چیمپئنز ٹرافی میں بہتر رینکنگ کا دبدبہ کمزور پڑ گیا

مسائل سے پریشان پاکستان ٹیم ایک بار پھر حیران کر پائے گی؟

مسائل سے پریشان پاکستان ٹیم ایک بار پھر حیران کر پائے گی؟۔ فوٹو: اے ایف پی

پرستاروں کو بیشتر میچز میں پریشان اور کبھی کبھار حیران کردینے والی پاکستان ٹیم کی فارم اچھی ہو یا بری ہمیشہ خطرناک حریف شمارکی جاتی ہے۔

عالمی ون ڈے رینکنگ میں 8ویں پوزیشن پر موجود گرین شرٹس کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کوئی خاص توقعات وابستہ نہیں کی گئی تھیں،پہلے ہی میچ میں بھارت کا چیلنج درپیش ہوا تو حریف کی قوت کو دیکھتے ہوئے کسی اپ سیٹ کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا تھا لیکن تجربہ کار مینجمنٹ، ناتجربہ کار کپتان سرفراز احمد اور دباؤ کا شکار کھلاڑیوں نے بلوشرٹس کا کام مزید آسان کردیا۔

پاکستان ٹیم کو کیا جلدی پڑی تھی کہ 12کھلاڑیوں کے ناموں کا پہلے ہی اعلان کر دیا، مضبوط بھارتی بیٹنگ لائن اپ ہمیشہ ہدف کے تعاقب کو ترجیح دیتی جبکہ گرین شرٹس معمولی ٹارگٹ کو بھی مشکل بنالینے کی روایت رکھتے ہیں، اس کے باوجود ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا گیا، ایجبسٹن کی بیٹنگ وکٹ کو دیکھتے ہوئے بھارت نے 4سیمرز شامل کئے جبکہ پاکستان نے 2ریگولر سپنرز کو کھلانے کا فیصلہ کیا، محمد حفیظ اور شعیب ملک بیکار کی چیز بن کر رہ گئے، بھارتی ٹیم سلو بولرز کو اچھا کھیلتی ہے،اس نے جی بھر کر رنز بٹورے،محمد حفیظ کی مدد سے لیفٹ ہینڈرز کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکتی تھیں، ان سے ایک اوور بھی نہیں کروایا گیا۔

عماد وسیم نئے گیند سے کوئی کرشمہ نہیں دکھاسکے، چند روز قبل ہی فٹنس مسائل کی وجہ سے ٹریننگ نہ کر پانے والے وہاب ریاض کو جنید خان پر ترجیح دی گئی، پیسر کی بولنگ میں کوئی دم خم باقی نہیں رہا، ورلڈکپ 2011ء کے سیمی فائنل میچ میں بھارت کے خلاف یادگار سپیل سے امکانات روشن ہوئے کہ پیسر بڑے میچز میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اگلے چار سال تک جمود طاری رہا، ان کا ایک سپیل بہتر تو دوسرا بدترین ہوتا۔

ورلڈ کپ 2015کے کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کے دوران انہوں نے جارحانہ بولنگ کرتے ہوئے شین واٹسن کو پریشان ضرور کیا لیکن پاکستان کی فتح کا راستہ نہیں بناسکے،اسی ایک سپیل نے ان کیریئر کو اتنا طول دیا کہ کئی باصلاحیت بولر کی آج تک حق تلفی ہورہی ہے، بڑی ٹیموں انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بھارت کے خلاف 12 میچز میں وہاب ریاض نے 660 رنز دے کر صرف 6 وکٹیں حاصل کیں یعنی انہوں نے ایک وکٹ کے لیے 110 رنز دیئے، انگلینڈ کے خلاف ایک ون ڈے میچ میں 110 رنز کی ریکارڈ پٹائی شائقین آج تک نہیں بھولے ہوں گے۔

بھارت کے خلاف میچ میں انجرڈ ہونے سے قبل پیسر نے 8.4 اوورز میں 87 رنز دیے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہ کر سکے، چیمپئنز ٹرافی کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز دینے والے بولرکا ''اعزاز'' حاصل کرنے کے باوجود سلیکٹرز اگلی سیریز میں ایک بار پھر ان کو ''ہیرو'' بنانے کا خواب دیکھنے لگیں تو حیرت نہیں ہونا چاہیے، مکی آرتھر نے وہاب ریاض کو میچ کھلانے کی ذمہ داری قبول کی جس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ ہیڈ کوچ کھلاڑیوں کی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ٹیم کا حصہ بنا رہے ہیں۔

