ہے۔تمام معاشرہ ایک ایسے ذہنی جوہڑ میں تبدیل ہوچکاہے جس میں ذہین بچوں کوان کی صلاحیت کے مطابق پھلنے پھولنے کاکوئی موقعہ میسرنہیں ہے۔ یہاں کاتمام سماج نئی سوچ سے بھرپورطریقے سے خوف ذدہ ہے۔یہ خوف کبھی ختم نہیں ہوگا!نئی سوچ کبھی جنم نہیں لے گی!