ایسا کیوں
موسمیات کی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں دو ارب لوگ بھوک اور قحط کا شکار بن سکتے ہیں
KARACHI:
کھیت مزدور، دیہاڑی دار مزدور، ٹیکسٹائل اور دیگر مل کارخانوں کے مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، مزارعین کے مسائل پر اور ان کی کم از کم تنخواہیں پندرہ ہزار مقرر کرنے کے باوجود آٹھ تا دس ہزار روپے سے زیادہ نوے فیصد لوگوں کو تنخواہیں نہ ملنے پر عدلیہ کوئی ازخود نوٹس کیوں نہیں لیتی ہے؟ کم از کم تنخواہ کا تو اعلان ہوتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ تنخواہوں کی حد کیوں مقرر نہیں کی جاتی؟
آئے روز ارب پتی اور کروڑ پتی اسمبلی ممبران، وردی بے وردی نوکر شاہی اور سرمایہ داروں کی کھلے عام لوٹ مار اور جاگیرداروں کی کسانوں پر انسانیت سوز مظالم کے خلاف عدالتیں کیوں ازخود نوٹس نہیں لیتیں۔ افغانستان میں دھماکے میں نوے افراد کی ہلاکت پر مذمتی بیان آتا ہے، جو اچھی بات ہے، لیکن جب امریکی سرپرستی میں افغانستان کی امریکی سامراج مخالف نجیب حکومت کے خلاف پاکستان کے مدارس سے طلبا کو بیرونی ممالک کے انسٹرکٹرز جنگی تربیت دے کر افغانستان میں بھیجا کرتے تھے، اس وقت اس عمل کی مذمت کرنے کے بجائے خیرمقدم کیوں کرتے تھے؟ کیا یہ پالیسیوں اور اصولی موقف کی نوے ڈگری کی قلابازی نہیں ہے؟ انھوں نے ماضی میں امریکی منشا پر غلط کام کیا تھا تو ان غلط اقدامات پر عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔
موسمیات کی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں دو ارب لوگ بھوک اور قحط کا شکار بن سکتے ہیں۔ پاکستان ایک سو تیس اور بھارت ایک سو بیس ایٹمی وار ہیڈ بنائے ہوئے ہے، ان بموں سے برصغیر کو نیست و نابود کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ روز اس خطے میں بھوک سے ہزاروں لوگوں کو مرنے سے بچانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ واہ رے سرمایہ دارانہ نظام (جمہوری یا آمرانہ)۔ آئی ایم ایف کے بجٹ کو پچاس فیصد اگر کم کردیا جائے تو ملک بھر میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
وزرا کی تنخواہیں، اخراجات، کمیشن اور فوجی افسران کی تنخواہیں پچاس فیصد کم کردی جائیں تو ملک سے پانی کا بحران بھی ختم ہوسکتا ہے۔ ای او بی آئی کی پنشن میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ان اداروں کے بجٹ میں حکومت نے انتہائی زیادتی کی ہے۔ اولڈ ایج بینیفٹ پنشن میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معذور افراد کے لیے کوئی خصوصی فنڈ نہیں رکھے گئے اور جو کچھ پنجاب میں رکھا بھی گیا تو وہ صرف منظور نظر اور اپنے ہی کارکنان کے لیے۔ اس ملک میں عام آدمی، عام سپاہی، مزدوروں اور کسانوں کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے۔ عام لوگوں کو چھوڑ دیں، وزرائے اعظم کا تحفظ بھی نہیں ہے۔ لیاقت علی خان کا قاتل آج تک پکڑا گیا اور نہ سزا ہوئی۔
کمیونسٹ پارٹی کے حسن ناصر کے قاتل بھی آزاد پھر رہے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک کو دولخت کردیا، ان کا کچھ نہیں ہوا۔ جنرل ضیاالحق نے فوجی بغاوت کی اور منتخب حکومت پر ڈاکا ڈالا۔ عدالت نے نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاالحق کے قبضے کو درست قرار دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ بعد ازاں غیر جمہوری دور میں آئین کی ماضی کی طرح خلاف ورزی کی گئی، جب کہ ان سب کی سزا، سزائے موت ہے۔ مگر بعض آمروں نے سیاسی جماعت بنالی، پریس کانفرنس کر رہے ہیں، دنیا بھر میں سفر کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ انھوں نے سیاست نہ کرنے کا حلف نامہ اٹھایا ہوا ہے۔
