فکری مفلسی کے شکار معاشرے

جو کچھ اس خاتون نے لکھا ہے وہ حرف بہ حرف درست ہے

muqtidakhan@hotmail.com

گزشتہ ماہ امریکی صدر نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا۔ وہ پہلے سعودی عرب، پھر اسرائیل اور اس کے بعد ویٹی کن سٹی گئے۔ یوں انھوں نے تینوں بڑے ابراہیمی ادیان کے مراکز کا دورہ کیا۔ سعودی عرب مسلم دنیا کا مرکز ہے، جب کہ ویٹی کن سٹی کیتھولک مسیحی عقائد کا مرکز ہے۔ یروشلم گو کہ متنازع ہے، لیکن یہودیت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب کے دورے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر معاہدوں کے علاوہ سعودی عرب کے ساتھ 110 ارب ڈالر اسلحہ کی فروخت کا معاہدہ بھی کیا۔ دورے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی فرمانروا نے ایران پر شدید تنقید کرکے مسلمانوں میں فقہ کی بنیاد پر جاری تقسیم کو مزید گہرا کردیا۔ گویا اربوں ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کے خلاف دفاع کے لیے نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے خریدا جارہا ہے۔

لیکن اس دورے کے ایک ہفتے بعد ہی قطر کے ساتھ سعودی تنازع نے مسلم دنیا کو ایک نئی تقسیم کا شکار بھی کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ ایک نئے تصادم کی راہ پر لگ گیا ہے۔ حالانکہ امیر کویت اس تنازع کو حل کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب نے مصالحت کے لیے دس نکات پیش کیے ہیں، جن میں سرفہرست ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا اور مقبول چینل الجزیرہ پر پابندی ہیں۔ لیکن فی الحال اس تنازع کے ختم ہونے کے آثار کم ہی نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ اس کھیل میں کچھ دیگر مسلم ممالک بھی شریک ہوگئے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے یہ برادر ممالک کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔ جو کئی دہائیوں سے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ نہ ہی انھیں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نظر آرہے ہیں۔ اگر پیش نظر ہے تو فقہی اور مسلکی اختلاف اور باہمی مفادات کا ٹکراؤ۔ لاعلمی اور بے حسی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ ایک اردنی اخبار نے اپنے اداریے میں کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ مگر کسی مسلم ملک کے کسی ایک دانشور یا سیاسی رہنما نے اس کی مذمت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورے کے حوالے سے ایک خاتون نے نیویارک ٹائمز میں خاصا دلچسپ اور فکر انگیز تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ''جب ٹرمپ سعودی عربکے دارلحکومت ریاض گئے تو وہاں باہمی نفرتوں کے تذکرے، جنگ کی باتیں اور اسلحہ کے معاہدے ہوئے۔ مگر جب وہ مسیحیوں کے مرکز ویٹی کن سٹی گئے تو وہاں عفو و درگزر اور امن و شانتی کے فروغ پر زور دیا گیا۔ ریاض میں ماحول کو بارود سے آلودہ کرنے پہ اصرار ہوا، جب کہ ویٹی کن میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ریاض نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے لڑنے کے لیے 110 ارب ڈالر کا جدید اسلحہ خریدا، جب کہ ویٹی کن کے متولی نے غربت اور ناانصافی کے خاتمے کا مطالبہ کیا''۔

جو کچھ اس خاتون نے لکھا ہے، وہ حرف بہ حرف درست ہے۔ دراصل مسلم معاشرے اپنی علمی پسماندگی اور فکری فرسودگی کے باعث ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ 8 صدیوں کے فکری جمود اور دو صدیوں سے سیاسی فرسودگی میں مبتلا مسلم معاشرے جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان کی کوتاہ بینی کی وجہ سے قدرت کی جانب سے انھیں عطاکردہ بے بہا وسائل پر اغیار کا کنٹرول تصرف قائم ہوگیا ہے۔ نتیجتاً یہ ممالک صارف معاشروں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ نہ اعلیٰ پائے کی جامعات، نہ سائنسی تحقیقی اور نہ سیاسی و سماجی ارتقا۔ بلکہ ماضی کی طرح آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ قبائلی طرز کی مخاصمت میں مبتلا ہیں۔ یہ لڑائی وقت گزرنے کے ساتھ تیز تر ہوتی جارہی ہے اور ان معاشروں کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔


دور جدید کی المیہ داستان پہلی عالمی جنگ سے شروع ہوئی۔ فکری مفلسی اور سیاسی فرسودگی میں مبتلا مسلم معاشرے یکے بعد دیگرے استعماری قوتوں کے خواب جہانگیری کی تعبیر کا ذریعہ بنتے چلے گئے۔ ترکی کے عثمانی حکمرانوں نے جنگ میں جرمنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرکے اپنی ڈوبتی کشی کو وقت سے پہلے ہی ڈبو دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب عثمانیہ سلطنت فرسودگی کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ جب کہ مشرق وسطیٰ میں عرب نیشنلزم کی چنگاری بھڑکنا شروع ہوگئی تھی۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کی رہی سہی عالمی قوت کو بھی زمیں بوس کردیا۔

