جے آئی ٹی کے خلاف محاذ آرائی کیوں
نہال ہاشمی کی شعلہ بیانی کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اب کوئی اندازہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں رہی
''آرم ٹو عراق'' کے دستاویز، واٹرگیٹ، ایران کونٹرا اور بل کلنٹن کے مواخذے سمیت امریکی سیاسی تاریخ کے اہم مواقع کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہوئے گلاسگو کی اسٹارتھ کلائڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر گلن نیوے نے 2003ء میں اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا تھا کہ جمہوریت میں فریب دہی نہ صرف کبھی کبھی ناگزیر ہو جاتی ہے بلکہ یہ عین قانون کے مطابق ہو سکتی ہے، اگر منتخب نمایندہ ایسا کوئی کام عوامی مفاد میں کرتا ہے اور اسے حلقہ انتخاب کی حمایت بھی حاصل ہو۔ ڈاکٹر نیوے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جہاں ذاتی مفادات اہم ہوں، سیاست داں فریب کاری اور کذب بیانی میں مصروف ہوں وہاں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ اس ماحول میں قومی یا عوامی مفاد کی لیڈروں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
ماضی و حال کی جمہوری حکومتوں کی بدعنوانی، بدانتظامی اور بری طرز حکمرانی اپنی جگہ، لیکن جرائم کو جس طرح ریاستی نظام کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ انھی صفحات پر ''ہوشیار رہنا بہتر ہے!'' کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا: ''جو کرپشن کو برداشت کرنے اور بیک وقت اس کی مذمت کرنے کو تیار نہیں انھیں وہائٹ کالر جرائم اور منظم جرائم میں فرق کرنا ہوگا۔ یہ لوگ مجرموں کو بھتہ وصولی، جائیدادوں کے حصول، قتل، اغوا برائے تاوان اور مذہبی مسلح گروہوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومتی اداروں کی سطح پر سہولت فراہم کرنے والے شہریوں کے خلاف اپنی ''دہشتگرد ریاست'' بنانے کے ذمے دار ہیں۔ یہ کسی صورت ''آئینی'' نہیں اور نہ ہی ''جمہوریت'' کی کسی تخیلاتی تعریف کے مطابق ہے۔ کراچی کے بلاول ہاؤس کے رہائشی اور اطراف کی جائیدادیں ایک علامت ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ اکثر مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد کے خلاف آنکھیں، کان اور زبان کیوں بند کیے رکھتی ہے۔''
منظم بدعنوانی اور جرائم کو طرز حکمرانی کا حصہ بنا دیا گیا۔ دولت کے انبار لگے ہیں لیکن بھوک نہیں مٹتی۔
پاناماگیٹ میں شواہد کی تلاش کے لیے عدالت عظمیٰ کے تین جج صاحبان نے جے آئی ٹی بنا کر اپنے ان دو سینیئرجج صاحبان کی خاموش تائید کی، جن کی رائے میں یہ مقدمہ وزیراعظم کی نااہلی پر منتج ہونا چاہیے تھا۔ حقائق سے چشم پوشی پر مُصر مسلم لیگ نون کی قیادت اور کارکنوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے فیصلے پر ''فتح'' کا جشن منایا اور مٹھائی تقسیم کی۔ نون لیگ کے حقیقی خیر خواہوں کو جے آئی ٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے لیڈر کے لیے مشکلات کا تو آغاز اب ہوا ہے، اس لیے وزیر اعظم کے صاحبزادگان سے جے آئی ٹی کی تفتیش کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ جے آئی ٹی اُنہی تین جج صاحبان نے تشکیل دی، جو اس پاناما کیس کے فیصلے میں وزیر اعظم کو کسی حد تک رعایت دے چکے تھے۔ اس کے باجود نون لیگ کی جانب سے جے آئی ٹی کی غیر جانب داری اور اعتماد پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ وزیراعظم مشکل میں ہیں۔
نون لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کے دھمکی آمیز بیانات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید نے حکومت کو ''سسیلین مافیا'' سے تشبیہ دی۔ عدالت نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے، حکومت ججوں اور جے آئی ٹی حکام کے خلاف ایک منظم مہم چلا رہی ہے۔
