وائٹ سپرمیسی کا ابھرتا عفریت
امریکا میں مُعتصب سفید فام اکثریت نے مسلمانوں اور سیاہ فاموں کے خلاف نفرت وعناد کا نیا محاذ کھول دیا
یہ 26 مئی کی سہ پہر تھی کہ امریکی شہر پورٹ لینڈ میں مقیم ایک مسلمان لڑکی اپنی غیر مسلم سیاہ فام سہیلی کے ساتھ مقامی ریل میں سوار ہوئی۔
پورٹ لینڈ مغربی امریکا کی ریاست، اوریگن کا سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر کی 76 فیصد آبادی سفید فاموں، 7 فیصد ایشیائی باشندوں اور 6.3 فیصد سیاہ فاموں پر مشتمل ہے۔ مضافاتی بستیوں کو ملا کر شہری آبادی تقریباً اکتیس لاکھ ہے۔ اس میں سے 0.26 آبادی مسلمان ہے۔ریل میں جرمی جوزف کرسچن نامی ایک سفید فام نوجوان بھی سوار تھا۔ اس نے جب حجاب میں ملبوس مسلم لڑکی اور اس کی سیاہ فام سہیلی کو دیکھا، تو ان کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرنے لگا۔
امریکی نوجوان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ بیچاری لڑکیاں سہم کر دوسرے لوگوں کے پیچھے چھینے کی کوشش کرنے لگیں۔تبھی تین سفید فام امریکی افراد لڑکیوں کو بچانے اور جرمی جوزف کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر آگے بڑھے۔ طیش میں آیا جرمی انہیں حلق پر چاقو مار نے لگا۔ اس حملے میں دو شخص جاں بحق ہوگئے، تیسرا زخمی ہوا۔ نہتی اور معصوم لڑکیوں کی جانیں بچانے کے باعث امریکیوں نے دونوں مقتولوں کو اپنا ''ہیرو'' قرار دیا اور ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔قتل و غارت گری کے بعد جرمی جوزف فرار ہوگیا، مگر ریل میں کچھ مسافر اس کا مسلسل پیچھا کرتے رہے۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع دے کر اسے بھی بلوالیا۔ شہریوں کے تعاون سے یوں قانون جرمی کو قابو کرنے میں کامیاب رہا۔
بعداز تفتیش انکشاف ہوا کہ جرمی جوزف نظریہ سفید فام بالادستی یعنی وائٹ سپرمیسی (white supremacy)کا کٹر پیروکار ہے۔نظریہ وائٹ سپرمیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سفید فام نسل دنیا کی سبھی نسلوں سے اعلیٰ، برتر اور بالادست ہے۔
امریکا بظاہر روشن خیال، جدت پسند اور انسانی حقوق کا چیمپئن ملک سمجھا جاتا ہے، مگر وہاں بھی لاکھوں امریکی اس غیر انسانی، غیر اخلاقی اور نفرت انگیز نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکا ہی نہیں پورے مغرب میں وائٹ سپرمیسی نظریے کے عاشق و قدر دان پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ناروے کا آندرس بریوک جس نے جولائی 2011 ء میں بم دہماکوں اور فائرنگ سے ستتر افراد مار ڈالے تھے۔ تاہم مغربی میڈیا وائٹ سپرمیسٹوں کے متعلق کم ہی خبریں دیتا ہے جو اس کی منافقت کا نمایاں ثبوت ہے۔مثلاً لندن میں ویگن سواروں کے حالیہ حملے کو مغربی میڈیا نے خوب نمایاں کیا جبکہ پورٹ لینڈ کا واقعہ خبروں میں دبا دیا گیا۔
دنیا بھر میں کوئی مسلمان شہری آبادی میں شہریوں پر حملہ یا بم دھماکہ کرے تو مغربی میڈیا فوراً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اول فول بکنے لگتا ہے۔ یک جنبش قلم تمام مسلمان دہشت گرد قرار پاتے ہیں جبکہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والا مذہب ہے۔ لیکن امریکا یا کسی یورپی ملک میں کوئی سفید فام شہریوں کا قتل عام کرڈالے، تو مغربی میڈیا نے ایسے شخص کے لیے ''لون ولف'' (Lone wolf) کی اصطلاح گھڑلی ہے۔ یعنی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات نے حملہ آور کا دماغ خراب کردیا اور اس نے تن تنہا جرم کا ارتکاب کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ شاید اور کوئی نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں کئی عیسائی انتہا پسند گروہ سرگرم عمل ہیں اور یہ سبھی وائٹ سپرمیسی نظریے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ گویا اس نظریے اور عیسائی انتہا پسندی کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ وجہ یہ کہ اس بندھن کی بنیادیں دنیائے مغرب کی مذہبی و معاشی تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔
وائٹ سپرمیسی ایک زیادہ بڑے نظریے، نسل پرستی (Racism) کا ذیلی نظریہ ہے اور خود نسل پرستی نے غلامی کی لعنت سے جنم لیا۔ غلامی کے موجد وہ زمیندار اور جاگیردار ہیں جو دس تا پندرہ ہزار سال پہلے زرعی معاشرے بننے سے سامنے آئے۔ ان جاگیرداروں نے کھیتوں میں کام کرنے کی خاطر پہلے پہل غلام بھرتی کیے اور پھر یہ عمل پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ صرف ان انسانی معاشروں میں غلام عنقا رہے جہاں لوگوں کا گذارہ شکار پر تھا۔ ایسے معاشرے کے افراد کسی قسم کی اشیا جمع نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی آبادی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پست ترین درجے کے لوگوں کو غلام بنالیا جائے۔
زمانہ قدیم میں چین اور ہندوستان سے لے کر یونان تک غلامی کا دور دورہ تھا۔ قانون حمورابی (1754 قبل مسیح) کا شمار قدیم ترین مجموعہ قوانین میں ہوتا ہے جو وادی دجلہ و فرات (میسوپوٹومیا) میں رائج تھا۔ اس میں درج ہے کہ جس شخص نے غلام کو بھگانے میں مدد دی، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اسی طرح توریت و انجیل میں غلامی کو تسلیم کرلیا گیا اور غلاموں کے سلسلے میں احکامات دیئے گئے۔جب صحرائے عرب میں اسلام کا نور پھیلا، تو عربوں میں بھی غلاموں کی خریدو فروخت عام تھی۔
تاریخ انسانی میں پہلی بار قرآن و حدیث میں مسلمانوں پر زور دیا گیا کہ غلاموں سے نرمی و شفقت کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں بھی انسان سمجھیں۔ مزید براں قرآن و سنت میں کسی کو غلام بنانے کے لیے نہایت سخت شرائط پیش کی گئیں۔ ان کا مقصد عرب معاشرے میں غلامی کا بتدریج قلع قمع کرنا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام کے بعد عرب معاشرے میں غلاموں اور غریب غربا نے بھی بلند مقام پایا جن میں موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال حبشیؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، ام المومنین ماریہ قبطیہؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ شامل ہیں۔
آنے والے ادوار میں اسلامی دنیا میں غلامی کی روش کم ہوتی چلی گئی مگر برقرار ضرور رہی۔ ایک وجہ نسل پرستانہ مغربی نظریات کا عالم اسلام میں در آنا ہے۔ مزید براں بعض اسلامی علاقوں میں قبائلی روایات نے بھی غلامی کو یک لخت ختم نہ ہونے دیا۔مورخین کی رو سے نسل پرستی نے قدیم یونان میں جنم لیا۔ اس زمانے کے یونانی خود کو دوسری اقوام سے برتر و فائق سمجھتے تھے۔ مشہور یونانی فلسفی ارسطو کا قول ہے: ''یونانی آزاد فطرت رکھتے ہیں، جبکہ بربری (غیر یونانی) فطرتاً غلام ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ آمر کے سامنے بہ آسانی جھک جاتے ہیں۔'' گویا ارسطو نے یونانیوں کو دلیر و بہادر اور غیر یونانیوں کو بزدل و غلام قرار دے ڈالا۔
