قرآن مکمل ضابطہ حیات
لیکن بدقسمتی سے قرآن پاک سب سے زیادہ بے سوچے سمجھے پڑھی جانے والی کتاب ہے
GURGAON:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''تمہارے رب کے پاس سے ایسی چیز آئی ہے جو خوبصورت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنیوالی اور ایمان والوں کے لیے رحمت ہے۔'' ... ''رہنمائی کرنیوالی اس کتاب قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔''
لیکن بدقسمتی سے قرآن پاک سب سے زیادہ بے سوچے سمجھے پڑھی جانے والی کتاب ہے، ہم اس سے رہنمائی نہیں لیتے، باقی سب کچھ کرتے ہیں۔ اس کو مخمل میں لپیٹ کر گھر، دفتر، یا کاروبار کی جگہ پر خیر و برکت و حفاظت کے لیے سجا کر رکھ دیتے ہیں۔ جن، بھوت بھگانے، قسمیں اٹھانے اور دلہن کی رخصتی کے موقع پر اس کا استعمال کرتے ہیں یا پھر رمضان شریف و دیگر موت میت کے مواقعوں پر قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں، جہاں عموماً قرآن کی جلدی جلدی ورق گردانی کی جاتی ہے اور ان کی مقدار ناپی جاتی ہے۔
قرآن خوانی کا مقصد صرف ثواب کمانا ہوتا ہے، جس سے نیکیاں و ثواب تو مل جاتا ہے لیکن اس کا ہماری زندگیوں اور کردار پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ رمضان اور قرآن کا ایک خاص تعلق ہے۔ رمضان کے مہینے میں راتوں کو قیام اور مساجد اور گھروں میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے، ایمان پرور محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، مگر پھر بھی ہم قرآن پاک کی روح اور اس کی برکتوں کو پانے میں ناکام رہتے ہیں، کیونکہ ہم اس پر غور و فکر اور عمل سے محروم رہتے ہیں، جس کا تقاضا خود قرآن کریم بار بار کر رہا ہے۔ ہمارا مطمع نظر اور ساری توجہ نیکی و ثواب کمانے پر مرکوز رہتی ہے اور ہدایت کا حصول پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ''قرآن کریم ایک بڑی برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق حاصل کریں۔''قرآن پاک پر غور و فکر کرنے سے علم کے نئے باب اور ہدایت کے نئے راستے کھل جاتے ہیں۔ جو نصیحت حاصل کرنے، دلوں کے امراض کی شفا حاصل کرکے اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
آج کل کے جدید سائنسی دور میں قرآن فہمی، قرآن کریم سے اپنے روزمرہ مسائل کی تلاش اور اللہ اور رسولؐ کے احکامات کے مطابق رہنمائی حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، صرف توجہ اور اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔ مسلم و غیر مسلم قرآن کریم پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ حاسدین و معاندین اس میں خامیاں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں، مگر عام مسلمان اس نسخہ کیمیا کی اہمیت و خاصیت، اس کی پکار سے بے بہرہ ہیں یا صرف حصول ثواب کے لیے اس کی ورق گردانیوں میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس سے ہدایت، سبق و نصیحت حاصل کرنے اور دلوں اور سینوں میں پائے جانے والے امراض سے شفا حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
حضور اکرمؐ نے 23 سال قرآن کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور یہ پیغام دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے کہ ''میں تمہارے درمیان قرآن و حدیث چھوڑے جا رہا ہوں، اس پر عمل کرو گے تو دنیا و آخر میں سرخرو رہو گے۔'' لہٰذا مسلمانوں کی کلیدی ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ خود بھی قرآن پر غور و فکر اور عمل کریں، اس کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اس ابدی پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں۔ کیونکہ کہا گیا ہے کہ تم سے بہترین لوگ وہ ہیں جو خود قرآن سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔
قرآن کا نزول رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوا۔ اسلام کے نام پر بننے والی نظریاتی مملکت پاکستان کا قیام بھی رمضان المبارک کے مہینے میں عمل میں آیا۔ اس نسبت سے یہاں کے مسلمانوں کے لیے اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دستور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب اور قرآن و سنت کو تمام قوانین پر مقدم قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ مملکت میں اسلامی معاشرے کے قیام میں ریاست بنیادی کردار ادا کرے گی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں ریاست علما اور عام مسلمان اپنا کردار ادا کر نے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، بلکہ ہم روز بروز اسلامی اقدار و معاشرت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