بولرزکی غلطیاں اپنی جگہ بھارت کے خلاف میچ میں یوراج سنگھ اور ویرات کوہلی جیسے بیٹسمینوں کے کیچ چھوڑ کر حریف کو کم سکور پر محدود کرنے کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا، سرفراز احمد فیلڈ سیٹ کرتے ہوئے بھی اچھی پلاننگ نہیں کرسکے، بھارتی بیٹسمین باؤنڈریز کے ساتھ سنگلز، ڈبلز بھی آسانی سے بناتے رہے۔پہاڑ جیسے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بیٹنگ لائن اعتماد سے عاری نظر آئی، تمام بیٹسمین پہلے ڈاٹ گیندیں کھیل کر خود پر دباؤ بڑھاتے پھر وکٹ گنواتے رہے،ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن احمد شہزاد، محمد حفیظ ٹیم کے بجائے اپنے لئے کھیلنے کی کوشش کرتے نظر آئے،اس میں بھی ناکام رہے،سری لنکن بیٹسمینوں نے ایک بڑا ہدف حاصل کرکے ثابت کیا ہے کہ بھارتی بولنگ اتنی جاندار نہیں کہ رنز بنانا دشوار کردے۔


پروٹیز کے خلاف دوسرے میچ میں بھی کوئی گرین شرٹس سے جیت کی توقع نہیں کررہا تھا لیکن بولنگ کا کمبی نیشن درست ہونے کے بہتر نتائج سامنے آئے، پیسرز کو ریورس سوئنگ ملی تو انہوں نے اچھی لائن اور لینتھ سے مضبوط بیٹنگ لائن کے لیے مسائل پیدا کئے، حریف کا اعتماد ڈگمگایا تو ہاشم آملا، ڈی کوک کو بھی اچھی بولنگ کا لحاظ کرنا پڑا، بعد ازاں پاکستان کو انتہائی خطرناک ڈی ویلیئرز سمیت وکٹیں بھی ملیں اور رنز کا تسلسل بھی ٹوٹا، فیلڈرز نے بھی جوش کے ساتھ ہوش کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے کیچز لئے،حسن علی نے بہترین سپیل کرتے ہوئے پروٹیز کی میچ میں واپسی کے راستے بند کئے، گرچہ گرین شرٹس اہم میچ میں فتح حاصل کرتے ہوئے ایونٹ میں سفر جاری رکھا لیکن ٹیم خاص طور پر کپتان سرفراز احمد کی پلاننگ میں کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کے خلاف میچ میں محمد حفیظ کو بالکل ہی بولنگ نہ دینے پر سخت تنقید ہوئی تو سرفراز احمد نے پروٹیز سے مقابلے میں 10اوورز ہی کرواڈالے، خطرناک نظر آنے والے حسن علی اور شاداب خان کے کوٹہ سے مجموعی طور پر 7اوورز بچ گئے، بہتر فیصلے کرتے ہوئے ٹیل اینڈرز پر دباؤ برقرار رکھا جاتا تو ربادا جیسے ٹیل اینڈرز کریز پر قیام طویل نہ کرتے اور پروٹیز کو 200 سے زائد رنز بنانے کا موقع نہ ملتا۔

بیٹنگ بھی لٹیا ڈبودینے والی تھی لیکن بھلا ہو بارش کا کہ مدد کو آگئی، محمد حفیظ 39 ڈاٹ گیندیں یعنی 6.3 اوورز میڈن کھیل گئے، بابراعظم نے 33گیندوں پر کوئی رن نہیں بنایا، اظہر علی نے بھی 18 ڈاٹ گیندیں کھیلیں، یوں 27 اوورز میں پاکستان ٹیم نے162 میں سے 107گیندوں پر سکور بورڈ کو زحمت نہیں دی، کیریئر کا پہلا ون ڈے کھیلنے والے فخرزمان بیٹنگ کررہے تھے تو رن ریٹ 5.5تھا، اوپنر کے آؤٹ ہونے پر اگلے 10 اوورز میں 2.7رہا، شعیب ملک نے گیندیں ضائع نہیں کیں، اگر محمد حفیظ تھوڑی دیر اور کریز پر رک جاتے تو پاکستان ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ کی ستم ظریقی کا شکار ہوجاتا،ہدف اتنا کم تھا کہ اظہر علی کی ٹیسٹ بیٹنگ بھی کافی ہوتی لیکن انہوں نے غلط سٹروک کھیل کر وکٹ گنوادی،محمد حفیظ اتنا تجربہ ہونے کے باوجود بھول جاتے ہیںکہ باؤنڈری کے قریب کہاں فیلڈر ان کی اننگز کا خاتمہ کرنے کے لیے تیار ہے،ذاتی کارکردگی کو ترجیح دینے والے احمد شہزاد تو پہلے ہی کسی کام کے نہیں رہے۔

