جے آئی ٹی نے درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرادی
جے آئی ٹی کے 33 ویں اجلاس میں دھمکیوں اور خدشات پر غور کیا گیا
پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے درپیش مسائل اور خدشات پر مبنی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔
پاناما پیپرزکیس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت عظمیٰ کو تحقیقات میں درپیش رکاوٹوں اور دھمکیوں سے آگاہ کیاگیا، ذرائع کے مطابق ہفتے کو سربمہر درخواست جے آئی ٹی کے ماتحت عملے نے رجسٹرار آفس میں جمع کرائی تاہم حسین نواز کی تصویر کے معاملے پر تحریری جواب جمع نہیں کرایا گیا، اس حوالے سے جواب پیرکی صبح جمع کرایا جائے گا۔
دریں اثنا ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی زیرصدارت جے آئی ٹی کا اجلاس جوڈیشل اکیڈمی میں ہوا، ذرائع کے مطابق اجلاس میں جے آئی ٹی کو درپیش سیکیورٹی خدشات، دباؤ اور رکاوٹوں کے حوالے سے تیار کی گئی درخواست پر مشاورت کی گئی اور اسے حتمی شکل دی گئی، درخواست واجد ضیا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے رکن عرفان نعیم منگی نے تیار کی جس میں جے آئی ٹی کو تفتیش میں درپیش مسائل، ارکان پر تنقید، بیرونی دباؤ اور ان کے اہلخانہ کی پریشانیوں کا تذکرہ ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں خصوصی بینچ کل دوپہر ایک بجے جے آئی ٹی کی درخواست پر سماعت کرے گا جب کہ وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز کی جے آئی ٹی سے تصویر لیک ہونے پر دائر درخواست کی سماعت بھی کل ہوگی۔
دوسری جانب صدر نیشنل بینک سعید احمد نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پاناما پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کے رویے سے آگاہ کیا، رجسٹرار کے نام لکھے گئے2صفحات پر مشتمل خط میں انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ جے آئی ٹی میں جو بھی پیش ہو اس سے عزت سے پیش آیا جائے لیکن جے آئی ٹی نے عدالتی حکم کے برعکس انھیں دھمکایا اور توہین آمیز رویہ اختیار کیا، دوران تفتیش ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کوئی سزائے موت کے مجرم ہیں، انھوں نے بتایا کہ انھیں پہلی بار 27مئی کو پیش ہونے کا نوٹس بھجوایا گیا جو26مئی کی شام کو ملا، کوشش کے باوجود کراچی کی شارع فیصل پر ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے انکی فلائٹ چھوٹ گئی، اس بارے میںجے آئی ٹی کو آگاہ کیا اور تحریری طور پر مہلت طلب کی جسے جے آئی ٹی نے قبول نہیں کیا اور یہ بات عدالت عظمیٰ کے نوٹس میں لا کر یہ تاثر دیا گیا کہ وہ جان بوجھ کرمعاملہ کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری پیشی کے لیے اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے ٹیلیفونک اطلاع اور جے آئی ٹی کی طرف سے سمن ملنے پر وہ ٹھیک 11بجے نیشنل جوڈیشل اکیڈمی پہنچ گئے، اس روز انٹرویو کے3 سیشن ہوئے، رمضان کے مبارک مہینے میں ان سے مسلسل 12 گھنٹے تک سوالات کیے گئے، پہلے سیشن سے قبل 5 گھنٹے کا انتظار کرایا گیا جو امتحان سے کم نہیں تھا، ابتدائی سوالات کے بعد انھیں ایک دستاویز پڑھنے کے بعد بیان دینے کے لیے کہا گیا اور یہ سیشن رات10 بجے ختم ہوا، انھوں نے رجسٹرار سے کہا کہ اس خط کے ذریعے وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے فاضل ججز کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان کی گزارشات فاضل بینچ کے سامنے رکھی جائیں، صدر نیشنل بینک سعید احمد نے یہ خط 5جون کو رجسٹرار کولکھا تھا، آن لائن کے مطابق انکا کہنا تھا کہ کچھ ارکان کا رویہ دھمکی آمیز اور تحمکانہ تھا، آخری سیشن سے قبل بھی انھیں2گھنٹے انتظار کرایا گیا، یہ سارا سلسلہ رات ساڑھے 10بجے ختم ہوا، پوچھ گچھ کے عمل کے دوران انکی بے عزتی کی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا اور دباؤ کا نشانہ بنایا گیا، اگر انٹرویو کی مکمل ریکارڈنگ دستیاب ہو تو یہ بات بالکل واضح ہے، میرے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کا نوٹس لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر جے آئی ٹی سے جواب طلب
