ایک خواہش ایک سازش
دیکھ لیجیے کیا ہوا؟ آپ پر بھی اسی طرح کے کیسز بن گئے
توقع کے برعکس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب نیوز لیکس پر پاک آرمی نے پہلی مرتبہ ایک ایسا قدم اٹھایا، جس نے ملک کی نئی سمت متعین کردی، لیکن اس انتہائی قابلِ تعریف قدم پر دشمن پڑوسی ممالک کو تو جو افسوس ہوا سو ہوا، جو دکھ ہمارے اقتدار سے فی الحال محروم سیاستدانوں کو ہوا، وہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ ان کا خیال یقینی طور پر تھا کہ پاناما لیکس پر تو شاید حکومت بچ جائے لیکننیوز لیکس پرنہیں۔ جب ایسا نہیں ہوا، بلکہ جو ہوا وہ توقع کے بالکل برعکس تھا۔
اب کیا کیا جائے؟ کچھ تو کرنا ہوگا، لہٰذا ہوجاؤ شروع فوج کے خلاف۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں کہہ چکا ہوں کہ خان صاحب کو وزیرِاعظم بننا ہے، طریقہ کوئی بھی ہو، راستہ کوئی بھی، اقتدار ان کی پہلی اور آخری منزل ہے، لہٰذا میرا انھیں فوری مشورہ ہے کہ وہ جس آگ سے آج کھیل رہے ہیں وہ ان کا آشیانہ بھی پھونک دے گی، ان کی سیاست کو بھی برباد کردے گی، یہ تباہی کا سفر ہے، اس سے جس قدر جلد جان چھڑائی جاسکے چھڑالیں، اور ایسے عاقبت نااندیش احباب کے مشوروں کو ماننے سے اجتناب برتیں جو آپ کو مکمل سیاسی ناکامی کی طرف بھیج رہے ہیں۔
دیکھ لیجیے کیا ہوا؟ آپ پر بھی اسی طرح کے کیسز بن گئے، وہی منی ٹریل جو ثابت ہوکر نہیں دے رہی۔ آج آپ بھی وہیں کھڑے ہیں، الیکشن کمیشن بھی آپ کو چتاؤنی دے رہا ہے۔ پھر آپ نے ان سب نوجوانوں کو جو سوشل میڈیا پر پاک فوج کو برا بھلا کہہ رہے تھے اپنی تقاریر میں یہ کہہ کر تحفظ دیا کہ ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو آپ سڑکوں پر ہوں گے۔ گویا انھیں بھی اچھا سبق مل گیا جنھوں نے اس پودے کی آبیاری کی تھی۔
ایک فطری اصول ہے جو گڑھا آپ دوسروں کے لیے کھودتے ہیں ایک دن اسی میں آپ کو بھی گرنا ہوتا ہے۔ جیسے آج یورپ، امریکا اسی دہشت گردی کا شکار ہیں جسے ایک منصوبہ بندی کے تحت وہ مسلم ممالک میں کروا رہے تھے اور بہت خوش تھے، اسلحہ بک رہا تھا، مسلمان بھی تباہ ہورہے تھے، وہ سارے دہشت گرد جو ان کی فیکٹریز میں تیار ہورہے تھے اب انھی کی گردن میں فٹ ہیں۔ اب وہ لاکھ انھیں قابو کرنا چاہتے ہیں لیکن کیسے ممکن ہو، گویا اسی آگ میں جلنا ہوگا۔
ان دنوں میڈیا میں بڑا چرچا ہے کہ ہمارے پیارے وزیراعظم کو اس دورہ سعودی عرب میں حکمرانواں کی جانب سے وہ پذیرائی نہیں ملی جو ماضی میں ملا کرتی تھی، سیاستدان بھی جزبز ہیں۔ اگر ہم اس معاملے کی گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کریں تو باآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اس رویے کی وجہ کیا تھی؟ ظاہر ہے آپ اب تقریباً امریکی بلاک چھوڑ چکے اور چھوڑا بھی برسہابرس کے بعد، وہاں بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ تھے، امریکی صدر، جب کہ سعودی حکمران بھائی اب تک اسی زلف کے اسیر ہیں، لہٰذا میاں صاحب کو متوقع مقام نہیں دیا گیا اور ایسا امریکا کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا، بلکہ جان بوجھ کر کچھ زیادہ نظر انداز بھی کیا گیا، لازماً وزیراعظم پاکستان کو اس پالیسی سے قبل از پروگرام آگاہ بھی کردیا گیا ہوگا۔
