سندھ کا بجٹ

ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی مسلسل نظر انداز کیے جانے کے باعث تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے

tahirnajmi@express.com.pk

کسی بھی حکومت کا بجٹ اس کی آمدنی اور اخراجات کا میزانیہ اور اس کے ارادوںکا آئینہ دار ہوتا ہے، آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت آنے والے مالیاتی سال میں کیا کچھ کرے گی، حالات کو جوں کا توں رہنے دے گی یا اس میں کوئی کیفیتی تبدیلی لانے کی کوشش کرے گی، اس لحاظ سے اگر ہم سندھ کے بجٹ کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ اسٹیٹس کو Status quo برقرار رکھنے والا بجٹ ہے، جس میں غیر پیداواری مصارف کو کم کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی، جس بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جاتے ہیں اور وسائل کا رخ پیداواری سرگرمیوں کی جانب موڑا جاتا ہے اسے ماہرین اقتصادیات ترقیاتی نوعیت کا بجٹ قرار دیتے ہیں۔

سندھ کا 10 کھرب 43 ارب روپے کا بجٹ اس لحاظ سے منفرد کہا جا سکتا ہے کہ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے برعکس اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جب کہ وفاقی بجٹ اور دیگر صوبائی بجٹوں میں یہ اضافہ صرف 10 فیصد تک ہے۔

سندھ کی حکومت نے یہ اقدام کیوں کیا اور سرکاری ملازمین کے ساتھ اتنی ہمدردی کا اظہار کیوں کیا گیا، اس کا جواب حکومت کے معترضین یوں دیتے ہیں کہ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی لگاتار دوسری میعاد کا آخری بجٹ ہے، لہٰذا اس نے سرکاری ملازمین کو خوش کرنے کے لیے ان کی تنخواہ میں 15 فیصد اضافہ کیا ہے تاکہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں اسے سرکاری ملازمین کی جانب سے خاموش تائید و حمایت حاصل رہے۔

دوسرا اہم اقدام 49 ہزار نئی آسامیاں پیدا کرنے کا اعلان ہے۔ اسے بھی پیپلز پارٹی کے ناقدین انتخابی تناظر میں دیکھ رہے ہیں تاکہ بے روزگاری کی انتہائی بلند شرح پر پہنچتے ہوئے اس صوبے میں نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز پیپلز پارٹی رہے اور وہ روزگار ملنے کی امید میں پیپلز پارٹی سے وابستہ رہیں۔

پیپلز پارٹی نے یہ دونوں اقدام اپنے ووٹ بینک (دیہی آبادی) کو محفوظ رکھنے کے لیے کیے ہیں، اس کے علاوہ اپنی بجٹ تقریر میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جو صوبائی وزیر خزانہ بھی ہیں، وفاقی حکومت سے بڑے گلے شکوے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ 70 فیصد توانائی پیدا کرتا ہے اور جو صوبہ گیس پیدا کرتا ہے آئین کے تحت پہلا حق اس صوبے کا ہے، مگر سندھ میں بے تحاشا بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، جو سندھ کی کھلی حق تلفی ہے۔ مبصرین اس کا سلسلہ بھی انتخابی مہم سے جوڑ رہے ہیں۔

مراد علی شاہ نے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہ کیے جانے کا بھی شکوہ کیا۔ غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا کہ وہ سندھ میں اپنی گورننس کو بہتر اور شفاف بنانے پر توجہ دیتے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں انفرااسٹرکچر کی بحالی پر توجہ دیتے جو مسلسل نظر انداز کیے جانے کے باعث تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔


آزاد مبصرین کو توقع تھی کہ مراد علی شاہ سندھ کے بجٹ کو شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بنانے کے لیے استعمال کریں گے (جو کئی دہائیوں سے ان کے لیے شجر ممنوع بنا ہوا ہے) اور میگا پولیٹن شہر کے شہری مسائل کے حل کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکیج کا اعلان کریں گے تاکہ پیپلز پارٹی کے لیے شہری عام انتخابات میں اپنے روایتی حلقوں لیاری و ملیر وغیرہ سے ہٹ کر بھی کچھ نشستیں جیتنے کا امکان پیدا ہو سکے۔ مگر بجٹ کی ترجیحات بتا رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کو شہری سندھ کے ووٹوں کی کوئی پروا نہیں، وہ دیہی علاقوں سے اتنی نشستیں جیت جاتی ہے کہ حکومت بنانے کے لیے اسے شہری نشستوں کی ضرورت نہیں رہتی۔