ناکارہ پرزوں کو تبدیل کرکے فخرزمان اور دیگر نوجوانوں کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینے کی ضرورت کئی سال سے محسوس ہورہی ہے لیکن سلیکٹرز کی ڈری سہمی پالیسی کا حال یہ ہے کہ دورہ ویسٹ انڈیز میں آصف ذاکر صرف سیر کرکے واپس آگئے،بنگلہ دیش کے خلاف وارم اپ میچ میں پاور ہٹنگ کرتے ہوئے ہار کو جیت میں بدلنے والے فہیم اشرف کو موقع دینے کا خطرہ مول نہیں لیا جارہا،میچ تجربے کا نہیں بلکہ توقعات کا بوجھ اٹھانے والے کرکٹرز جیتتے ہیں،ابتدا میںناکامیاں بھی ہوں تو نئے خون کو مواقع دے کر مستقبل کے لیے تیار کرنا ہوگا،مقدر اور بارش ہر بار ہمارے حق میں ہوں، ایسا ممکن نہیں، ٹیم کو بڑے ناموں والے کرکٹرز نہیں فائٹر درکار ہیں۔

بہرحال پاکستان نے جنوبی افریقہ اور سری لنکا نے بھارت کو اپ سیٹ کرتے ہوئے گروپ ''بی'' میں دلچسپ صورتحال پیدا کردی ہے، چاروں ٹیمیں ایک ایک میچ جیت کر سیمی فائنل تک رسائی کی دوڑ میں شامل ہیں، اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو بھارت +1.272کے نیٹ رن ریٹ کے ساتھ پہلے، جنوبی افریقہ( 1.000 +)دوسرے، سری لنکا( 0.879 -) تیسرے اور پاکستان( -1.544) چوتھے نمبر پر ہے، آج کھیلے جانے والے میچ میں بھارت یا جنوبی افریقہ میں سے جو ٹیم بھی جیتی سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی، دوسری کو رخصتی کا پروانہ جاری ہوجائے گا۔

پاکستان کو ایونٹ میں بقا کی جنگ سری لنکا کے خلاف لڑنا ہے، ناکام ٹیم کو گھرواپسی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا،اگر بارش ہوگئی اور دونوں میچ بے نتیجہ ختم ہوئے تو بہتر رن ریٹ کی بدولت بھارت اور جنوبی افریقہ سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گے لیکن اگر صرف ان دونوں ٹیموں کا میچ ہی بے نتیجہ رہتا ہے تو بلو شرٹس کی پیش قدمی جاری رہے گی جبکہ پروٹیز ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائیں گے، اگر صرف پاکستان اور سری لنکا کا میچ بارش کی نذر ہوا تو آئی لینڈرز سیمی فائنل میں جبکہ پاکستان کا سفر تمام ہو جائے گا، پیش گوئی کے مطابق بارش کا امکان نہیں لیکن انگلینڈ کے موسم کو دیکھا جائے تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

پاکستان کی طرح سری لنکن ٹیم بھی تعمیر نو کے عمل سے گزر رہی ہے،بھارت کے خلاف میچ میں بیٹنگ نے اپنی صلاحیت ثابت کی ہے،سیمی فائنل تک رسائی کے لیے گرین شرٹس کو حریف کی قوت اور کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہ صرف پلان بنانا بلکہ ذمہ دارانہ کھیل پیش کرکے اس پر عملدرآمد بھی کرنا ہوگا،کپتان سرفراز احمد کو جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے درست فیصلے کرنا ہوں گے، محدود وسائل کے ساتھ سخت جنگ لڑناآسان نہیںہوتا لیکن بنگلہ دیش نے 33رنز کے سفر میں 4وکٹیں گنوانے کے باوجود نیوزی لینڈکو شکست دے کر ثابت کردیا کہ ہمت والوں کے لیے کرکٹ میں کچھ بھی کردکھانا ناممکن نہیںہوتا۔

 
Load Next Story