چیمپئنز ٹرافی اور ویران پاکستانی میدان

اب دنیا کا کوئی ملک محفوظ نہیں رہا، خوف کے سائے میں ہی سب کو جینا ہے

ہمارے یہاں تو پٹاخہ بھی پھوٹ جاتا تو گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر اتروا کر سب بھاگ جاتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

اف گرمی، یار تھوڑی دیر میں ہی بُرا حال ہو گیا، انگلینڈ میں درجہ حرارت 9 تھا اور یہاں 40، یہ سنتے ہی ایئرپورٹ لینے کیلیے آنے والا میرا بھائی مسکرایا اور کہنے لگا''10دن میں ہی ایسی باتیں کرنے لگے،پوری زندگی تو آپ نے یہیں اسی گرمی میںگذاری ہے'' یہ بات سن کر میری بھی ہنسی چھوٹ گئی،ہماری گفتگو جاری رہی لیکن پھر جب گاڑی نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے سامنے سے گذری تو میں خاموش ہو گیا، ذہن میں لندن کے اوول کرکٹ گراؤنڈ اور ایجبسٹن برمنگھم کے مناظر گھومنے لگے جہاں شائقین کا جم غفیر موجود ہوتا۔

ماضی کا نیشنل اسٹیڈیم بھی یاد آیا جہاں میچز کے دوران حسن اسکوائر تک لوگوں کا رش لگا ہوتا تھا، اب ہمارے میدان ویران ہیں اور نجانے کب تک ایسا رہے، چیمپئنز ٹرافی شروع ہونے سے چند روز قبل ہی مانچسٹر میں دھماکے کی خبر آئی ، اس پر آئی سی سی نے سیکیورٹی مزید بڑھانے کا اعلان کیا، بھارت اور جنوبی افریقہ نے رسمی تشویش ظاہر کی اور ایونٹ وقت پر شروع ہوا، پھر لندن میں دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا جہاں ایونٹ کے میچز بھی جاری ہیں، اس کے باوجود کسی ٹیم نے شور نہ مچایا اور مقابلے ہوتے رہے۔

میں نے انگلینڈ میں محسوس کیا کہ سیکیورٹی واقعی بہت سخت کر دی گئی تھی، مسلح پولیس اہلکار جگہ جگہ تعینات تھے، میڈیا کے نمائندوں کو بھی جامہ تلاشی اور سامان کی مکمل جانچ کرانے کے بعد اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت ملتی،البتہ شائقین، میڈیا یا کسی اور کو سیکیورٹی کے نام پر بالکل بھی تنگ نہیں کیا گیا، بہت اچھے انتظامات تھے جس کی وجہ سے تاحال میچز کا انعقاد عمدگی سے جاری ہے، وہاں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر ایسے واقعات پاکستان میں ہوتے تو کیا ٹیمیں اتنی دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیل جاری رکھتیں۔

ہمارے یہاں تو پٹاخہ بھی پھوٹ جاتا تو گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر اتروا کر سب بھاگ جاتے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کے بارے میں غیرملکی اسکواڈز کی سیکیورٹی تشویش غلط تھی لیکن جس نرمی کا سلوک بنگلہ دیش، انگلینڈ وغیرہ کے ساتھ کیا گیا اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوتا تو آج ملک کرکٹ کیلیے نوگو ایریا نہ بنا ہوتا، بنگلہ دیش میں بھی کئی دہشت گردی کے واقعات ہوئے مگر وہاں کرکٹ مقابلے جاری رہے،آسٹریلیا نے آنکھیں دکھائیں مگر اب وہ بھی ٹیم کو سیریز کھیلنے کیلیے بھیجے گا۔

پاکستان میں گوکہ حالات اب بہتر ہو چکے لیکن بنگلہ دیشی بورڈ تک اپنی ٹیم بھیجنے کو تیار نہیں، افغانستان تک سیکیورٹی جائزے کی بات کر چکا مگر پھر دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگی کے سبب بات ہی ختم ہو گئی، دوسری طرف ہم چلاتے رہتے ہیں کہ ملک کے حالات اچھے ہو گئے آؤ کھیلو مگر کوئی بات ماننے کو تیار نہیں،اس کی ایک اہم ترین وجہ تو سانحہ لاہور ہے، سری لنکن ٹیم پر حملے سے سب کا ہم پر اعتماد ختم ہو گیا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کوتاہی کس کی تھی، جب ترنوالہ بنا کر چھوڑیں گے تو فائدہ تو اٹھایا جائے گا، وہ لوگ جنھوں نے پی سی بی کی جانب سے کوتاہی برتی اب تک اس کا حصہ ہیں۔

