والدین کے باہمی اختلافات بچوں کی شخصیت کے لیے زہرقاتل
اولاد کی خوشی کو مقدم رکھا جائے تو گھر بکھرنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
معاشی دباؤ، گھریلو مسائل اور دیگر وجوہات کے باعث ہمارے معاشرے میں شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعات عام ہیں۔
بیشتر گھروں میں شوہر اور بیوی کے درمیان توتکار روز کا معمول بن چکی ہے۔ یہ صورت حال ان جوڑوں کے درمیان زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جن کی شادی کو کئی برس گزر چکے ہوں۔ بعض اوقات بات لڑائی جھگڑوں سے آگے بڑھ جاتی ہے اور نوبت علیٰحدگی تک آجاتی ہے۔ اس صورت حال سے بچے سب سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔ گھر میں آئے روز کے لڑائی جھگڑوں اور بدکلامی سے ان کے ذہن اور نفسیات پر پہلے ہی منفی اثرات پڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ماں باپ کے درمیان علیٰحدگی یا طلاق ان کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔
بچے اپنی ہر ضرورت کے لیے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف میں ماں باپ ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ ان کے لیے ایک ایسا سایہ ہوتے ہیں جس کے تلے انھیں ہر تکلیف سے نجات مل جاتی ہے اور ان کی ہر ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ اس سائے تلے انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ والدین کے سَر پر ہونے کا احساس انھیں تحفظ دیتا ہے اور ان کی شخصیت کی مثبت تعمیر کرتا ہے۔ اس سائے میں جب دراڑ پڑجائے تو پھر اولادکی شخصیت بھی تقسیم ہوجاتی ہے۔ والدین جب علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں، طلاق ہو یا خلع تو عموما بچوں کی حوالگی کے مسئلے پر زور و شور سے بحث کرتے ہیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران بچے کی حوالگی، نان نفقہ جیسے معاملات پر دونوں فریقین اور ان کے خاندان غور و خوص کرتے ہیں۔ لیکن اس معصوم بچے کے ذہن و دل میں جاری جنگ، اس کے من میں ابھرتے معصوم سوال، اس کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ پر نہ کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی اس پر گفت گو کی جاتی ہے۔ اپنی انا کے خول میں بند ہوکر ماں اور باپ دونوں ہی نہیں سوچتے کہ بچوں کے لیے ان دونوں کا ساتھ رہنا کتنا ضروری ہے۔
والدین کی علیحدگی سے بچوں پر جو منفی اثرات پڑتے ہیں وہ تاعمر ان کی شخصیت کا حصہ رہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے گھرانے جہاں میاں بیوی میں سے کوئی ایک فریق یا دونوں فریقین ایک دوسرے کے وفادار نہ ہوں تو ان گھرانوں کے بچے بھی بڑے ہوکر اچھے شریک حیات ثابت نہیں ہوتے۔ کیوں کہ والدین ان کے سامنے زندگی کی سب سے بڑیمثال ہوتے ہیں اور ان کے معصوم ذہن والدین کے کیے گئے ہر عمل کو صحیح سمجھتے اور عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میاں بیوی کے جھگڑوں کے دوران استعمال کیے گئے نازیبا الفاظ، جملے، مارپیٹ، ذہنی و جسمانی تشدد، بچے کے معصوم ذہن پر ایسے بد ترین اثرات مرتب کرتا ہے جس کا خمیازہ نہ صرف اس کے ساتھ رہنے والے افراد، شریک حیات بلکہ آنے والی نسل کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ ایسی گفت گو یا تشدد کو جائز سمجھنے لگتا ہے اور بسا اوقات اپنے بچپن میں ہونے والے احساس محرومی کا بدلہ وہ اپنی شریک حیات یا اولاد پر مارپیٹ کے ذریعے لیتا ہے۔ عموماً ایسے افراد شکی ذہنیت کے مالک ہوجاتے ہیں۔ ہر دم یہ خوف ذہن پر سوار رہتا ہے کہ میرے شوہر/بیوی نے میرے ساتھ بے وفائی کی یا مجھے چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟
یہ سوچ ایسے افراد کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی زندگی کو مشکل بنادیتی ہے ایسے افراد کی شخصیت میں عدم تحفظ اور خوف کا احساس ان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے اور مستقبل میں وہ کام یاب شخصیت کے مالک نہیں بن پاتے۔
والدین اپنی اپنی راہیں الگ کرلیں تو ان کے بچے غیر معمولی عدم اعتماد کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ والدین کے درمیان علیٰحدگی جیسے سانحے سے گزرنے کے بعد وہ کسی کو بھی قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ان کا یہ رویہ دیر پا اور مضبوط رشتے قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے مستقبل میں بے لوث، مضبوط و دیر پا رشتے قائم رکھنا اکثر ناممکن محسوس ہوتا ہے۔
بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں محبت بھرے رویے اور پیار بھرا ماحول کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب بچپن سے انھیں تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑا ہو ان کے لیے محبت اور پیار جیسے خوب صورت جذبوں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ محبت بھرے خاندان کا تصور بھی ان کے لیے محال ہوتا ہے۔ یہ بچے بڑے ہونے پر عموماً مختصر عارضی رشتے قائم کرپاتے ہیں۔ کسی مضبوط بندھن میں بندھنا، رشتوں کا نبھانا، ان کے لیے مشکل ہوتا ہے کیوںکہ بچپن سے شخصیت میں پیدا ہونے والا خوف ان کو اس سے دور رکھتا ہے۔ تاکہ کسی بھی ناخوشگوار عمل کی صورت میں ان کا دل ٹوٹنے سے محفوظ رہتے۔ اور وہ بچپن میں جس اذیت سے گزرے دوبارہ اس اذیت کو نہ سہنا پڑے۔
خصوصاً طلاق یا خلع کی صورت میں جب بچے کو ماں یا باپ میں سے کسی بھی ایک کو منتخب کرنا پڑتا ہے یا جبراً رہنا پڑتا ہے تو وہ اس ذہنی اذیت سے عمر بھر گزرتا ہے۔ بچے کے لیے ماں اور باپ دونوں بے حد اہم ہوتے ہیں۔ بچے کا معصوم ذہن یہ قبول نہیں کرپاتا کہ دوسرے بچوں کی طرح وہ اپنے ماں اور باپ دونوں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتا۔ اکثر بچے روتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں،بیمار پڑ جاتے ہیں۔
دنیاوی عدالت کے فیصلے بچوں کے دل کی عدالت مسترد کردیتی ہے، لیکن میاں بیوی کی انا کی جنگ میں بچے ہمیشہ سزا بھگتتے ہیں۔ بچپن میں سہی ذہنی اذیت ان کے مستقبل کو تباہ کردیتی ہے کہ وہ تا عمر رشتوں اور محبت پر بھروسا نہیں کرتے۔ ان کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ بسا اوقات ان کو تنہا زندگی گزارنے پر مجبور کردیتی ہے۔
لہٰذا میاں بیوی کو آپس کے اختلافات کو طول نہیں دینا چاہیے۔ ادب، برداشت اور پیار جیسے جذبوں کو شخصیت کا خاصا بنالیا جائے تو جھگڑے جنم ہی نہ لیں۔ اختلاف ہو بھی جائے تو ایک فریق اگر خاموش اختیار کرے تو غصے کی چنگاری آگ بننے سے بچ جاتی ہے اور اس آگ کی تپش سے محبتوں بھرا آشیانہ ٹوٹنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
انا کی جنگ جیتنے کی کوشش میں میاں بیوی، محبت وعدے، قسمیں سب بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور جدا ہونے کے فیصلے کرلیتے ہیں لیکن ان بچوں کی بے غرضی، بے لوث محبت کو لمحے بھر کو بھی نہیں سوچتے جن کی پر امید نظریں ہر لمحہ والدین کی طرف دیکھتی ہیں۔ اگر والدین بچوں کو اپنی زندگی کا محور بنالیں اور ان کی خوشیوں کو ہر شے پر مقدم کرلیں تو پھر ان کے لیے باہمی اختلافات کو بُھلانا آسان ہوجاتا ہے، اور گھر بھی بکھرنے سے بچ جاتا ہے۔