نہال ہاشمی کی شعلہ بیانی کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اب کوئی اندازہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کا حساب لینے والوں کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ ''سن لو! تم وزیر اعظم کے بیٹے سے حساب مانگتے ہو، تم ہوتے کون ہو حساب مانگنے والے؟۔۔۔ہم انھیں چھوڑیں گے نہیں جو آج ہم سے حساب مانگ رہے ہیں۔'' نہال ہاشمی کی اس تقریر سے ملک میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان نے، جو اپنی دیانت اور مثالی کردار کی وجہ سے جراتمند بھی ہیں، ان دھمکیوں کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ صورت حال سنبھالنے کے لیے وزیر اعظم نے نہال ہاشمی سے فاصلہ ہی رکھا، ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی اور انھیں سینیٹ سے مستعفی ہونے کی ہدایات جاری کیں۔
بہ ظاہر دھمکی نہال ہاشمی نے دی، لیکن یہ حکمران کا پرانا طریقۂ واردات ہے، وہ اپنی بات کہنے کے لیے کارندوں سے کام لیتے ہیں۔
جب بھی ہمارے سیاست دانوں کا یہ خدشہ شدید ہوجاتا ہے کہ احتساب کے عوامی مطالبات زور پکڑ رہے ہیں اور فضا ان کے لیے خراب ہورہی ہے تو وہ شکوک و شبہات پھیلانے کے لیے خوب گرد اڑانا شروع کردیتے ہیں۔ اب شہباز شریف کی جانب سے بھی عدلیہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ مسلم لیگ نون عدلیہ کے خلاف صف آرا ہوچکی ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان پر سوالات کیوں نہیں کھڑے کیے گئے؟منتخب نمایندوں اور حکومتی عہدے داروں کی جانب سے بہتان طرازی، غلط بیانی،اپنے قانونی دائرہ کار سے تجاوز کرنے اور عدلیہ کی توہین کی جسارت کے خلاف کڑے قوانین ہونے چاہیے۔
پہلی مرتبہ نہال ہاشمی جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو ان کی گھبراہٹ واضح تھی۔ انھوں نے ایک اطاعت شعار کارکن کی طرح اپنا استعفی بھی فوری طور پر چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا۔ لیکن ایک دو دنوں میں ایسا کیا کرشمہ ہوا کہ نہال ہاشمی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ سپریم کورٹ کی اگلی پیشی میں وہ بااعتماد اور پرُسکون تھے۔ ممکن ہے کہ نہال ہاشمی کو اپنی پارٹی قیادت کا یہ رویہ ناگوار گزرا ہو کہ ان کی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے اظہار کے لیے کئی گئی پرفارمنس کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا جب کہ نہال ہاشمی نے ایسا کرتے ہوئے اپنا سیاسی کرئیر داؤ پر لگا دیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سرزنش کے بعد نون لیگ نے بھی ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے، جو نہال ہاشمی سے ''پارٹی نظم کی خلاف ورزی'' کی وضاحت طلب کرے گی، ممکن ہے کہ اس سرگرمی میں نہال ہاشمی صاف بچ نکلنے میں کام یاب ہوجائیں۔ ممکن ہے یہ بھی عدالت کو متنازعہ بنانے کے لیے نون لیگ کا تیار کردہ ڈراما ہو جو وہ پہلے ہی رچا چکی ہے۔
ماضی و حال کی جمہوری حکومتوں کی بدعنوانی، بدانتظامی اور بری طرز حکمرانی اپنی جگہ، لیکن جرائم کو جس طرح ریاستی نظام کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ انھی صفحات پر ''ہوشیار رہنا بہتر ہے!'' کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا: ''جو کرپشن کو برداشت کرنے اور بیک وقت اس کی مذمت کرنے کو تیار نہیں انھیں وہائٹ کالر جرائم اور منظم جرائم میں فرق کرنا ہوگا۔ یہ لوگ مجرموں کو بھتہ وصولی، جائیدادوں کے حصول، قتل، اغوا برائے تاوان اور مذہبی مسلح گروہوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومتی اداروں کی سطح پر سہولت فراہم کرنے والے شہریوں کے خلاف اپنی ''دہشتگرد ریاست'' بنانے کے ذمے دار ہیں۔ یہ کسی صورت ''آئینی'' نہیں اور نہ ہی ''جمہوریت'' کی کسی تخیلاتی تعریف کے مطابق ہے۔ کراچی کے بلاول ہاؤس کے رہائشی اور اطراف کی جائیدادیں ایک علامت ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ اکثر مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد کے خلاف آنکھیں، کان اور زبان کیوں بند کیے رکھتی ہے۔''
منظم بدعنوانی اور جرائم کو طرز حکمرانی کا حصہ بنا دیا گیا۔ دولت کے انبار لگے ہیں لیکن بھوک نہیں مٹتی۔
