عام آدمی… خاص لوگ
اب اگر 70 سال بعد ہی سہی حکمرانوں کو بھی عدالتوں کے کٹہروں میں لایا جا رہا ہے
آصف علی زرداری صاحب، وزیر اعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف سے کہہ رہے ہیں ''سپریم کورٹ سے معافی مانگو۔'' (ن) لیگ والے عمران خان سے کہہ رہے ہیں '' عمران خان! الیکشن کمیشن سے معافی مانگو'' بڑے میاں جی کے صاحبزادگان حسین نواز اور حسن نواز کی پیشیاں سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی کمیٹی کے سامنے ہو رہی ہیں۔ ایک تصویر ''جے آئی ٹی'' سے نکل کر باہر آگئی ہے اور اخبارات میں شایع ہوگئی ہے، اور ''ہنگامہ ہے کیوں برپا، تصویر جو آئی ہے''۔
اس تصویر میں ایسا کیا ہے، جس پر واویلا مچا ہوا ہے، میری کیا کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس تصویر میں ایسا کیا ہے، جس کا ہنگامہ بنے، واویلا ہو۔ وزیراعظم کا بیٹا، ایک کرسی پر بیٹھا ہے، ساتھ چھوٹی سی میز پڑی ہے، وزیراعظم کا بیٹا، ایک ''معاملے'' کی تفتیش کے سلسلے میں آیا ہوا ہے۔ تفتیشی بورڈ نے اسے کرسی پر بٹھایا ہوا ہے۔ معاملہ بڑا اور اہم ہے۔ اسے منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔ مین میخ نکالنے سے پرہیز کیا جائے۔
اب اگر 70 سال بعد ہی سہی حکمرانوں کو بھی عدالتوں کے کٹہروں میں لایا جا رہا ہے تو یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔ آج اپنے اپنے زمانوں کے بڑے نامور (حکومتوں میں شامل) سیاستدانوں کے چشم و چراغ، حکومت میں شامل ہیں اور خوب چہک رہے ہیں، مہک رہے ہیں، دہک رہے ہیں۔ ان سب کے والد محترم بھی اسی طرح دہکتے چہکتے اور مہکتے تھے۔ میں نام کیا لوں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے پڑھے لکھے ، دانشور، صحافی، تاریخ نویس سب کچھ جانتے ہیں کہ موجودہ وزیر، مشیر، سفیر کے بزرگ کیا کرتے کرتے دنیا سے گئے ہیں۔
رہا عام آدمی کا معاملہ تو اسے آٹے دال کے علاوہ اور کسی بات کا پتا نہیں ہے، مگر دکھ سہتے سہتے عام آدمی کو بنیادی بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ''ہمارا حق کس نے مار رکھا ہے'' اسی آگاہی کا نتیجہ ہے کہ عدالتوں سے انقلابی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، یہ عوامی آگاہی کا ہی ردعمل ہے کہ عدالت تین دو کا فیصلہ سنا گئی اور یہ معاملہ ابھی چل رہا ہے۔ آخری فیصلہ ابھی آنا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کے چار سال پورے ہوچکے، پانچواں بجٹ بھی آگیا، مگر عام آدمی کے حالات پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں بدلے۔ عمران خان ایک ایسا سیاست دان سامنے آیا ہے جس نے چار سال میں ایک دن بھی حکمرانوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ مرکز اور پنجاب کے حکمران نواز شریف ہوں یا شہباز شریف اور سندھ کے حکمران آصف علی زرداری اور ہمنوا عمران خان نے اپنا کام جاری رکھا۔ عمران خان کے دھرنوں نے حکمرانوں کو پریشان کیے رکھا، کبھی اس منصوبے کا افتتاح، کبھی اس پاور پلانٹ کی تکمیل، پنجاب میں معاملہ سنگین نظر آرہا ہے اور دراصل یہی وہ صوبہ ہے جہاں سے حتمی فیصلہ آتا ہے۔
پچھلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اور ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی، خیبرپختونخوا سے بھی پولیس تعلیم اور اسپتال ان اداروں سے بہتری کی خبریں آرہی ہیں۔ رہی بات سندھ کی، وہاں ووٹ اور ووٹر ثابت قدمی سے پکے پیروں پر کھڑے ہیں۔ کراچی میں کوڑے کے ڈھیر، بہتے گٹر، گندے نالوں میں پھینکے کوڑے، ٹوٹی پھوٹی گلیاں، بدبودار محلے، مچھروں سے پھیلتی بیماری، ڈینگی، چکن گنیا، مگر ووٹ اسی ''گندگی'' کو ملے گا۔ اندرون سندھ بھی یہی حال ہے۔ نتیجہ وہی نکلے گا جو تھا۔
عام آدمی کو تبدیلی چاہیے، عام آدمی تو تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ عام آدمی کو انتخابات یا اس کے نتیجے میں آنے والی حکومتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عام آدمی تو بس تبدیلی چاہتا ہے اور تبدیلی موجودہ نظام سے کبھی نہیں آئے گی۔ تبدیلی لانے کے لیے نظام کو بدلنا ہوگا۔ عام آدمی کو تبدیلی کے راستے میں حائل ابھی بہت سی رکاوٹوں کو ہٹانا پڑے گا، بڑی اور آخری لڑائی لڑنا ہوگی۔
