سندھ کی تاریخی کہانیاں
سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس قصے پر اپنے دیوان ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں کئی نظمیں لکھی ہیں
مولانا اعجاز الحق قدوسی نے سندھ کی تاریخ کے ہر اہم موضوع کو شامل کر کے ''سندھ کی تاریخی کہانیاں'' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ کہانیاں رائے دور سے شروع ہو کر تالپور کے عہد پر ختم ہوتی ہیں۔ قدوسی صاحب فرماتے ہیں۔ ''میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ کہانیاں تاریخی اعتبار سے مستند ہوں، معلوماتی ہوں اور ان کے پس منظر میں پڑھنے والے کے لیے کوئی اخلاقی درس ہو۔''
سندھ میں رائے راجاؤں کی حکومت ختم ہوئی تو برہمن راج شروع ہوا۔ 710ء میں جب راجہ داہر سندھ پر حکومت کر رہا تھا کہ محمد بن قاسم کے حملے سے یہاں اسلام کی روشنی پھوٹی اور تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ قدوسی صاحب کہتے ہیں۔ ''سندھ کے لوگوں میں شروع ہی سے ذہانت، عقل مندی اور ہوشیاری کے جوہر پائے جاتے تھے۔ جب اسلام پھیلا تو یہ جوہر اور بھی نکھرے اور سندھ میں ایسے ایسے عالم اور صاحب کمال پیدا ہوئے کہ انھوں نے سندھ کے نام کو عجم اور عرب میں روشن کر دیا۔''
سندھ میں سومرہ حکومت تین سو سال تک رہی۔ لیلا چنیسر کی کہانی اسی دور کی کہانی ہے۔ چنیسر سومرہ خاندان کا ایک بادشاہ تھا۔ لیلا اس کی بیوی تھی۔ بہت خوبصورت تھی مگر ایک اور راجہ کی بیٹی نے جس کا نام کوئرو تھا ان دونوں میں جدائی ڈلوا دی اور آخر میں چنیسر اور لیلا دونوں ایک دوسرے پر نثار ہو گئے۔ یہ قصہ سندھی اور فارسی میں ''چنیسر نامہ'' کے عنوان سے نظم ہوا۔ اسی سومرہ خاندان کا ایک قصہ ''عمر ماروی'' کے نام سے مشہور ہے۔
سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس قصے پر اپنے دیوان ''شاہ جو رسالو'' میں کئی نظمیں لکھی ہیں۔ سومروں کے زمانے سے تعلق رکھنے والی تیسری کہانی ''سسی پنہوں'' ہے۔ سندھ کی یہ سب سے مشہور کہانی ہے جس نے دو محبت کرنے والوں کی داستان فداکاری کو امر کر دیا۔ ایک اور کہانی ''مومل رانو'' ہے جو سومرہ دور کی آخری رومانوی داستان ہے۔ سندھ کے ایک فارسی کے شاعر ملا مقیم نے اس قصے کو فارسی زبان میں ''ترنم عشق'' کے عنوان سے نظم کیا ہے۔
قدوسی صاحب نے محمد بن قاسم کے بعد کے ادوار کے تاریخی واقعات اور سندھ کے حکمراں خاندانوں کا مختصراً ذکر کیا ہے اور ان سے متعلق شخصیات سے روشناس کرایا ہے۔ کچھ دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔ ایک وقت میں ٹھٹھہ میں ترخانیوں کی حکمرانی تھی۔ اس خاندان کا آخری حکمراں مرزا جانی بیگ تھا۔ دہلی میں مغل بادشاہ اکبر کی حکمرانی تھی۔ اکبر نے ٹھٹھہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ مغلوں کی طاقت کے آگے مرزا جانی بیگ کی کیا چلتی۔ اس نے صلح کر لی۔
بادشاہ نے اسے پانچ ہزاری منصب دے کر ٹھٹھہ اور سیوستان کا جاگیردار بنا دیا۔ اسی زمانے کا ایک قصہ قدوسی صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ تان سین اکبر کے دربار میں ملازم ہونے سے پہلے ایک راجہ کے پاس ملازم تھا۔ اکبر نے تان سین کے گانے کی شہرت سن کر راجہ کو مجبور کیا کہ وہ تان سین کو اس کے پاس بھیج دے۔ راجہ اگرچہ تان سین کو اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اکبر کے حکم سے مجبور تھا۔