مذہب کو محض مذہبی رسومات تک محدود کردیا گیا ہے، ہماری عملی زندگیاں اس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر طرف نفس پرستی و نفس گزاری کا دور دورہ ہے۔ کمرشل ازم کا راج ہے اور ہم اپنی اقدار، اخلاقیات اور معاشرت بخوشی اس کی بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں۔ میڈیا پر مذہبی پروگراموں میں نفس پرستی، بیہودگیاں اور اسلامی تعلیمات کی نفی کی جا رہی ہے، علمائے حق کا کردار محدود کردیا گیا ہے۔
وہ لوگ دین سکھانے کی باتیں کر رہے ہیں، جن کی اپنی زندگیوں میں دین دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ خودساختہ مبلغ، اسکالرز اور ماہرین جو انسانی نفسیات کو سمجھتے ہیں اور بات کو خوبصورت طریقے سے پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں، تن آسان لوگوں کے جھرمٹ میں اپنے نفس اور عزائم کے مطابق خطبہ و واعظ اور بیان کر کے خوب مقبولیت و شہرت اور دولت سمیٹ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے بہت سے میڈیائی علما بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں، جو خود کو معتبر، مقبول اور ہر دلعزیز بنانے کے لیے یہ چالیں چل رہے ہیں۔ وہ حقوق و فرائض دیانتداری سے نہیں بتاتے، قرآن کی نویدیں تو بیان کرتے ہیں وعیدیں بیان نہیں کرتے، غلط کاموں کے سامنے آڑ نہیں بنتے، اپنی گلابی و دل گداز گفتگو اور منافقانہ باتیں کرکے مقبول و ہر دلعزیز بن کر پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
دو ماہ پیشتر یہ خوش آیند خبر پڑھنے کو ملی تھی کہ قومی اسمبلی نے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی لازمی تعلیم کا بل The Compulsory Teaching of Quran Act 2017 منظور کرلیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی تا پانچویں جماعت تک کے مسلمان طلبا کو قرآن پاک کی ناظرہ کی تعلیم دی جائے گی اور چھٹی تا بارہویں جماعت تک قرآن پاک کا ترجمہ پڑھایا جائے گا۔ اس قانون کا اطلاق اسلام آباد اور وفاقی حکومت کے ماتحت تمام تعلیمی اداروں پر ہوگا۔
حکومت کو ایسی پالیسی ملک کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے وضع کرنی چاہیے، جو اس کی آئینی ذمے داری بنتی ہے۔ اس طرح والدین بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے اضافی انتظامات اور اخراجات کرنے سے بچ سکتے ہیں۔ قرآنی تعلیم اور قرآن فہمی کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑی بڑی پروفیشنل ڈگریاں رکھنے کے باوجود قرآن ناخواندہ ہیں، جب کہ آئین کی شق نمبر 31(2) کے تحت جس کا حوالہ مذکورہ بل میں بھی دیا گیا ہے مملکت پر یہ ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ ''وہ ایسے اقدامات اٹھائے جس کے ذریعے پاکستان کے مسلمان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیاں اسلام کے تصور حیات اور اسلامی اصولوں کیمطابق گزار سکیں، وہ سمجھ سکیں کہ قرآن و سنت کیمطابق زندگیاں کیسے بسر کی جائیں، مملکت اس بات کی کوشش کرے کہ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیم لازمی کی جائے، اسلامی اقدار اور اسلامی معاشرے کے فروغ کے لیے کوششیں کی جائیں۔''
ہماری اسمبلیاں معاشرتی تعمیر و ترقی، عوامی فلاح و بہبود اور مفادات کے تحفظ کے لیے وقتاً فوقتاً نت نئے بل منظور کرتی رہتی ہیں مگر ان بہت سی خامیوں اور ان پر صحیح طور پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے بے مقصد و بے معنی رہ جاتے ہیں۔ حکومت کو قرآن پاک کی لازمی تعلیم کے قانون کو پورے ملک میں نافذ کرکے اس کا فوری عملی اطلاق کی کوششیں کرنی چاہئیں، تاکہ مسلمانان پاکستان قرآن فہمی کے ذریعے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بسر کرکے ایک اچھے معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرسکیں، جس کے مجموعی طور پر ملکی معیشت اور سیاست پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے اور ملک اور حکومت کو درپیش بہت سے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''تمہارے رب کے پاس سے ایسی چیز آئی ہے جو خوبصورت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنیوالی اور ایمان والوں کے لیے رحمت ہے۔'' ... ''رہنمائی کرنیوالی اس کتاب قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔''