اصغر خان نے پارٹی بنالی، ٹکا خان بھی ایک پارٹی کے جنرل سیکریٹری بن گئے تھے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری نے بھی ایک پارٹی بنالی ہے۔ بنگلہ دیش میں جنرل ضیا الرحمن نے عوامی اقتدار پر قبضہ کیا، جس کے جرم میں ان سب باغیوں کے خلاف مقدمے چلے اور سزائیں ہوئیں۔ جب کہ ہمارے ہاں کئی آئین توڑنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلا۔
شروع میں 1954 تک لولی لنگڑی سویلین حکومتیں چلتی رہیں، لیکن اس کے بعد آج تک آمریت ہو یا جمہوریت عوامی فلاح یا سرمایہ دارانہ جمہوریت ناپید ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1948 میں تین روپے کی قیمت ایک ڈالر تھا اور آج ایک سو چار روپے کا ایک ڈالر ہے۔ اس وقت چاول چار آنے کلو تھا اور آج ایک سو روپے کلو ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اثاثوں کو قومی ملکیت میں لینے کا سلسلہ شروع کیا تو ساری دائیں بازو اور سامراج نواز جماعتوں نے مخالفت شروع کردی۔
آج کل وینزویلا میں بھی قومی ملکیت میں چند اثاثوں کو لینے کے خلاف وہاں کی دائیں بازو کی امریکی آلہ کار جماعتیں احتجاج کررہی ہیں۔ ہمارے ایک کالم نگار نے وینزویلا میں سوشلزم کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا، جب کہ وہاں ایک سامراج مخالف حکومت قائم ہوئی ہے اور چند اداروں کو قومی ملکیت میں لیا ہے۔ چودھویں صدی کے ذہین دانشور، موسیقار اور فلسفی سولونو نے کہا تھا کہ ''سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں''۔
اگر وینزویلا کے حکمران مکمل اثاثوں کو قومی ملکیت میں لے لیتے تو حزب اختلاف امریکی اشاروں پر وہاں کی معیشت کو تباہ کرنے کی سازش نہیں کرسکتے تھے۔ کالم نگار کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جنوبی امریکا کے 35 ملکوں میں سے 33 میں سوشلسٹ، کمیونسٹ یا سوشل ڈیموکریٹس اقتدار پر قابض ہیں۔ وہ نشریات، تیل کمپنیاں، اقتصادیات کے شعبوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی کمپنیوں کے مدمقابل الگ الگ ادارے تشکیل دے چکے ہیں۔
پاکستان میں اگر بجلی اور پانی کے خلاف احتجاج ہورہا ہے تو وہ عوام خود کر رہے ہیں۔ عوام مقامی طور پر پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان، ہر جگہ سراپا احتجاج ہیں، جن کا کسی بھی جماعت سے تعلق ہے اور نہ کسی جماعت کی ہدایت پر کررہے ہیں۔ یہ احتجاج عوام کے مسائل پر یکجہتی اور ردعمل کا اظہار ہے۔ اسی کو کہتے ہیں مقامی طور پر عوام کا اتحاد اور احتجاج، جو کہ عوامی محبت اور ہم آہنگی کا برملا اظہار ہے۔ جب کہ انھیں درست اور انقلابی عمل کو سرمایہ دار پارٹیاں انارکزم، خودرو اور نہ جانے کیا کیا کہتی ہیں۔
اسی طرح مقامی یکجہتی نے ہی انقلاب فرانس اور پیرس کمیون اور شکاگو کی مزدور تحریک کو جنم دیا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پشاور اور کراچی میں پرتشدد اور جارحانہ مظاہرے ہورہے ہیں، جب کہ پارٹیاں اور لیڈران ان سے دور بھاگ رہے ہیں۔ مظاہرین کو منع کرنے کی جرات بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر منع کیا تو آیندہ عوام کو بے وقوف بناکر لیڈری نہیں چمکا سکتے۔ کل یہی مقامی سطح پر احتجاج کرنے والے عوام ایک کمیونسٹ انقلاب کی جانب پیش قدمی کریں گے۔