نسل پرستی اسی قسم کے منفی خیالات سے نمو پذیر ہوئی۔نسل پرستی نے نویں صدی کے اسپین میں باقاعدہ نظریے کی شکل اختیار کی۔ اس وقت اسپین کے بڑے حصے پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ان کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہسپانوی جاگیردار اور نواب اپنی رعایا میں یہ نظریہ پھیلانے لگے کہ عیسائی سفید فام، سیاہ فام مسلمانوں سے برتر و اعلیٰ نسل رکھتے ہیں۔ اس نظریے کی مدد سے ہسپانوی اشرافیہ نے رعایا کی کثیر تعداد کو اپنے گرد جمع کرلیا اور پھر مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کر دیاگیا۔
جب مختلف وجوہ کی بنا پر مسلمان شکست کھاگئے، تو ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ 1452ء میں پوپ نکولاس پنجم نے اپنے ایک حکم نامے (Dum Diversas) کے ذریعے سپین اور پرتگال کے حکمرانوں کو اجازت دے دی کہ وہ مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنا غلام بنالیں۔ یہی نہیں، دونوں ممالک میں وہ تمام لوگ نیچ و کمّی قرار پائے جن کی رگوں میں کسی مسلمان کا خون دوڑ رہا تھا۔ گویا دونوں مغربی ممالک میں غلامی و نسل پرستی کے جراثیم پوری طرح پھیل گئے۔
یہ اسپین اور پرتگال ہی وہ مغربی ملک ہیں جنہوں نے لاطینی امریکا،افریقا اور ایشیا میں اولیّں نو آبادیاں قائم کیں اور مقبوضہ علاقوں میں غلامی کو بڑھاوا دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر مغربی طاقتیں بھی نو آبادیاں بنانے اور غلاموں کی تجارت کرنے لگیں۔ اس نئے رجحان کے بعد ہی مغرب کے حکمران طبقے اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے دانش وروں اور فلسفیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مغربی ممالک کا نو آبادیاں بنانا اور علاقے فتح کرنا ایک ''قدرتی اور ارتقائی'' عمل ہے جس نے اس باعث جنم لیا کہ سفید فام نسل دنیا کی دیگر نسلوں سے برتر و اعلیٰ ہے۔
لہٰذا قدرت نے اسے یہ ''حق'' دیا ہے کہ وہ غیر سفید فام نسلوں پر حکمرانی کرے اور اپنا غلام بنالے۔ مغربی حکمران یہ نظریہ پھیلا کر ان دانشوروں اور سماجی رہنماؤں کو مطمئن کرنا چاہتے تھے جنہیں مغرب کی جنگجوئی پر تشویش تھی اور وہ دوسرے انسانوں کو غلام بنالینے کے عمل سے نفرت کرتے تھے۔ اس نظریے سے غلامی کے مخالف دانشور تو مطمئن نہیں ہوئے مگر عام مغربی یہی سمجھنے لگے کہ خصوصاً سیاہ فام افریقی ایشیائی نسلوں کے مقابلے میں سفید فام نسل اعلیٰ و برتر ہے۔
یوں وائٹ سپرمیسی نظریے نے باقاعدہ طور پر جنم لے لیا۔سولہویں صدی میں برطانیہ کے انگریز سرزمین امریکا آپہنچے۔ انہوں نے امریکا کے حقیقی باشندوں، سرخ ہندیوں یا ریڈ انڈینز کا بے دریغ قتل عام کیا اور ان کے کئی قبائل صفحہ ہستی سے مٹا دیئے۔ انگریز حملہ آوروں کی درندگی اور سفاکی کے لرزہ خیز واقعات کتب تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جب ریڈ انڈینز پسپا ہوگئے، تو انگریز افریقی غلاموں کی مدد سے بستیاں بسانے اور کھیت کھلیان تعمیر کرنے لگے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کی رو سے انیسویں صدی امریکا میں تقریباً دس لاکھ غلام افریقا سے لائے گئے۔
سفید فام امریکی آقا عموماً اپنے سیاہ فام غلاموں سے غیر انسانی سلوک کرتے تھے۔ غلاموں کو مارنا پیٹنا عام تھا۔ ان سے جی بھر کر بیگار لی جاتی اور کھانے کے نام پر تھوڑا سا کھانا تھما دیا جاتا۔ غرض امریکا میں سیاہ فام غلام سفید فام آقاؤں کے ظلم و ستم کا شکار تھے۔اٹھارہویں صدی میں آخر انسان دوست دانشوروں نے مغرب میں غلامی کی لعنت ختم کرنے کی تحریک چلائی۔
امریکا کی جنوبی ریاستوں میں مقیم جاگیردار اور صنعتکار اس تحریک کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ جب امریکی صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو ختم کرنا چاہا، تو جنوبی امریکا کے جاگیرداروں، تاجروں وغیرہ نے بغاوت کردی۔ 1861ء تا 1865ء امریکا خانہ جنگی کا نشانہ بنا رہا جس میں تقریباً دس لاکھ امریکی مارے گئے۔خانہ جنگی کے بعد بھی افریقی سیاہ فاموں سے ذلت آمیز سلوک جاری رہا کیونکہ سفید فام امریکیوں میں ''وائٹ سپرمیسی'' کا نظریہ راسخ ہوچکا تھا۔