لیکن بدقسمتی سے قرآن پاک سب سے زیادہ بے سوچے سمجھے پڑھی جانے والی کتاب ہے، ہم اس سے رہنمائی نہیں لیتے، باقی سب کچھ کرتے ہیں۔ اس کو مخمل میں لپیٹ کر گھر، دفتر، یا کاروبار کی جگہ پر خیر و برکت و حفاظت کے لیے سجا کر رکھ دیتے ہیں۔ جن، بھوت بھگانے، قسمیں اٹھانے اور دلہن کی رخصتی کے موقع پر اس کا استعمال کرتے ہیں یا پھر رمضان شریف و دیگر موت میت کے مواقعوں پر قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں، جہاں عموماً قرآن کی جلدی جلدی ورق گردانی کی جاتی ہے اور ان کی مقدار ناپی جاتی ہے۔
قرآن خوانی کا مقصد صرف ثواب کمانا ہوتا ہے، جس سے نیکیاں و ثواب تو مل جاتا ہے لیکن اس کا ہماری زندگیوں اور کردار پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ رمضان اور قرآن کا ایک خاص تعلق ہے۔ رمضان کے مہینے میں راتوں کو قیام اور مساجد اور گھروں میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے، ایمان پرور محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، مگر پھر بھی ہم قرآن پاک کی روح اور اس کی برکتوں کو پانے میں ناکام رہتے ہیں، کیونکہ ہم اس پر غور و فکر اور عمل سے محروم رہتے ہیں، جس کا تقاضا خود قرآن کریم بار بار کر رہا ہے۔ ہمارا مطمع نظر اور ساری توجہ نیکی و ثواب کمانے پر مرکوز رہتی ہے اور ہدایت کا حصول پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ''قرآن کریم ایک بڑی برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق حاصل کریں۔''قرآن پاک پر غور و فکر کرنے سے علم کے نئے باب اور ہدایت کے نئے راستے کھل جاتے ہیں۔ جو نصیحت حاصل کرنے، دلوں کے امراض کی شفا حاصل کرکے اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
آج کل کے جدید سائنسی دور میں قرآن فہمی، قرآن کریم سے اپنے روزمرہ مسائل کی تلاش اور اللہ اور رسولؐ کے احکامات کے مطابق رہنمائی حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، صرف توجہ اور اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔ مسلم و غیر مسلم قرآن کریم پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ حاسدین و معاندین اس میں خامیاں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں، مگر عام مسلمان اس نسخہ کیمیا کی اہمیت و خاصیت، اس کی پکار سے بے بہرہ ہیں یا صرف حصول ثواب کے لیے اس کی ورق گردانیوں میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس سے ہدایت، سبق و نصیحت حاصل کرنے اور دلوں اور سینوں میں پائے جانے والے امراض سے شفا حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
حضور اکرمؐ نے 23 سال قرآن کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور یہ پیغام دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے کہ ''میں تمہارے درمیان قرآن و حدیث چھوڑے جا رہا ہوں، اس پر عمل کرو گے تو دنیا و آخر میں سرخرو رہو گے۔'' لہٰذا مسلمانوں کی کلیدی ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ خود بھی قرآن پر غور و فکر اور عمل کریں، اس کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اس ابدی پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں۔ کیونکہ کہا گیا ہے کہ تم سے بہترین لوگ وہ ہیں جو خود قرآن سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔
قرآن کا نزول رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوا۔ اسلام کے نام پر بننے والی نظریاتی مملکت پاکستان کا قیام بھی رمضان المبارک کے مہینے میں عمل میں آیا۔ اس نسبت سے یہاں کے مسلمانوں کے لیے اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دستور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب اور قرآن و سنت کو تمام قوانین پر مقدم قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ مملکت میں اسلامی معاشرے کے قیام میں ریاست بنیادی کردار ادا کرے گی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں ریاست علما اور عام مسلمان اپنا کردار ادا کر نے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، بلکہ ہم روز بروز اسلامی اقدار و معاشرت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