آج ہماری ضرورت کیا ہے؟ جو ہے پوری کرلو۔ جنگ 1971 ہو یا افغان وار، ابھی کرلو جو کرنا ہے، کل کس نے دیکھا یا بھائی جو سودے ہیں پیسہ ہے، آج ہی لوٹ لو، پھر پاکستان ہو نا ہو۔ جرائم اس قدر سنگین ہیں کہ اگر انقلاب کی کیفیت کبھی درپیش ہو تو ایک ایک رہنما کو کئی کئی پھانسیاں دی جائیں، تب بھی شاید اس کا دم نہ نکلے، کیونکہ مال بہت ٹھنسا ہوا ہے، پیٹ کی کھال اس قدر سخت ہوگئی کہ آسانی سے پھٹنے والی نہیں۔ کبھی نہیں سوچا گیا کہ یہ سبھی وہی ممالک ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے پھر ایسا کیا ہوا کہ ہم امداد مانگنے والے، وہ دینے والے ہوگئے، جب کہ وسائل میں بھی کوئی فرق نہیں، شاید ہم ہی بہتر ہوں۔
نیا حادثہ نہال ہاشمی کا ایک جذباتی بلکہ ہیجان انگیز بیان ہے۔ لیکن حکومت نے جو فوری ایکشن نہال ہاشمی کے خلاف لیا تھا، ان کی پارٹی رکنیت معطل، سینیٹ سے استعفیٰ، ان کے بیان سے لاتعلقی، اور اس سارے عمل کا میڈیا میں مشتہر کرنا کہ ہمارا قصور نہیں، ہم تو خود ان کے اس عمل پر نالاں ہیں، اسے غالباً واپس لینے کا سوچ رہی ہے۔ نظریہ ضرورت سے لے کر نظریہ سہولت تک، کیا کیا نہیں کیا گیا۔
گمان ہے کہ بھائی لوگ پھر اسی ہوا کا شکار ہیں۔ جب کہ کچھ اداروں کی غالباً خواہش ہے کہ الیکشن 2018 میں عمران خان کو اقتدار میں لائیں، خواہ کسی بھی طرح، کچھ بھی کرنا پڑے، کسی کو استعمال، کسی پر بندوق تاننیِ پڑے، لانا ہوگا، ایک مرتبہ تو لانا ہوگا۔ حالانکہ صاف لگ رہا ہے کہ ایک پرانے شہید سے 35 سال بعد بھی جان نہیں چھوٹی، حتیٰ کہ بہت سے لوگ زندہ تھے، لیکن کچھ نہ کرسکے اس شہید کے مقابلے میں، بلکہ ہارتے رہے، مسلسل ہارے، شہید جیتتا رہا۔
اب اسی انداز میں، اسی اسٹائل میں پھر ایک شہید کی تیاری ہے، وہی جوش و خروش دیکھنے میں آرہا ہے، وہی پھرتیاں۔ سمجھ سے باہر ہوگیا کہ کس طرح ادارے کنٹرول ہوں؟ ایک قابو میں آنے لگے تو دوسرا رسی تڑا کر بھاگ پڑتا ہے۔ ہمارے ان بزرگوں کو شاید معلوم نہیں عوامی انتخاب کیا ہوتا ہے؟ عوامی نمایندے کی حیثیت کیا طاقت رکھتی ہے؟ یا اگر معلوم ہے تو ان کے پیچھے زیادہ بڑی طاقت موجود ہوگی۔
لیکن اس معاملے کو بہرحال نمٹنا چاہیے ورنہ ملک اور قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور اس کے حل میں انصاف ہونا چاہیے، احتساب نہیں، کیونکہ وہ آپ کا کام نہیں، ہمارا، عوام کا کام ہے اور ہم الیکشن کے منتظر ہیں، جو آیا ہی چاہتا ہے۔