بیسویں صدی کے وسط تک امریکا میں یہ عالم تھا کہ سیاہ فام اور سفید فام اپنی اپنی دنیاؤں میں آباد تھے اور جن کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ سیاہ فاموں کی بستیاں ضروریات زندگی سے بھی عاری تھیں۔ اگر کوئی سیاہ فام سفید فام آمریت کے خلاف احتجاج کرتا، تو اسے سرعام پھانسی دے دی جاتی تاکہ دوسرے سیاہ فام خوفزدہ ہوجائیں۔
آخر مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر امریکی سیاہ فام رہنماؤں نے وائٹ سپرمیسی کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ تحریک کے نتیجے میں قانونی و آئینی طور پر تو سیاہ فاموں کو ان کے حقوق مل گئے مگر آج بھی معاشرتی و سیاسی سطح پر ان کا استحصال ہوتا ہے۔ نظریہ وائٹ سپرمیسی کے نام لیوا سفید فام قدم قدم پر ایسی نفرت انگیز حرکتیں اپناتے ہیں جن سے سیاہ فاموں، غیر ملکیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو ذیل کیا جاسکے۔
امریکا میں وائٹ سپرمیسی کی تاریخ کا نیا باب نومبر 2016ء سے شروع ہوا جب ڈونالڈ ٹرمپ نئے صدر منتخب ہوئے۔جناب ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران وائٹ سپرمیسی کا جھنڈا بلند کیے رکھا اور غیر ملکیوں پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ اسی مخالفانہ روش نے انہیں سفید فام امریکی عوام کا ہیرو بنا دیا جس نے ٹرمپ کو جوق در جوق ووٹ دیئے۔یوں برتری کے شائق سفید فاموں کے من کی مراد پوری ہوگئی۔ لیکن بھارت میں جس طرح مودی حکومت آنے کے بعد ہندو قوم پرست اقلیتوں پر ظلم ڈھارہے ہیں، اسی طرح ٹرمپ حکومت بننے کے بعد امریکا میں وائٹ سپرمیسی کے نام لیوا متشدد ہوچکے۔ ان کی طرف سے خصوصاً مسلمانوں اور سیاہ فاموں پر حملے معمول بن رہے ہیں۔
امریکا کی ایک تنظیم، سادرن پاورٹی لا سینٹر(Southern Poverty Law Center ) پورے ملک میں نسل پرستی کے واقعات کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ نومبر 2016ء سے امریکا بھر میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ''ایک ہزار سے زائد'' متشددانہ واقعات جنم لے چکے۔ خاص بات یہ کہ تنظیم کی رو سے وائٹ سپرمیسی پر یقین رکھنے اور مسلم مخالف تنظیموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ 2015ء میں ان کی تعداد صرف ''34'' تھی جو اب بڑھ کر ''115'' تک پہنچ چکی۔
دراصل صدر ٹرمپ کی جیت کے بعد وائٹ سپرمیسی پر یقین رکھنے والے سفید فاموں کے حوصلے بڑھ گئے۔ پہلے وہ زبانی کلامی حملے کرتے تھے، اب وہ جرمی جوزف کی طرح مسلمانوں و سیاہ فاموں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کے جوش اور غضب کا یہ عالم ہے کہ وہ وائٹ سپرمیسی اور نسل پرستی کے مخالف سفید فاموں کو قتل کرنے سے بھی نہیں نہیں چوکتے۔پورٹ لینڈ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے غیر ملکیوں، مسلمانوں اور سیاہ فاموں کے خلاف جو زہر اگلا تھا، اس کے بھیانک اثرات اب رونما ہونے لگے ہیں۔
امریکا پہلے ہی معاشی لحاظ سے کئی مسائل کا شکار ہے۔ اگر صدر ٹرمپ مسلسل نفرت کی سیاست پر مبنی اپنے اقدامات اور سرگرمیوں سے نظریہ وائٹ سپرمیسی کو پروان چڑھاتے رہے، تو امریکی معاشرے میں خانہ جنگی جیسی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں ایسے ماحول ہی میں پنپتی ہیں۔گھمبیر صورت حال دیکھتے ہوئے دنیا والوںکو تیزی سے بڑھتے ہوئے تصادم کے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے بروقت موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