فیصل آباد کے شاعر نصرت صدیقی نے بڑا آسان سا عوامی سا شعر کہہ دیا ہے۔ تبدیلی کے راستے پر چلتے ہوئے عام آدمی یہ سوالیہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے، کون سے گھرانے سے
یوں دو لشکر بنتے چلے جا رہے ہیں ایک ظالموں کا، دوسرا مظلوموں کا۔ یہ فیصلہ کن جنگ ہوگی، عظیم انسان عبدالستار ایدھی کہہ کر گئے ہیں ''میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں''۔ جالب نے ایک شعر کہا تھا:
اور کیا اس کے سوا چاہتے ہیں
نوع انساں کا بھلا چاہتے ہیں
مگر ''خاص لوگ'' نوع انساں کا بھلا چاہنے والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ اور ان کے سہولت کار یہ لوٹ مار، حق مار، زمین مار، حتیٰ کہ بندے مار آخری حدوں کو بھی عبور کرچکے ہیں، اب ان کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ اب تباہی، بربادی ہی ان کا مقدر ہے۔ یہ لوگ عدالتوں کے کٹہروں تک تو آ ہی گئے ہیں ابھی تو فیصلہ نہیں ہوا اور ان کی چیخیں نکل رہی ہیں جب کہ ''ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔''
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے عام آدمی نے ہمیشہ چاہا کہ حالات اچھے رہیں، خاص لوگ خوش رہیں، اور ہمیں بھی صرف جینے دیں مگر خاص لوگ نہیں سمجھے، ان کا مشغلہ تھا اور ہے عام آدمی کا شکار کرنا ۔ اب یہ اپنا بھگتان بھگتیں گے۔
بہت سا وقت گزر گیا اور اب تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے اور کچھ دیر کہ ٹوٹا در زنداں یارو ''یہ لوگ'' تو بڑھتے بڑھتے بہت ہی آگے بڑھ آئے ہیں۔ عام آدمی سے جینے کا حق بھی چھن گیا ہے۔ تو اب عام آدمی کے پاس صرف مرنے کا حق رہ گیا ہے، اسی حق کا استعمال رہ گیا ہے۔ جالب کے چند اشعار اور اجازت:
نہ گفتگو سے، نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
اگر ہے فکرِ گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ ''عذاب'' ہے دیوانگی سے جائے گا
بجھے چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑا
یہ رنج جس نے دیے کب خوشی سے جائے گا
جیو ہماری طرح سے، مرو ہماری طرح
نظام زر تو اسی سادگی سے جائے گا
جگا نہ شہ کے مصاحب کو خواب سے جالب
اگر وہ جاگ گیا، نوکری سے جائے گا
اس تصویر میں ایسا کیا ہے، جس پر واویلا مچا ہوا ہے، میری کیا کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس تصویر میں ایسا کیا ہے، جس کا ہنگامہ بنے، واویلا ہو۔ وزیراعظم کا بیٹا، ایک کرسی پر بیٹھا ہے، ساتھ چھوٹی سی میز پڑی ہے، وزیراعظم کا بیٹا، ایک ''معاملے'' کی تفتیش کے سلسلے میں آیا ہوا ہے۔ تفتیشی بورڈ نے اسے کرسی پر بٹھایا ہوا ہے۔ معاملہ بڑا اور اہم ہے۔ اسے منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔ مین میخ نکالنے سے پرہیز کیا جائے۔
اب اگر 70 سال بعد ہی سہی حکمرانوں کو بھی عدالتوں کے کٹہروں میں لایا جا رہا ہے تو یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔ آج اپنے اپنے زمانوں کے بڑے نامور (حکومتوں میں شامل) سیاستدانوں کے چشم و چراغ، حکومت میں شامل ہیں اور خوب چہک رہے ہیں، مہک رہے ہیں، دہک رہے ہیں۔ ان سب کے والد محترم بھی اسی طرح دہکتے چہکتے اور مہکتے تھے۔ میں نام کیا لوں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے پڑھے لکھے ، دانشور، صحافی، تاریخ نویس سب کچھ جانتے ہیں کہ موجودہ وزیر، مشیر، سفیر کے بزرگ کیا کرتے کرتے دنیا سے گئے ہیں۔