پاناماگیٹ میں شواہد کی تلاش کے لیے عدالت عظمیٰ کے تین جج صاحبان نے جے آئی ٹی بنا کر اپنے ان دو سینیئرجج صاحبان کی خاموش تائید کی، جن کی رائے میں یہ مقدمہ وزیراعظم کی نااہلی پر منتج ہونا چاہیے تھا۔ حقائق سے چشم پوشی پر مُصر مسلم لیگ نون کی قیادت اور کارکنوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے فیصلے پر ''فتح'' کا جشن منایا اور مٹھائی تقسیم کی۔ نون لیگ کے حقیقی خیر خواہوں کو جے آئی ٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے لیڈر کے لیے مشکلات کا تو آغاز اب ہوا ہے، اس لیے وزیر اعظم کے صاحبزادگان سے جے آئی ٹی کی تفتیش کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ جے آئی ٹی اُنہی تین جج صاحبان نے تشکیل دی، جو اس پاناما کیس کے فیصلے میں وزیر اعظم کو کسی حد تک رعایت دے چکے تھے۔ اس کے باجود نون لیگ کی جانب سے جے آئی ٹی کی غیر جانب داری اور اعتماد پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ وزیراعظم مشکل میں ہیں۔
نون لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کے دھمکی آمیز بیانات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید نے حکومت کو ''سسیلین مافیا'' سے تشبیہ دی۔ عدالت نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے، حکومت ججوں اور جے آئی ٹی حکام کے خلاف ایک منظم مہم چلا رہی ہے۔
نہال ہاشمی کی شعلہ بیانی کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اب کوئی اندازہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کا حساب لینے والوں کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ ''سن لو! تم وزیر اعظم کے بیٹے سے حساب مانگتے ہو، تم ہوتے کون ہو حساب مانگنے والے؟۔۔۔ہم انھیں چھوڑیں گے نہیں جو آج ہم سے حساب مانگ رہے ہیں۔'' نہال ہاشمی کی اس تقریر سے ملک میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان نے، جو اپنی دیانت اور مثالی کردار کی وجہ سے جراتمند بھی ہیں، ان دھمکیوں کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ صورت حال سنبھالنے کے لیے وزیر اعظم نے نہال ہاشمی سے فاصلہ ہی رکھا، ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی اور انھیں سینیٹ سے مستعفی ہونے کی ہدایات جاری کیں۔
بہ ظاہر دھمکی نہال ہاشمی نے دی، لیکن یہ حکمران کا پرانا طریقۂ واردات ہے، وہ اپنی بات کہنے کے لیے کارندوں سے کام لیتے ہیں۔
جب بھی ہمارے سیاست دانوں کا یہ خدشہ شدید ہوجاتا ہے کہ احتساب کے عوامی مطالبات زور پکڑ رہے ہیں اور فضا ان کے لیے خراب ہورہی ہے تو وہ شکوک و شبہات پھیلانے کے لیے خوب گرد اڑانا شروع کردیتے ہیں۔ اب شہباز شریف کی جانب سے بھی عدلیہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ مسلم لیگ نون عدلیہ کے خلاف صف آرا ہوچکی ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان پر سوالات کیوں نہیں کھڑے کیے گئے؟منتخب نمایندوں اور حکومتی عہدے داروں کی جانب سے بہتان طرازی، غلط بیانی،اپنے قانونی دائرہ کار سے تجاوز کرنے اور عدلیہ کی توہین کی جسارت کے خلاف کڑے قوانین ہونے چاہیے۔
پہلی مرتبہ نہال ہاشمی جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو ان کی گھبراہٹ واضح تھی۔ انھوں نے ایک اطاعت شعار کارکن کی طرح اپنا استعفی بھی فوری طور پر چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا۔ لیکن ایک دو دنوں میں ایسا کیا کرشمہ ہوا کہ نہال ہاشمی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ سپریم کورٹ کی اگلی پیشی میں وہ بااعتماد اور پرُسکون تھے۔ ممکن ہے کہ نہال ہاشمی کو اپنی پارٹی قیادت کا یہ رویہ ناگوار گزرا ہو کہ ان کی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے اظہار کے لیے کئی گئی پرفارمنس کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا جب کہ نہال ہاشمی نے ایسا کرتے ہوئے اپنا سیاسی کرئیر داؤ پر لگا دیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سرزنش کے بعد نون لیگ نے بھی ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے، جو نہال ہاشمی سے ''پارٹی نظم کی خلاف ورزی'' کی وضاحت طلب کرے گی، ممکن ہے کہ اس سرگرمی میں نہال ہاشمی صاف بچ نکلنے میں کام یاب ہوجائیں۔ ممکن ہے یہ بھی عدالت کو متنازعہ بنانے کے لیے نون لیگ کا تیار کردہ ڈراما ہو جو وہ پہلے ہی رچا چکی ہے۔