پورٹ لینڈ مغربی امریکا کی ریاست، اوریگن کا سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر کی 76 فیصد آبادی سفید فاموں، 7 فیصد ایشیائی باشندوں اور 6.3 فیصد سیاہ فاموں پر مشتمل ہے۔ مضافاتی بستیوں کو ملا کر شہری آبادی تقریباً اکتیس لاکھ ہے۔ اس میں سے 0.26 آبادی مسلمان ہے۔ریل میں جرمی جوزف کرسچن نامی ایک سفید فام نوجوان بھی سوار تھا۔ اس نے جب حجاب میں ملبوس مسلم لڑکی اور اس کی سیاہ فام سہیلی کو دیکھا، تو ان کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرنے لگا۔
امریکی نوجوان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ بیچاری لڑکیاں سہم کر دوسرے لوگوں کے پیچھے چھینے کی کوشش کرنے لگیں۔تبھی تین سفید فام امریکی افراد لڑکیوں کو بچانے اور جرمی جوزف کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر آگے بڑھے۔ طیش میں آیا جرمی انہیں حلق پر چاقو مار نے لگا۔ اس حملے میں دو شخص جاں بحق ہوگئے، تیسرا زخمی ہوا۔ نہتی اور معصوم لڑکیوں کی جانیں بچانے کے باعث امریکیوں نے دونوں مقتولوں کو اپنا ''ہیرو'' قرار دیا اور ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔قتل و غارت گری کے بعد جرمی جوزف فرار ہوگیا، مگر ریل میں کچھ مسافر اس کا مسلسل پیچھا کرتے رہے۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع دے کر اسے بھی بلوالیا۔ شہریوں کے تعاون سے یوں قانون جرمی کو قابو کرنے میں کامیاب رہا۔
بعداز تفتیش انکشاف ہوا کہ جرمی جوزف نظریہ سفید فام بالادستی یعنی وائٹ سپرمیسی (white supremacy)کا کٹر پیروکار ہے۔نظریہ وائٹ سپرمیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سفید فام نسل دنیا کی سبھی نسلوں سے اعلیٰ، برتر اور بالادست ہے۔
امریکا بظاہر روشن خیال، جدت پسند اور انسانی حقوق کا چیمپئن ملک سمجھا جاتا ہے، مگر وہاں بھی لاکھوں امریکی اس غیر انسانی، غیر اخلاقی اور نفرت انگیز نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکا ہی نہیں پورے مغرب میں وائٹ سپرمیسی نظریے کے عاشق و قدر دان پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ناروے کا آندرس بریوک جس نے جولائی 2011 ء میں بم دہماکوں اور فائرنگ سے ستتر افراد مار ڈالے تھے۔ تاہم مغربی میڈیا وائٹ سپرمیسٹوں کے متعلق کم ہی خبریں دیتا ہے جو اس کی منافقت کا نمایاں ثبوت ہے۔مثلاً لندن میں ویگن سواروں کے حالیہ حملے کو مغربی میڈیا نے خوب نمایاں کیا جبکہ پورٹ لینڈ کا واقعہ خبروں میں دبا دیا گیا۔
دنیا بھر میں کوئی مسلمان شہری آبادی میں شہریوں پر حملہ یا بم دھماکہ کرے تو مغربی میڈیا فوراً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اول فول بکنے لگتا ہے۔ یک جنبش قلم تمام مسلمان دہشت گرد قرار پاتے ہیں جبکہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والا مذہب ہے۔ لیکن امریکا یا کسی یورپی ملک میں کوئی سفید فام شہریوں کا قتل عام کرڈالے، تو مغربی میڈیا نے ایسے شخص کے لیے ''لون ولف'' (Lone wolf) کی اصطلاح گھڑلی ہے۔ یعنی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات نے حملہ آور کا دماغ خراب کردیا اور اس نے تن تنہا جرم کا ارتکاب کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ شاید اور کوئی نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں کئی عیسائی انتہا پسند گروہ سرگرم عمل ہیں اور یہ سبھی وائٹ سپرمیسی نظریے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ گویا اس نظریے اور عیسائی انتہا پسندی کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ وجہ یہ کہ اس بندھن کی بنیادیں دنیائے مغرب کی مذہبی و معاشی تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔
وائٹ سپرمیسی ایک زیادہ بڑے نظریے، نسل پرستی (Racism) کا ذیلی نظریہ ہے اور خود نسل پرستی نے غلامی کی لعنت سے جنم لیا۔ غلامی کے موجد وہ زمیندار اور جاگیردار ہیں جو دس تا پندرہ ہزار سال پہلے زرعی معاشرے بننے سے سامنے آئے۔ ان جاگیرداروں نے کھیتوں میں کام کرنے کی خاطر پہلے پہل غلام بھرتی کیے اور پھر یہ عمل پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ صرف ان انسانی معاشروں میں غلام عنقا رہے جہاں لوگوں کا گذارہ شکار پر تھا۔ ایسے معاشرے کے افراد کسی قسم کی اشیا جمع نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی آبادی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پست ترین درجے کے لوگوں کو غلام بنالیا جائے۔
زمانہ قدیم میں چین اور ہندوستان سے لے کر یونان تک غلامی کا دور دورہ تھا۔ قانون حمورابی (1754 قبل مسیح) کا شمار قدیم ترین مجموعہ قوانین میں ہوتا ہے جو وادی دجلہ و فرات (میسوپوٹومیا) میں رائج تھا۔ اس میں درج ہے کہ جس شخص نے غلام کو بھگانے میں مدد دی، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اسی طرح توریت و انجیل میں غلامی کو تسلیم کرلیا گیا اور غلاموں کے سلسلے میں احکامات دیئے گئے۔جب صحرائے عرب میں اسلام کا نور پھیلا، تو عربوں میں بھی غلاموں کی خریدو فروخت عام تھی۔
تاریخ انسانی میں پہلی بار قرآن و حدیث میں مسلمانوں پر زور دیا گیا کہ غلاموں سے نرمی و شفقت کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں بھی انسان سمجھیں۔ مزید براں قرآن و سنت میں کسی کو غلام بنانے کے لیے نہایت سخت شرائط پیش کی گئیں۔ ان کا مقصد عرب معاشرے میں غلامی کا بتدریج قلع قمع کرنا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام کے بعد عرب معاشرے میں غلاموں اور غریب غربا نے بھی بلند مقام پایا جن میں موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال حبشیؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، ام المومنین ماریہ قبطیہؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ شامل ہیں۔
آنے والے ادوار میں اسلامی دنیا میں غلامی کی روش کم ہوتی چلی گئی مگر برقرار ضرور رہی۔ ایک وجہ نسل پرستانہ مغربی نظریات کا عالم اسلام میں در آنا ہے۔ مزید براں بعض اسلامی علاقوں میں قبائلی روایات نے بھی غلامی کو یک لخت ختم نہ ہونے دیا۔مورخین کی رو سے نسل پرستی نے قدیم یونان میں جنم لیا۔ اس زمانے کے یونانی خود کو دوسری اقوام سے برتر و فائق سمجھتے تھے۔ مشہور یونانی فلسفی ارسطو کا قول ہے: ''یونانی آزاد فطرت رکھتے ہیں، جبکہ بربری (غیر یونانی) فطرتاً غلام ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ آمر کے سامنے بہ آسانی جھک جاتے ہیں۔'' گویا ارسطو نے یونانیوں کو دلیر و بہادر اور غیر یونانیوں کو بزدل و غلام قرار دے ڈالا۔
نسل پرستی اسی قسم کے منفی خیالات سے نمو پذیر ہوئی۔نسل پرستی نے نویں صدی کے اسپین میں باقاعدہ نظریے کی شکل اختیار کی۔ اس وقت اسپین کے بڑے حصے پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ان کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہسپانوی جاگیردار اور نواب اپنی رعایا میں یہ نظریہ پھیلانے لگے کہ عیسائی سفید فام، سیاہ فام مسلمانوں سے برتر و اعلیٰ نسل رکھتے ہیں۔ اس نظریے کی مدد سے ہسپانوی اشرافیہ نے رعایا کی کثیر تعداد کو اپنے گرد جمع کرلیا اور پھر مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کر دیاگیا۔
