بے مقصد جنگ
پاکستان بھارت کی طرح دوغلی پالیسی نہیں اپنا سکتا تھا
پاکستان بھارت کی طرح دوغلی پالیسی نہیں اپنا سکتا تھا۔ پاکستان نے آزادی کے بعد دونوں متحارب عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ منسلک ہونا مناسب سمجھا تھا، مگر بھارت نے دونوں سپر پاورز سے اپنے تعلقات استوار کیے اور دونوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کیا۔ وہ امریکا کو تو پاکستان کے خلاف نہ کرسکا مگر سوویت یونین کو ضرور پاکستان کا دشمن بنادیا، تاہم ہم سے بھی کچھ غلطیاں ہوگئیں، ہم امریکا کی محبت میں اس قدر پاگل ہوگئے کہ صوبہ سرحد میں اسے ایک فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی، جہاں سے وہ اپنے جہازوں کے ذریعے روس کی جاسوسی کرنے لگا۔
اس کے علاوہ ہم کمیونزم کے خلاف بند باندھنے کے سلسلے میں امریکا کے ساتھ پوری مستعدی کے ساتھ کھڑے تھے اور روس کو کھلی چنوتی دے رہے تھے۔ آگے جاکر روس سے یہ ہماری دشمنی بہت مہنگی پڑی۔ اس نے ہماری دشمنی میں ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے خلاف ویٹو استعمال کیا اور یوں مسئلہ کشمیر جو اس وقت تازہ تازہ تھا، حل ہوسکتا تھا، پیچیدگی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ روس کے ساتھ ہمارے خراب تعلقات کا اثر افغانستان پر بھی پڑا کیونکہ ماضی میں ساری افغان حکومتیں روس کے زیر اثر رہیں۔
ابتدا میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ پختونستان کا تھا۔ افغان حکومت پختونستان کے مسئلے کو اتنا اہم خیال کرتی تھی کہ اس نے قیام پاکستان تک کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس وقت کی افغان حکومت کا موقف تھا کہ پاکستان نے صوبہ سرحد میں واقع اس کے کئی علاقوں کو اپنا علاقہ بنا لیا ہے، یہ علاقے اس کے ہیں اور پاکستان انھیں واپس کرے یا ان پر پختونستان کے نام سے ایک نئی ریاست قائم کی جائے۔
پختونستان کی اصل حقیقت یہ تھی کہ یہ شوشہ انڈین کانگریس نے چھوڑا تھا اور خان عبدالغفار خان نے پاکستان مخالفت میں اسے عروج پر پہنچا دیا تھا، چونکہ ان کی پاکستان سے نفرت کی یہ انتہا تھی کہ انھوں نے مرنے سے پہلے وصیت کردی تھی کہ انھیں پاکستان کی سرزمین سے باہر افغانستان میں دفن کیا جائے اور ان کے مرنے کے بعد ایسا ہی ہوا تھا۔ ان کی قبر افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہے۔
جب باچا خان پاکستان سے اس قدر نفرت کرتے تھے تو پشاور ہوائی اڈے کو ان کے نام سے منسوب کرنے پر ان کی روح ضرور تکلیف میں ہوگی۔ چونکہ پختونستان کا شوشہ بھارتی رہنماؤں کا چھوڑا ہوا تھا جس کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا، چنانچہ رفتہ رفتہ یہ غیر حقیقی مسئلہ اپنے انجام کو پہنچ گیا اور خاص طور پر باچا خان کے انتقال کے بعد ان کے وارثین نے خود کو پاکستان کا وفادار ثابت کیا اور پختونستان کے مسئلے کو اپنی پارٹی کے منشور سے ہٹا دیا۔
اس وقت باچا خان کے پوتے اسفند یار ولی ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے صوبہ سرحد کی ایک بڑی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے کامیاب رہنما ہیں۔ اب پاکستان میں تو پختونستان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے البتہ افغان حکومت پاکستان دشمنی میں ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکاری ہے۔ دراصل اس شوشے کو جلا بخشنے والا بھارت کا خدمت گار کرزئی ہے۔
بھارت کی پشت پناہی کی وجہ سے افغانستان میں اسے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ گو وہ اس وقت افغانستان کی صدارت پر فائز نہیں ہے مگر بھارت امریکا گٹھ جوڑ نے اسے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے زیادہ بااختیار بنادیا ہے۔ افغانستان کے تمام اندرونی اور بیرونی فیصلے کرزئی کے دفتر میں طے پاتے ہیں جن کی پاسداری اور عملداری کرنا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ذمے داری ہے۔