جنگ کے منطقی انجام تک پہنچنے سے سال بھر قبل (نومبر1917) برطانوی وزیر خارجہ سر آرتھر جیمز بالفور اور برطانوی یہودی کمیونٹی کے رہنما والٹر روتھس چائلڈ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے، جو معاہدہ بالفور کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد فلسطین کی سرزمین پر صہیونی ریاست کا قیام تھا۔ اس کھیل میں کون کون استعمال ہوا، کس کس نے اپنا ضمیر فروخت کیا، یہ داستان اگر کھل کر رقم کردی جائے، تو بہت سی شخصیات کی تقدیس کے برج زمین بوس ہوجائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر حکمرانوں کے اجداد اس توہین آمیز امن معاہدے کے بالواسطہ یا بلاواسطہ شراکت دار تھے، جو برطانیہ نے ترک سلطنت کے ساتھ کیا تھا۔

اپنے مذموم مقاصد کے لیے تاج برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کو جس بیدردی کے ساتھ ''عرب آزادی'' کے نام تقسیم کیا، وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں عرب ممالک کا کردار بھی سب کے سامنے ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور کس عرب ملک نے ڈالروں کی جھنکار میں کیا کردار ادا کیا، اب کوئی پوشیدہ معاملہ نہیں رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا دہرا معیار بھی کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔ جس بریگیڈیئر نے فلسطینی کیمپوں پر قیامت صغریٰ بپا کی، اسے پے درپے ترقیاں دی گئیں۔ بالآخر وہ اپنے ہی ملک پر قابض ہوکر گیارہ برس تک سپید وسیاہ کا مالک بنا رہا۔

مشرق وسطیٰ پر تیسرا سازشی حملہ 1990کی پہلی عراق جنگ ہے، جس میں اسلام کے متولی روز اول کی طرح امریکی کھیل کا حصہ بنے۔ پھر 9/11 کے بعد پہلے افغانستان اور پھر عراق کو تختہ مشق بنایا گیا۔ مگر کوئی ایک مسلم ملک جس نے امریکی اقدام کی مذمت کی ہو؟ شاید کوئی نہیں۔ کچھ مسلم ممالک امریکا کی ثناخوانی میں لگے رہے اور بیشتر خاموش تماشائی بنے عراق کی تباہی کا منظر دیکھتے رہے۔ بلکہ کچھ نے تو اپنے ہوائی اڈے بھی امریکا کے حوالے کردیے۔

چوتھی آگ عرب بہار (Arab Spring) کے نام پر تیونس سے دسمبر 2010 میں شروع ہوئی، جو لیبیا کو جھلستی ہوئی مصر کے راستے یمن اور پھر شام میں پہنچی۔ شام سات برسوں سے مسلمان ملکوں کی منافقتوں اور دہرے معیار کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ ایک کروڑ شامی باشندے دربدر خاک بسر ہیں۔ عرب قومیت کے دعویدار کسی عرب ملک نے انھیں پناہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اگر پناہ دی تو غیر مسلم یورپ نے اور عجمی ترک نے۔ جنھیں عرب دنیا نے کبھی اپنا ہمسر نہیں سمجھا۔

داستان بہت طویل ہے، اس سے زیادہ سینے پر لگے زخم گہرے ہیں۔ جب ہمارے رہنما، علما اور دانشور سینہ پھلا کر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، تو ہم جیسے فقیروں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی جنونیت کو عسکریت کا لبادہ کن حلقوں نے پہنایا؟ متشدد فرقہ واریت کو کن مقاصد کے لیے ہوا دی؟ وہ کون ہیں، جو استعماری قوتوں کے آلہ کار بنے آج بھی امت مسلمہ میں نفاق کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں؟

مگر کیا کریں سچائی لکھتے ہوئے خوف آتا ہے، کیونکہ اگر ایک فرقہ کے عسکری ونگ سے بچ پائیں گے، تو دوسرے فرقہ کے جنگجو جان لے کر جنت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں گے۔ کیونکہ کسی حکمران، عالم دین اور دانشور کو یہ توفیق نہیں کہ وہ مسلمان معاشروں کو تفرقہ کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے اپنا حصہ ڈال سکے۔ جو اپنی فکری فرسودگی اور کوتاہ بینی کے سبب فخریہ انداز میں استعماری قوتوں کا تر لقمہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم اس حد تک ذہنی مریض ہوچکے ہیں کہ اس صحافی خاتون کے الفاظ بھی شاید ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی ہیں۔
Load Next Story