جب مختلف وجوہ کی بنا پر مسلمان شکست کھاگئے، تو ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ 1452ء میں پوپ نکولاس پنجم نے اپنے ایک حکم نامے (Dum Diversas) کے ذریعے سپین اور پرتگال کے حکمرانوں کو اجازت دے دی کہ وہ مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنا غلام بنالیں۔ یہی نہیں، دونوں ممالک میں وہ تمام لوگ نیچ و کمّی قرار پائے جن کی رگوں میں کسی مسلمان کا خون دوڑ رہا تھا۔ گویا دونوں مغربی ممالک میں غلامی و نسل پرستی کے جراثیم پوری طرح پھیل گئے۔
یہ اسپین اور پرتگال ہی وہ مغربی ملک ہیں جنہوں نے لاطینی امریکا،افریقا اور ایشیا میں اولیّں نو آبادیاں قائم کیں اور مقبوضہ علاقوں میں غلامی کو بڑھاوا دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر مغربی طاقتیں بھی نو آبادیاں بنانے اور غلاموں کی تجارت کرنے لگیں۔ اس نئے رجحان کے بعد ہی مغرب کے حکمران طبقے اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے دانش وروں اور فلسفیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مغربی ممالک کا نو آبادیاں بنانا اور علاقے فتح کرنا ایک ''قدرتی اور ارتقائی'' عمل ہے جس نے اس باعث جنم لیا کہ سفید فام نسل دنیا کی دیگر نسلوں سے برتر و اعلیٰ ہے۔
لہٰذا قدرت نے اسے یہ ''حق'' دیا ہے کہ وہ غیر سفید فام نسلوں پر حکمرانی کرے اور اپنا غلام بنالے۔ مغربی حکمران یہ نظریہ پھیلا کر ان دانشوروں اور سماجی رہنماؤں کو مطمئن کرنا چاہتے تھے جنہیں مغرب کی جنگجوئی پر تشویش تھی اور وہ دوسرے انسانوں کو غلام بنالینے کے عمل سے نفرت کرتے تھے۔ اس نظریے سے غلامی کے مخالف دانشور تو مطمئن نہیں ہوئے مگر عام مغربی یہی سمجھنے لگے کہ خصوصاً سیاہ فام افریقی ایشیائی نسلوں کے مقابلے میں سفید فام نسل اعلیٰ و برتر ہے۔
یوں وائٹ سپرمیسی نظریے نے باقاعدہ طور پر جنم لے لیا۔سولہویں صدی میں برطانیہ کے انگریز سرزمین امریکا آپہنچے۔ انہوں نے امریکا کے حقیقی باشندوں، سرخ ہندیوں یا ریڈ انڈینز کا بے دریغ قتل عام کیا اور ان کے کئی قبائل صفحہ ہستی سے مٹا دیئے۔ انگریز حملہ آوروں کی درندگی اور سفاکی کے لرزہ خیز واقعات کتب تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جب ریڈ انڈینز پسپا ہوگئے، تو انگریز افریقی غلاموں کی مدد سے بستیاں بسانے اور کھیت کھلیان تعمیر کرنے لگے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کی رو سے انیسویں صدی امریکا میں تقریباً دس لاکھ غلام افریقا سے لائے گئے۔
سفید فام امریکی آقا عموماً اپنے سیاہ فام غلاموں سے غیر انسانی سلوک کرتے تھے۔ غلاموں کو مارنا پیٹنا عام تھا۔ ان سے جی بھر کر بیگار لی جاتی اور کھانے کے نام پر تھوڑا سا کھانا تھما دیا جاتا۔ غرض امریکا میں سیاہ فام غلام سفید فام آقاؤں کے ظلم و ستم کا شکار تھے۔اٹھارہویں صدی میں آخر انسان دوست دانشوروں نے مغرب میں غلامی کی لعنت ختم کرنے کی تحریک چلائی۔
امریکا کی جنوبی ریاستوں میں مقیم جاگیردار اور صنعتکار اس تحریک کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ جب امریکی صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو ختم کرنا چاہا، تو جنوبی امریکا کے جاگیرداروں، تاجروں وغیرہ نے بغاوت کردی۔ 1861ء تا 1865ء امریکا خانہ جنگی کا نشانہ بنا رہا جس میں تقریباً دس لاکھ امریکی مارے گئے۔خانہ جنگی کے بعد بھی افریقی سیاہ فاموں سے ذلت آمیز سلوک جاری رہا کیونکہ سفید فام امریکیوں میں ''وائٹ سپرمیسی'' کا نظریہ راسخ ہوچکا تھا۔