شروع شروع میں اشرف غنی افغان صدارت کا عہدہ سنبھال کر افغان مسئلے میں اہم کردار اور قربانیوں کو مدنظر رکھ کر پاکستان کے بہت قریب آگئے تھے مگر کرزئی نے انھیں پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی کی جانب راغب کردیا تھا۔ اب وہ پاکستان دشمنی میں بھارت کی مرضی کے مطابق کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کو مطعون کرکے مودی کو ضرور خوش کیا ہے مگر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ نمک حرامی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، جس ملک نے افغان مسئلے کے حل کے لیے خود کو برباد کرلیا، اس محسن پر الزام تراشی کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
ادھر بھارت افغانستان کو پاکستان دشمنی کی آگ میں جھونک کر افغان مسئلے کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ اور طویل بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اس وقت بم دھماکے افغانستان میں روز کا معمول بن چکے ہیں، کرزئی اور اشرف غنی ان دھماکوں کو بڑی ڈھٹائی سے پاکستان سے منسوب کر رہے ہیں جب کہ افغانستان کا حال یہ ہے کہ طالبان پورے افغانستان پر چھا چکے ہیں۔ افغان فوج کی طالبان کے آگے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ طالبان کی طاقت کے آگے تو نیٹو افواج بھی بے بس نظر آتی ہیں۔
قندھار اور قندوز کے معرکوں میں طالبان نے نیٹو افواج کو ذلت آمیز شکستیں دی ہیں۔ اس وقت افغانستان میں نیٹو افواج کی تعداد میں بھی بہت کمی آئی ہے کیونکہ کئی ممالک نے اپنے فوجیوں کو یہ کہہ کر واپس بلالیا ہے کہ وہ اس بے مقصد جنگ کا مزید حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس جنگ کو بے مقصد بنانے میں بھارت کا اہم کردار ہے کیونکہ اس نے اس جنگ کا رخ اصل مقصد سے ہٹا کر پاکستان کی جانب پھیر دیا ہے، وہ افغانستان کو اپنی جاگیر کے طور پر اپنے مفاد میں استعمال کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغان جنگ کی طوالت کی وجہ سے امریکا بھی افغانستان سے لاتعلق سا ہو گیا ہے۔ لگتا ہے اس نے ایسے بھارت کے حوالے کردیا ہے اور بھارت اپنے زرخرید غلام کرزئی کے ذریعے یہاں کا سارا نظام چلا رہا ہے۔ گو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ عوام کے ووٹوں سے جیت کر صدارت اور چیف ایگزیکٹیو کے عہدوں پر فائز ہوئے ہیں مگر وہ بھی کرزئی کے حکم کو ماننے کے پابند ہیں۔ بھارت نے افغان میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ پورا افغان میڈیا بھارت کی تعریفوں کے پل باندھنے اور پاکستان کے خلاف سخت پروپیگنڈے میں مصروف تھے۔
بھارت دراصل یہ چاہ رہا ہے کہ جس طرح اس نے بنگلہ دیشی میڈیا کے ذریعے بنگالیوں کو پاکستان کا دشمن بنا دیا تھا اسی طرح افغان میڈیا کے ذریعے افغانوں کو پاکستان کا دشمن بنادیا جائے۔ یہ دراصل بھارت کی بھول ہے۔ افغان عوام اور بنگالیوں میں بہت فرق ہے۔ افغانوں کا جینا مرنا پاکستانیوں کے ساتھ ہے، وہ پاکستان کے احسانات کو کبھی بھی نہیں بھول سکتے۔
پاکستان نے روس جیسی سپر پاور سے ٹکر لے کر اس کے قبضے سے افغانستان کو آزاد کرایا اور لاکھوں افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی، پھر ابھی پاکستان افغانستان کو مغربی ممالک کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے، مگر بھارت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس وقت افغان مسئلے کی حقیقت کو سمجھ کر روس اور چین بھی اسے حل کرانے کے لیے متحرک ہوچکے ہیں ان کے طالبان سے مذاکرات جاری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کو اب بھی افغان عوام کی حمایت حاصل ہے چنانچہ جلد یا بدیر انھیں اقتدار سونپنا ہوگا اور یہی اس مسئلے کا آخری اور پائیدار حل ہے۔