مذہب کو محض مذہبی رسومات تک محدود کردیا گیا ہے، ہماری عملی زندگیاں اس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر طرف نفس پرستی و نفس گزاری کا دور دورہ ہے۔ کمرشل ازم کا راج ہے اور ہم اپنی اقدار، اخلاقیات اور معاشرت بخوشی اس کی بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں۔ میڈیا پر مذہبی پروگراموں میں نفس پرستی، بیہودگیاں اور اسلامی تعلیمات کی نفی کی جا رہی ہے، علمائے حق کا کردار محدود کردیا گیا ہے۔
وہ لوگ دین سکھانے کی باتیں کر رہے ہیں، جن کی اپنی زندگیوں میں دین دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ خودساختہ مبلغ، اسکالرز اور ماہرین جو انسانی نفسیات کو سمجھتے ہیں اور بات کو خوبصورت طریقے سے پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں، تن آسان لوگوں کے جھرمٹ میں اپنے نفس اور عزائم کے مطابق خطبہ و واعظ اور بیان کر کے خوب مقبولیت و شہرت اور دولت سمیٹ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے بہت سے میڈیائی علما بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں، جو خود کو معتبر، مقبول اور ہر دلعزیز بنانے کے لیے یہ چالیں چل رہے ہیں۔ وہ حقوق و فرائض دیانتداری سے نہیں بتاتے، قرآن کی نویدیں تو بیان کرتے ہیں وعیدیں بیان نہیں کرتے، غلط کاموں کے سامنے آڑ نہیں بنتے، اپنی گلابی و دل گداز گفتگو اور منافقانہ باتیں کرکے مقبول و ہر دلعزیز بن کر پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
دو ماہ پیشتر یہ خوش آیند خبر پڑھنے کو ملی تھی کہ قومی اسمبلی نے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی لازمی تعلیم کا بل The Compulsory Teaching of Quran Act 2017 منظور کرلیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی تا پانچویں جماعت تک کے مسلمان طلبا کو قرآن پاک کی ناظرہ کی تعلیم دی جائے گی اور چھٹی تا بارہویں جماعت تک قرآن پاک کا ترجمہ پڑھایا جائے گا۔ اس قانون کا اطلاق اسلام آباد اور وفاقی حکومت کے ماتحت تمام تعلیمی اداروں پر ہوگا۔
حکومت کو ایسی پالیسی ملک کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے وضع کرنی چاہیے، جو اس کی آئینی ذمے داری بنتی ہے۔ اس طرح والدین بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے اضافی انتظامات اور اخراجات کرنے سے بچ سکتے ہیں۔ قرآنی تعلیم اور قرآن فہمی کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑی بڑی پروفیشنل ڈگریاں رکھنے کے باوجود قرآن ناخواندہ ہیں، جب کہ آئین کی شق نمبر 31(2) کے تحت جس کا حوالہ مذکورہ بل میں بھی دیا گیا ہے مملکت پر یہ ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ ''وہ ایسے اقدامات اٹھائے جس کے ذریعے پاکستان کے مسلمان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیاں اسلام کے تصور حیات اور اسلامی اصولوں کیمطابق گزار سکیں، وہ سمجھ سکیں کہ قرآن و سنت کیمطابق زندگیاں کیسے بسر کی جائیں، مملکت اس بات کی کوشش کرے کہ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیم لازمی کی جائے، اسلامی اقدار اور اسلامی معاشرے کے فروغ کے لیے کوششیں کی جائیں۔''
ہماری اسمبلیاں معاشرتی تعمیر و ترقی، عوامی فلاح و بہبود اور مفادات کے تحفظ کے لیے وقتاً فوقتاً نت نئے بل منظور کرتی رہتی ہیں مگر ان بہت سی خامیوں اور ان پر صحیح طور پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے بے مقصد و بے معنی رہ جاتے ہیں۔ حکومت کو قرآن پاک کی لازمی تعلیم کے قانون کو پورے ملک میں نافذ کرکے اس کا فوری عملی اطلاق کی کوششیں کرنی چاہئیں، تاکہ مسلمانان پاکستان قرآن فہمی کے ذریعے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بسر کرکے ایک اچھے معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرسکیں، جس کے مجموعی طور پر ملکی معیشت اور سیاست پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے اور ملک اور حکومت کو درپیش بہت سے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