بیسویں صدی کے وسط تک امریکا میں یہ عالم تھا کہ سیاہ فام اور سفید فام اپنی اپنی دنیاؤں میں آباد تھے اور جن کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ سیاہ فاموں کی بستیاں ضروریات زندگی سے بھی عاری تھیں۔ اگر کوئی سیاہ فام سفید فام آمریت کے خلاف احتجاج کرتا، تو اسے سرعام پھانسی دے دی جاتی تاکہ دوسرے سیاہ فام خوفزدہ ہوجائیں۔
آخر مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر امریکی سیاہ فام رہنماؤں نے وائٹ سپرمیسی کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ تحریک کے نتیجے میں قانونی و آئینی طور پر تو سیاہ فاموں کو ان کے حقوق مل گئے مگر آج بھی معاشرتی و سیاسی سطح پر ان کا استحصال ہوتا ہے۔ نظریہ وائٹ سپرمیسی کے نام لیوا سفید فام قدم قدم پر ایسی نفرت انگیز حرکتیں اپناتے ہیں جن سے سیاہ فاموں، غیر ملکیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو ذیل کیا جاسکے۔
امریکا میں وائٹ سپرمیسی کی تاریخ کا نیا باب نومبر 2016ء سے شروع ہوا جب ڈونالڈ ٹرمپ نئے صدر منتخب ہوئے۔جناب ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران وائٹ سپرمیسی کا جھنڈا بلند کیے رکھا اور غیر ملکیوں پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ اسی مخالفانہ روش نے انہیں سفید فام امریکی عوام کا ہیرو بنا دیا جس نے ٹرمپ کو جوق در جوق ووٹ دیئے۔یوں برتری کے شائق سفید فاموں کے من کی مراد پوری ہوگئی۔ لیکن بھارت میں جس طرح مودی حکومت آنے کے بعد ہندو قوم پرست اقلیتوں پر ظلم ڈھارہے ہیں، اسی طرح ٹرمپ حکومت بننے کے بعد امریکا میں وائٹ سپرمیسی کے نام لیوا متشدد ہوچکے۔ ان کی طرف سے خصوصاً مسلمانوں اور سیاہ فاموں پر حملے معمول بن رہے ہیں۔
امریکا کی ایک تنظیم، سادرن پاورٹی لا سینٹر(Southern Poverty Law Center ) پورے ملک میں نسل پرستی کے واقعات کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ نومبر 2016ء سے امریکا بھر میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ''ایک ہزار سے زائد'' متشددانہ واقعات جنم لے چکے۔ خاص بات یہ کہ تنظیم کی رو سے وائٹ سپرمیسی پر یقین رکھنے اور مسلم مخالف تنظیموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ 2015ء میں ان کی تعداد صرف ''34'' تھی جو اب بڑھ کر ''115'' تک پہنچ چکی۔
دراصل صدر ٹرمپ کی جیت کے بعد وائٹ سپرمیسی پر یقین رکھنے والے سفید فاموں کے حوصلے بڑھ گئے۔ پہلے وہ زبانی کلامی حملے کرتے تھے، اب وہ جرمی جوزف کی طرح مسلمانوں و سیاہ فاموں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کے جوش اور غضب کا یہ عالم ہے کہ وہ وائٹ سپرمیسی اور نسل پرستی کے مخالف سفید فاموں کو قتل کرنے سے بھی نہیں نہیں چوکتے۔پورٹ لینڈ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے غیر ملکیوں، مسلمانوں اور سیاہ فاموں کے خلاف جو زہر اگلا تھا، اس کے بھیانک اثرات اب رونما ہونے لگے ہیں۔
امریکا پہلے ہی معاشی لحاظ سے کئی مسائل کا شکار ہے۔ اگر صدر ٹرمپ مسلسل نفرت کی سیاست پر مبنی اپنے اقدامات اور سرگرمیوں سے نظریہ وائٹ سپرمیسی کو پروان چڑھاتے رہے، تو امریکی معاشرے میں خانہ جنگی جیسی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں ایسے ماحول ہی میں پنپتی ہیں۔گھمبیر صورت حال دیکھتے ہوئے دنیا والوںکو تیزی سے بڑھتے ہوئے تصادم کے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے بروقت موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