بجٹ کی خوبیوں پر نظر ڈالی جائے تو سب سے نمایاں بات تعلیم کے شعبے کے لیے بڑھائی جانے والی رقم ہے، ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ تعلیم کے شعبے کو قدرے اہمیت دی گئی ہے اور اس شعبے کے لیے مختص کردہ رقم میں 24 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ تقریر میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر معاشرے کو آگے لے کر جانا ہے تو ہمیں اسکولوں اور خاص طور پر اساتذہ پر بھاری سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔

ظاہر ہے اس جذبے کا ہر کوئی خیر مقدم کرے گا اور کسی جانب سے بھی یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے ایسے مخالفین بھی جو ہر کام میں کیڑے نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بھی تعلیم کے لیے بڑھائی جانے والی رقم کی مخالفت نہیں کر رہے، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ خود پیپلز پارٹی کو یہ خیال بہت دیر سے آیا جو اس صوبے میں لگاتار 9 سال سے اقتدار میں ہے، جس نے اپنے سابقہ بجٹوں میں تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی اس بار دی گئی ہے۔ خیر دیر آید درست آید۔ بجٹ میں کراچی کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ صوبائی دارالحکومت کے تباہ حال انفرااسٹرکچر کو نہ صرف بحال کیا جاتا بلکہ آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر آیندہ دس پندرہ سال کے لیے اسے وسعت دینے کے اقدامات کیے جاتے۔ میئر کراچی وسیم اختر کا یہ شکوہ بجا ہے کہ بجٹ سے پہلے کراچی کے لیے 143 ترقیاتی اسکیمیں صوبائی حکومت کو پیش کی گئی تھیں مگر شاہ نے شاہانہ انداز میں کسی ایک کو بھی شرف قبولیت نہیں بخشا۔

میئر کراچی نے اسے کراچی کے عوام کی توہین سے تعبیر کیا ہے، جو غلط نہیں۔ کراچی نہ صرف سندھ کا دارالخلافہ ہے بلکہ ہر صوبے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے اندر سمونے کے باعث (چھوٹا پاکستان) بن چکا ہے۔ اس شہر کی خدمت دراصل پورے ملک کی خدمت سمجھی اور تسلیم کی جانی چاہیے، سندھ حکومت سے مایوس ہو کر میئر کراچی نے وفاق سے مدد کی اپیل کی ہے۔ مراد علی شاہ کو میئر کراچی کی وفاق سے یہ اپیل ضرور غور سے پڑھنی چاہیے جس میں میئر نے وفاق سے کہا ہے کہ کراچی کے لیے 22 ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج جلد منظور کیا جائے۔

اگر سیاسی مصلحت کے تحت وزیراعظم نے میئر کی اپیل منظور کر لی تو ان کا یہ اقدام سندھ حکومت کے لیے باعث خفت ہوگا کہ اس کے دارالحکومت کے میئر نے اپنی حکومت کے بجائے وفاق سے مدد مانگی جو اسے مل بھی گئی۔ فی الوقت شہری سندھ میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کے بعد سے کراچی حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص اور دیگر ایسے شہروں میں جہاں ایم کیو ایم کے امیدوار کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں اب ان کا انتخابی میدان میں اترنا ہی مشکوک ہوگیاہے۔

اس سیاسی تناظر میں پیپلز پارٹی کے لیے ضروری تھا کہ وہ شہری سندھ میں اپنے لیے جگہ بنانے کی خاطر کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں پر خصوصی توجہ دیتی، یہ موقع بہرحال اس نے ضایع کر دیا ہے تاہم پانی اب بھی سر سے نہیں گزرا، سندھ اسمبلی میں بجٹ پر بحث و تمحیص کے بعد وزیراعلیٰ بجٹ میں رد و بدل میں کرسکتے ہیں اور میئر کراچی کی پیش کردہ ترقیاتی اسکیموں کو شرف قبولیت بخش کر سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کی سیاسی پیش قدمی کے لیے راستہ ہموار کرسکتے ہیں۔
Load Next Story