رہا عام آدمی کا معاملہ تو اسے آٹے دال کے علاوہ اور کسی بات کا پتا نہیں ہے، مگر دکھ سہتے سہتے عام آدمی کو بنیادی بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ''ہمارا حق کس نے مار رکھا ہے'' اسی آگاہی کا نتیجہ ہے کہ عدالتوں سے انقلابی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، یہ عوامی آگاہی کا ہی ردعمل ہے کہ عدالت تین دو کا فیصلہ سنا گئی اور یہ معاملہ ابھی چل رہا ہے۔ آخری فیصلہ ابھی آنا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کے چار سال پورے ہوچکے، پانچواں بجٹ بھی آگیا، مگر عام آدمی کے حالات پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں بدلے۔ عمران خان ایک ایسا سیاست دان سامنے آیا ہے جس نے چار سال میں ایک دن بھی حکمرانوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ مرکز اور پنجاب کے حکمران نواز شریف ہوں یا شہباز شریف اور سندھ کے حکمران آصف علی زرداری اور ہمنوا عمران خان نے اپنا کام جاری رکھا۔ عمران خان کے دھرنوں نے حکمرانوں کو پریشان کیے رکھا، کبھی اس منصوبے کا افتتاح، کبھی اس پاور پلانٹ کی تکمیل، پنجاب میں معاملہ سنگین نظر آرہا ہے اور دراصل یہی وہ صوبہ ہے جہاں سے حتمی فیصلہ آتا ہے۔
پچھلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اور ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی، خیبرپختونخوا سے بھی پولیس تعلیم اور اسپتال ان اداروں سے بہتری کی خبریں آرہی ہیں۔ رہی بات سندھ کی، وہاں ووٹ اور ووٹر ثابت قدمی سے پکے پیروں پر کھڑے ہیں۔ کراچی میں کوڑے کے ڈھیر، بہتے گٹر، گندے نالوں میں پھینکے کوڑے، ٹوٹی پھوٹی گلیاں، بدبودار محلے، مچھروں سے پھیلتی بیماری، ڈینگی، چکن گنیا، مگر ووٹ اسی ''گندگی'' کو ملے گا۔ اندرون سندھ بھی یہی حال ہے۔ نتیجہ وہی نکلے گا جو تھا۔
عام آدمی کو تبدیلی چاہیے، عام آدمی تو تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ عام آدمی کو انتخابات یا اس کے نتیجے میں آنے والی حکومتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عام آدمی تو بس تبدیلی چاہتا ہے اور تبدیلی موجودہ نظام سے کبھی نہیں آئے گی۔ تبدیلی لانے کے لیے نظام کو بدلنا ہوگا۔ عام آدمی کو تبدیلی کے راستے میں حائل ابھی بہت سی رکاوٹوں کو ہٹانا پڑے گا، بڑی اور آخری لڑائی لڑنا ہوگی۔
فیصل آباد کے شاعر نصرت صدیقی نے بڑا آسان سا عوامی سا شعر کہہ دیا ہے۔ تبدیلی کے راستے پر چلتے ہوئے عام آدمی یہ سوالیہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے، کون سے گھرانے سے
یوں دو لشکر بنتے چلے جا رہے ہیں ایک ظالموں کا، دوسرا مظلوموں کا۔ یہ فیصلہ کن جنگ ہوگی، عظیم انسان عبدالستار ایدھی کہہ کر گئے ہیں ''میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں''۔ جالب نے ایک شعر کہا تھا:
اور کیا اس کے سوا چاہتے ہیں
نوع انساں کا بھلا چاہتے ہیں
مگر ''خاص لوگ'' نوع انساں کا بھلا چاہنے والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ اور ان کے سہولت کار یہ لوٹ مار، حق مار، زمین مار، حتیٰ کہ بندے مار آخری حدوں کو بھی عبور کرچکے ہیں، اب ان کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ اب تباہی، بربادی ہی ان کا مقدر ہے۔ یہ لوگ عدالتوں کے کٹہروں تک تو آ ہی گئے ہیں ابھی تو فیصلہ نہیں ہوا اور ان کی چیخیں نکل رہی ہیں جب کہ ''ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔''
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے عام آدمی نے ہمیشہ چاہا کہ حالات اچھے رہیں، خاص لوگ خوش رہیں، اور ہمیں بھی صرف جینے دیں مگر خاص لوگ نہیں سمجھے، ان کا مشغلہ تھا اور ہے عام آدمی کا شکار کرنا ۔ اب یہ اپنا بھگتان بھگتیں گے۔
بہت سا وقت گزر گیا اور اب تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے اور کچھ دیر کہ ٹوٹا در زنداں یارو ''یہ لوگ'' تو بڑھتے بڑھتے بہت ہی آگے بڑھ آئے ہیں۔ عام آدمی سے جینے کا حق بھی چھن گیا ہے۔ تو اب عام آدمی کے پاس صرف مرنے کا حق رہ گیا ہے، اسی حق کا استعمال رہ گیا ہے۔ جالب کے چند اشعار اور اجازت:
نہ گفتگو سے، نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
اگر ہے فکرِ گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ ''عذاب'' ہے دیوانگی سے جائے گا
بجھے چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑا
یہ رنج جس نے دیے کب خوشی سے جائے گا
جیو ہماری طرح سے، مرو ہماری طرح
نظام زر تو اسی سادگی سے جائے گا
جگا نہ شہ کے مصاحب کو خواب سے جالب
اگر وہ جاگ گیا، نوکری سے جائے گا