ذاکر خان بغیر کام کیے ہر ماہ تنخواہ بٹور رہے ہیں جبکہ وسیم باری کئی باریاں لے کر اب فکسنگ ٹریبیونل میں شامل ہو کر''فرائض'' نبھا رہے ہیں،ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کی موجودہ نسل کو شاید ملک میں انٹرنیشنل میچز دیکھنے کا موقع نہ ملے، رہی بات بچوں کی تو حالات اگر ایسے ہی رہے تو وہ نوجوان ہونے تک کرکٹ کو چھوڑ کر فٹبال و دیگر کھیل اپنا چکے ہوںگے، غیرملکی ٹیموں کا اعتماد بحال نہ ہونے میں ہمارا بھی قصور ہے۔


لندن میں میری ایک بنگلہ دیشی صحافی سے اس موضوع پر بات ہوئی، وہ کہنے لگا '' آپ لوگ اپنی پاکستان سپر لیگ دبئی میں کراتے ہو اور ہم سے کہتے ہیں کہ ٹور کرو'' میں نے اسے یاد دلایا کہ فائنل لاہور میں ہوا تھا تو وہ مسکرا کر کہنے لگا کہ ''باقی میچز تو یو اے ای میں ہوئے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ لوگوں کو خود اپنی سیکیورٹی پر اعتماد نہیں، فائنل میں بھی کئی بڑے کھلاڑی نہیں آئے تھے'' اس پر میں نے اسے یاد دلایا کہ بنگلہ دیش کا حال بھی اب کوئی اچھا نہیں ہے۔

بحث مزید بڑھنے سے قبل میں وہاں سے اٹھ آیا تھا۔ میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ دوسروں سے پہلے ہمیں خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہو گا، پہلے خود اپنی سیکیورٹی پر اعتماد کریں پھر باہر والوں سے کہیں،اگر سچائی کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اس وقت کرکٹ میں بھی عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے، بنگلہ دیش کا ٹور نہ کر کے ہم نے باہمی تعلقات کی جو چھوٹی سے ڈور بندھی تھی اسے بھی توڑ دیا،افغانستان کا مسئلہ تو خیر سیاسی ہے لیکن وہ اتنا اہم کرکٹ ملک نہیں تھا کہ بورڈ حکام کو بلا کر سیریز کا معاہدہ کیا جاتا، اکیڈمیز کے استعمال کی اجازت دینے۔

پریس کانفرنس میں بڑے بڑے اعلانات کرنے کا نتیجہ نہ نکلا کہ افغان بورڈ نے سیریز کینسل کرکے پی سی بی حکام کو شرمندگی کا شکار کر دیا، ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ ان دنوں پاک افغان تعلقات کشیدہ ہیں، ایسے میںکرکٹ بورڈ حکام کو دوستی کا راگ الاپنے کی کیا پڑی تھی یہ انہی کو پتا ہوگا، بھارت ہمارا دشمن ملک ہے اور شاید ہمیشہ ہی رہے لیکن پی سی بی اس کے پیچھے کشکول لیے گھومتا رہتا ہے کہ ''سیریز کھیل لو ہمیں مالی فائدہ ہو جائے گا'' ،ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری ''کرکٹ خارجہ پالیسی'' بھی ناکام ہے، ہم غلط لوگوں پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔

بورڈ حکام کی توجہ بس غیرملکی ٹورز پر مرکوز ہوتی ہے، پہلے بھی کئی بار لکھ چکا کہ گزشتہ برس باہمی سیریز کے دوران کئی آفیشلز کے دورئہ انگلینڈ پر کروڑوں روپے ضائع ہوئے، اب بھی شہریارخان، نجم سیٹھی، عثمان واہلہ، تین میڈیا ڈپارٹمنٹ کے آفیشلز ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہونے کیلیے گئے، ان کے بزنس کلاس کے ہوائی ٹکٹ، کئی سو پاؤنڈ ڈیلی الاؤنس، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام و طعام پر جو رقم خرچ ہوئی اس کا حساب کون دے گا؟ سب سے بڑی بات اس دورے سے ملک کو کیا فائدہ ہوا ہو گا؟

جب رضا راشد بطور میڈیا منیجر عمدگی سے فرائض انجام دے رہے تھے تو دیگر دو کی کیا ضرورت تھی؟افسوس حکام کو کوئی پوچھنے والا، بہتری اب اسی صورت آ سکتی ہے جب بورڈ میں نئے لوگ لائے جائیں، عمران خان نے احسان مانی کا نام لیا ہے، پاکستان کو عالمی کرکٹ میں مزید تنہائی سے بچانے میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اب دنیا کا کوئی ملک محفوظ نہیں رہا، خوف کے سائے میں ہی سب کو جینا ہے، مگر گھر بیٹھ کر معمولات زندگی ترک بھی نہیں کیے جا سکتے۔

ہاں سیکیورٹی انتظامات سخت کر کے سانحات سے بچا جا سکتا ہے، یہی پاکستان کو کرنا چاہیے، ساتھ دنیا کو بھی یہ احساس دلانا ہوگا، مگر اس کیلیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ذاتی مفادات کیلیے عہدوں کے پیچھے نہ بھاگیں،بلکہ حقیقتاً کرکٹ کی بہتری کا عزم لیے بورڈ میں آئیں، دیکھتے ہیں وزیر اعظم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
Load Next Story