بیشتر گھروں میں شوہر اور بیوی کے درمیان توتکار روز کا معمول بن چکی ہے۔ یہ صورت حال ان جوڑوں کے درمیان زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جن کی شادی کو کئی برس گزر چکے ہوں۔ بعض اوقات بات لڑائی جھگڑوں سے آگے بڑھ جاتی ہے اور نوبت علیٰحدگی تک آجاتی ہے۔ اس صورت حال سے بچے سب سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔ گھر میں آئے روز کے لڑائی جھگڑوں اور بدکلامی سے ان کے ذہن اور نفسیات پر پہلے ہی منفی اثرات پڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ماں باپ کے درمیان علیٰحدگی یا طلاق ان کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔
بچے اپنی ہر ضرورت کے لیے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف میں ماں باپ ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ ان کے لیے ایک ایسا سایہ ہوتے ہیں جس کے تلے انھیں ہر تکلیف سے نجات مل جاتی ہے اور ان کی ہر ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ اس سائے تلے انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ والدین کے سَر پر ہونے کا احساس انھیں تحفظ دیتا ہے اور ان کی شخصیت کی مثبت تعمیر کرتا ہے۔ اس سائے میں جب دراڑ پڑجائے تو پھر اولادکی شخصیت بھی تقسیم ہوجاتی ہے۔ والدین جب علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں، طلاق ہو یا خلع تو عموما بچوں کی حوالگی کے مسئلے پر زور و شور سے بحث کرتے ہیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران بچے کی حوالگی، نان نفقہ جیسے معاملات پر دونوں فریقین اور ان کے خاندان غور و خوص کرتے ہیں۔ لیکن اس معصوم بچے کے ذہن و دل میں جاری جنگ، اس کے من میں ابھرتے معصوم سوال، اس کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ پر نہ کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی اس پر گفت گو کی جاتی ہے۔ اپنی انا کے خول میں بند ہوکر ماں اور باپ دونوں ہی نہیں سوچتے کہ بچوں کے لیے ان دونوں کا ساتھ رہنا کتنا ضروری ہے۔
والدین کی علیحدگی سے بچوں پر جو منفی اثرات پڑتے ہیں وہ تاعمر ان کی شخصیت کا حصہ رہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے گھرانے جہاں میاں بیوی میں سے کوئی ایک فریق یا دونوں فریقین ایک دوسرے کے وفادار نہ ہوں تو ان گھرانوں کے بچے بھی بڑے ہوکر اچھے شریک حیات ثابت نہیں ہوتے۔ کیوں کہ والدین ان کے سامنے زندگی کی سب سے بڑیمثال ہوتے ہیں اور ان کے معصوم ذہن والدین کے کیے گئے ہر عمل کو صحیح سمجھتے اور عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میاں بیوی کے جھگڑوں کے دوران استعمال کیے گئے نازیبا الفاظ، جملے، مارپیٹ، ذہنی و جسمانی تشدد، بچے کے معصوم ذہن پر ایسے بد ترین اثرات مرتب کرتا ہے جس کا خمیازہ نہ صرف اس کے ساتھ رہنے والے افراد، شریک حیات بلکہ آنے والی نسل کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ ایسی گفت گو یا تشدد کو جائز سمجھنے لگتا ہے اور بسا اوقات اپنے بچپن میں ہونے والے احساس محرومی کا بدلہ وہ اپنی شریک حیات یا اولاد پر مارپیٹ کے ذریعے لیتا ہے۔ عموماً ایسے افراد شکی ذہنیت کے مالک ہوجاتے ہیں۔ ہر دم یہ خوف ذہن پر سوار رہتا ہے کہ میرے شوہر/بیوی نے میرے ساتھ بے وفائی کی یا مجھے چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟
یہ سوچ ایسے افراد کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی زندگی کو مشکل بنادیتی ہے ایسے افراد کی شخصیت میں عدم تحفظ اور خوف کا احساس ان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے اور مستقبل میں وہ کام یاب شخصیت کے مالک نہیں بن پاتے۔
والدین اپنی اپنی راہیں الگ کرلیں تو ان کے بچے غیر معمولی عدم اعتماد کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ والدین کے درمیان علیٰحدگی جیسے سانحے سے گزرنے کے بعد وہ کسی کو بھی قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ان کا یہ رویہ دیر پا اور مضبوط رشتے قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے مستقبل میں بے لوث، مضبوط و دیر پا رشتے قائم رکھنا اکثر ناممکن محسوس ہوتا ہے۔
بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں محبت بھرے رویے اور پیار بھرا ماحول کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب بچپن سے انھیں تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑا ہو ان کے لیے محبت اور پیار جیسے خوب صورت جذبوں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ محبت بھرے خاندان کا تصور بھی ان کے لیے محال ہوتا ہے۔ یہ بچے بڑے ہونے پر عموماً مختصر عارضی رشتے قائم کرپاتے ہیں۔ کسی مضبوط بندھن میں بندھنا، رشتوں کا نبھانا، ان کے لیے مشکل ہوتا ہے کیوںکہ بچپن سے شخصیت میں پیدا ہونے والا خوف ان کو اس سے دور رکھتا ہے۔ تاکہ کسی بھی ناخوشگوار عمل کی صورت میں ان کا دل ٹوٹنے سے محفوظ رہتے۔ اور وہ بچپن میں جس اذیت سے گزرے دوبارہ اس اذیت کو نہ سہنا پڑے۔
خصوصاً طلاق یا خلع کی صورت میں جب بچے کو ماں یا باپ میں سے کسی بھی ایک کو منتخب کرنا پڑتا ہے یا جبراً رہنا پڑتا ہے تو وہ اس ذہنی اذیت سے عمر بھر گزرتا ہے۔ بچے کے لیے ماں اور باپ دونوں بے حد اہم ہوتے ہیں۔ بچے کا معصوم ذہن یہ قبول نہیں کرپاتا کہ دوسرے بچوں کی طرح وہ اپنے ماں اور باپ دونوں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتا۔ اکثر بچے روتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں،بیمار پڑ جاتے ہیں۔
دنیاوی عدالت کے فیصلے بچوں کے دل کی عدالت مسترد کردیتی ہے، لیکن میاں بیوی کی انا کی جنگ میں بچے ہمیشہ سزا بھگتتے ہیں۔ بچپن میں سہی ذہنی اذیت ان کے مستقبل کو تباہ کردیتی ہے کہ وہ تا عمر رشتوں اور محبت پر بھروسا نہیں کرتے۔ ان کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ بسا اوقات ان کو تنہا زندگی گزارنے پر مجبور کردیتی ہے۔
لہٰذا میاں بیوی کو آپس کے اختلافات کو طول نہیں دینا چاہیے۔ ادب، برداشت اور پیار جیسے جذبوں کو شخصیت کا خاصا بنالیا جائے تو جھگڑے جنم ہی نہ لیں۔ اختلاف ہو بھی جائے تو ایک فریق اگر خاموش اختیار کرے تو غصے کی چنگاری آگ بننے سے بچ جاتی ہے اور اس آگ کی تپش سے محبتوں بھرا آشیانہ ٹوٹنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
انا کی جنگ جیتنے کی کوشش میں میاں بیوی، محبت وعدے، قسمیں سب بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور جدا ہونے کے فیصلے کرلیتے ہیں لیکن ان بچوں کی بے غرضی، بے لوث محبت کو لمحے بھر کو بھی نہیں سوچتے جن کی پر امید نظریں ہر لمحہ والدین کی طرف دیکھتی ہیں۔ اگر والدین بچوں کو اپنی زندگی کا محور بنالیں اور ان کی خوشیوں کو ہر شے پر مقدم کرلیں تو پھر ان کے لیے باہمی اختلافات کو بُھلانا آسان ہوجاتا ہے، اور گھر بھی بکھرنے سے بچ جاتا ہے۔