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو ہدایت کی تھی کہ پہلی رپورٹ میں انہوں نے مشکلات کا ذکر کیا تھا لہذا تمام حقائق پر مشتمل نئی درخواست دیں اور اس میں تمام مشکلات شامل کریں، درخواست پر اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کریں گے۔
پاناما پیپرزکیس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت عظمیٰ کو تحقیقات میں درپیش رکاوٹوں اور دھمکیوں سے آگاہ کیاگیا، ذرائع کے مطابق ہفتے کو سربمہر درخواست جے آئی ٹی کے ماتحت عملے نے رجسٹرار آفس میں جمع کرائی تاہم حسین نواز کی تصویر کے معاملے پر تحریری جواب جمع نہیں کرایا گیا، اس حوالے سے جواب پیرکی صبح جمع کرایا جائے گا۔
دریں اثنا ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی زیرصدارت جے آئی ٹی کا اجلاس جوڈیشل اکیڈمی میں ہوا، ذرائع کے مطابق اجلاس میں جے آئی ٹی کو درپیش سیکیورٹی خدشات، دباؤ اور رکاوٹوں کے حوالے سے تیار کی گئی درخواست پر مشاورت کی گئی اور اسے حتمی شکل دی گئی، درخواست واجد ضیا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے رکن عرفان نعیم منگی نے تیار کی جس میں جے آئی ٹی کو تفتیش میں درپیش مسائل، ارکان پر تنقید، بیرونی دباؤ اور ان کے اہلخانہ کی پریشانیوں کا تذکرہ ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں خصوصی بینچ کل دوپہر ایک بجے جے آئی ٹی کی درخواست پر سماعت کرے گا جب کہ وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز کی جے آئی ٹی سے تصویر لیک ہونے پر دائر درخواست کی سماعت بھی کل ہوگی۔
دوسری جانب صدر نیشنل بینک سعید احمد نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پاناما پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کے رویے سے آگاہ کیا، رجسٹرار کے نام لکھے گئے2صفحات پر مشتمل خط میں انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ جے آئی ٹی میں جو بھی پیش ہو اس سے عزت سے پیش آیا جائے لیکن جے آئی ٹی نے عدالتی حکم کے برعکس انھیں دھمکایا اور توہین آمیز رویہ اختیار کیا، دوران تفتیش ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کوئی سزائے موت کے مجرم ہیں، انھوں نے بتایا کہ انھیں پہلی بار 27مئی کو پیش ہونے کا نوٹس بھجوایا گیا جو26مئی کی شام کو ملا، کوشش کے باوجود کراچی کی شارع فیصل پر ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے انکی فلائٹ چھوٹ گئی، اس بارے میںجے آئی ٹی کو آگاہ کیا اور تحریری طور پر مہلت طلب کی جسے جے آئی ٹی نے قبول نہیں کیا اور یہ بات عدالت عظمیٰ کے نوٹس میں لا کر یہ تاثر دیا گیا کہ وہ جان بوجھ کرمعاملہ کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری پیشی کے لیے اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے ٹیلیفونک اطلاع اور جے آئی ٹی کی طرف سے سمن ملنے پر وہ ٹھیک 11بجے نیشنل جوڈیشل اکیڈمی پہنچ گئے، اس روز انٹرویو کے3 سیشن ہوئے، رمضان کے مبارک مہینے میں ان سے مسلسل 12 گھنٹے تک سوالات کیے گئے، پہلے سیشن سے قبل 5 گھنٹے کا انتظار کرایا گیا جو امتحان سے کم نہیں تھا، ابتدائی سوالات کے بعد انھیں ایک دستاویز پڑھنے کے بعد بیان دینے کے لیے کہا گیا اور یہ سیشن رات10 بجے ختم ہوا، انھوں نے رجسٹرار سے کہا کہ اس خط کے ذریعے وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے فاضل ججز کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان کی گزارشات فاضل بینچ کے سامنے رکھی جائیں، صدر نیشنل بینک سعید احمد نے یہ خط 5جون کو رجسٹرار کولکھا تھا، آن لائن کے مطابق انکا کہنا تھا کہ کچھ ارکان کا رویہ دھمکی آمیز اور تحمکانہ تھا، آخری سیشن سے قبل بھی انھیں2گھنٹے انتظار کرایا گیا، یہ سارا سلسلہ رات ساڑھے 10بجے ختم ہوا، پوچھ گچھ کے عمل کے دوران انکی بے عزتی کی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا اور دباؤ کا نشانہ بنایا گیا، اگر انٹرویو کی مکمل ریکارڈنگ دستیاب ہو تو یہ بات بالکل واضح ہے، میرے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کا نوٹس لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر جے آئی ٹی سے جواب طلب
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو ہدایت کی تھی کہ پہلی رپورٹ میں انہوں نے مشکلات کا ذکر کیا تھا لہذا تمام حقائق پر مشتمل نئی درخواست دیں اور اس میں تمام مشکلات شامل کریں، درخواست پر اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کریں گے۔