آخر اس نے تان سین کو رخصت کیا اور اس کے کمال کی یہ عزت کی کہ اسے چھوڑنے کے لیے پیدل نکلا اور چند قدم اس پالکی کو کندھا بھی دیا جس میں تان سین سوار تھا۔ تان سین نے راجہ کی یہ قدر دانی دیکھ کر کہا کہ آپ نے میرے فن کی جو قدر کی ہے اس کے شکریے کے طور پر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جس ہاتھ سے میں نے آپ کو سلام کیا ہے، اب اس ہاتھ سے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی سلام نہیں کروں گا۔
اکبر کے دربار میں وہ اپنے اس وعدے پر قائم رہا لیکن جب ایک بار اکبر نے اسے مرزا جانی بیگ کے پاس اس خیال سے بھیجا کہ وہ تان سین کو اس کے منصب کے مطابق کچھ دے نہ سکے گا تو شرمندہ ہوگا تو تان سین نے مرزا کے یہ کہنے پر کہ وہ اب اس قابل نہیں کہ وہ اس کے شایان شان کچھ پیش کرے صرف ایک اپنی جان ہے جو وہ نچھاور کرنے کو تیار ہے اس کو دونوں ہاتھوں سے سلام کیا۔
اعجاز الحق قدوسی لکھتے ہیں کہ سندھ کے نام کو جن بزرگوں نے اپنی قابلیت اور علم سے دور دور تک پھیلایا ان میں میر معصوم علی بھکری بھی ہیں۔ وہ بہت بڑے شاعر، مورخ اور عالم تھے۔ انھوں نے ''تاریخ معصومی'' کے نام سے سندھ کی تاریخ لکھی ہے۔ اکبر نے ان کی قابلیت کو دیکھ کر انھیں اپنا سفیر بنا کر ایران بھیجا۔ وہاں بھی ان کی بڑی قدردانی ہوئی۔
ایک دلچسپ واقعہ قدوسی صاحب نے یہ لکھا ہے کہ میر ابوالقاسم نمکین کا لڑکا، امیر خاں مغلوں کے زمانے میں اپنے علم و فضل اور شاعری کی وجہ سے بادشاہ کی آنکھ کا تارا بنا ہوا تھا۔ بادشاہ کے امیر اور مصاحب اس سے جلتے تھے اور اسے بادشاہ کی نظروں میں گرانا چاہتے تھے۔ ایک دن انھوں نے دیکھا کہ امیر خاں آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اسے سلام کر رہا ہے۔ انھوں نے فوراً جا کر بادشاہ کو خبر کی اور کہا کہ حضور! امیر خاں پاگل ہو گیا ہے، وہ اب اس لائق نہیں کہ دربار شاہی میں باریاب ہو۔
بادشاہ نے یہ سن کر امیر خاں کو طلب کیا اور اس سے پوچھا تم آئینے میں اپنے عکس کو سلام کیوں کر رہے تھے؟ تمہاری عقل تو درست ہے؟ امیر خاں نے جواب دیا، عالی جاہ! مجھے اپنی ڈاڑھی میں چند سفید بال نظر آئے، میں خوش ہوا کہ آپ کی غلامی میں میرے بال سفید ہو گئے ہیں، میں نے اس خوشی میں اپنے عکس کو سلام کر لیا۔ بادشاہ یہ جواب سن کر خوش ہوا اور امیر خاں پر اور زیادہ مہربان ہو گیا۔
قدوسی صاحب بتاتے ہیں کہ سندھ میں کلہوڑوں کی حکومت کا زمانہ تقریباً اسی سال ہے اس سارے دور میں اگرچہ انھیں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم انھوں نے عوام کی بھلائی، ملک کی خوشحالی اور علم کی روشنی پھیلانے کے سلسلے میں بہت اچھے اچھے کام کیے۔ کلہوڑوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد سندھ میں تالپور خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ تالپور خاندان بلوچوں کی ایک شاخ ہے۔ تالپوروں نے اپنی حکومت کا صدر مقام حیدرآباد کو بنایا۔ انگریزوں کے غاصبانہ قبضے تک یہ شہر ان کا دارالسلطنت رہا۔ میر فتح علی خاں اس کا پہلا فرمانروا تھا۔ تالپوروں کی حکومت کا زمانہ گرچہ مختصر تھا لیکن شاندار تھا۔
سندھ کی کہانی حضرت سچل سرمست کے ذکر کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ حضرت شاہ لطیف بھٹائی کے بعد تصوف کی شاعری میں انھیں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہے۔ ان کا اصل نام میان عبدالوہاب تھا۔ سچل سرمست نے سات زبانوں میں شاعری کی اس لیے وہ ہفت زبان کہلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ زور احترام انسانیت پر دیا ہے۔ قدوسی صاحب کہتے ہیں حضرت سچل سرمست اونچ نیچ، رنگ و نسل، علاقائیت کے امتیاز کے مخالف اور سب انسانوں کی بھلائی کے علمبردار تھے۔