کراچی کا پہلا انگریزی اور قائدِاعظم کا اسکول
اِس اسکول کے بارے میں مورخین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کراچی کا پہلا انگریزی یا مشنری اسکول ہے۔
قائدِاعظم محمد علی جناح بچپن سے ہی انتہائی نفیس اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ کھیل کود میں کم اور پڑھنے لکھنے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ راتوں کو جاگ کر پڑھنا اُن کی عادت تھی اور خاندان کے بزرگ اِس بات پر انہیں اکثر ٹوکا کرتے تھے کہ بچے اتنا نہ پڑھو، مگر اِس کے باوجود وہ رات بھر جاگ جاگ کر پڑھا کرتے تھے۔
ابتدائی تعلیم تو انہوں نے مدرستہ الاطفال سے حاصل کی، اور انہیں 4 جولائی 1887ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں انگریزی شعبے کے درجہ اول میں داخل کیا گیا، جہاں اُن کا رول نمبر 114 تھا۔ پھر قائداعظم بمبئی چلے گئے اور بمبئی سے واپسی پر آپ کو دوبارہ 23 دسمبر 1887ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایا گیا۔ اِس بار آپ کا جنرل رجسٹر نمبر 178 تھا اور اِس کے بعد 5 جنوری 1891ء کو بمبئی جانے کے لیے آپ کو ایک مرتبہ پھر مدرسہ چھوڑنا پڑا اور پھر جب آپ کی دوبارہ کراچی واپسی ہوئی تو 9 فروری 1891ء کو تیسری بار سندھ مدرسۃ الاسلام میں آپ کا داخلہ ہوا۔ لیکن 5 جنوری 1892ء کو شادی کی غرض سے آپ کو ایک بار پھر مدرسہ چھوڑنا پڑا، اور شادی کے بعد جب 8 مئی 1892ء کو دوبارہ آپ کی کراچی واپسی ہوئی تو کرسچن مشن اسکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے جہاں آپ کا رول نمبر 483 تھا جس کا باقائدہ ریکارڈ اب تک محفوظ ہے، یاد رہے کہ یہ اسکول کرائسٹ چرچ کے زیرِ نگرانی تھا اور اِس کے پرنسپل چرچ کے پادری ہوا کرتے تھے
قائدِاعظم کے تعلیمی درس گاہ سندہ مدرستہ الاسلام کے بارے میں تو بہت لکھا جاچکا ہے مگر کرسچن مشن اسکول کے بارے میں لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اسکول اب بھی قائم ہے اور 1971ء میں حکومت کی تحویل میں آجانے کے بعد اِس اسکول میں مزید تین سرکاری اسکول قائم ہوچکے ہیں مگر اسکول کے اندر پہلے کے وقتوں کے 3 بلاک جو کہ قدیم طرزِ تعمیر کے حامل ہیں اب بھی موجود ہیں۔
کرسچن مشن اسکول جس کا نام پہلے مشن روڈ پر تھا، لیکن بعد میں اِس سڑک کا نام مولوی عبدالحق روڈ رکھ دیا گیا اور یہ اسکول اب بھی کرائسٹ چرچ کے عین سامنے موجود ہے۔ یہ اسکول کب قائم ہوا اور اِسے کس نے قائم کیا اِس بارے میں تاریخ خاموش نہیں بلکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔
اِس اسکول میں اب تین مزید اسکول قائم ہیں، جہاں اِس وقت 1500 بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ قائدِاعظم کے اِس اسکول کی حالت زار کو جاننے کے لئے جب اسکول کے ذمہ داران اور تاریخ کے جاننے اور سمجھنے والوں سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا یہ تھا کہ یہ اسکول 171 سال قدیم ہے، جس کی بنیاد کراچی کے پہلے انگریز کلکٹر کرنل پریڈی نے 1845ء میں رکھی تھی اور اِس کی تعمیر 1854ء میں مکمل ہوئی جس کی تختی آج بھی اسکول کے بلاک پر موجود ہے۔
1854ء تک اِس اسکول کے پرنسپل موڈ سوڈن تھے، جبکہ 1893-1854ء تک جیمز شیلڈون اور 1993-1907ء تک ڈبلیو جے ابگانی تھے، جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے واجبات اور پینشن کی رقم سے ایک بلاک اور کلاس روم قائم کیا اور قائدِاعظم محمد علی جناح نے انہی کے دور یعنی کہ 1892ء میں یہاں چھٹے درجے میں داخلہ لیا۔ اِن کا داخلہ نمبر 483 تھا، جس کا اسکول کے پاس تو کوئی ریکارڈ نہیں ہے مگر سابق وزیراعلیٰ سندہ سید عبداللہ شاہ جو کہ موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے والد تھے کے دور میں آرکائیو نے اِس ریکارڈ یعنی کہ اسکول کے رجسٹر کو اپنے پاس محفوظ کرلیا ہے۔
سابق کمشنر کراچی نے اِس واحد رجسٹر کو محفوظ کرنے کے لئے اِس کی جلد بھی بنوائی ہے۔ اِس اسکول سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے علاوہ چار ٹیسٹ کرکٹر مشتاق محمد، صادق محمد، ہارون رشید، انتخاب عالم سمیت مشہور اور معروف ہستیوں نے تعلیم حاصل کی، نیز آثار قدیمہ نے بھی اسے ورثہ قرار دیا۔ کرائسٹ چرچ کے پادری شاہد انور کا کہنا یہ ہے کہ جب تک یہ اسکول کرائسٹ چرچ کے زیرِ نگرانی تھا، اُس وقت تک اِس کا شمار کراچی کے نامور اسکولوں میں ہوتا تھا مگر جب ہم سے یہ اسکول واپس لے لیا گیا تو اِس اسکول کے نام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی تھی، لیکن حکومت نہ تو اسکول کے نام کو برقرا ر رکھنے میں کامیاب رہی بلکہ 1970ء کے بعد کوئی قابل رشک طالب علم بھی یہاں سے پڑھ کر نہیں نکلا۔
جبکہ اِس اسکول کے موجودہ پرنسپل امتیاز علی بگھیو نے کہا ہے کہ اِس اسکول کے اندر سی ایم ایس اسکول کے تین مزید اسکول قائم ہوچکے ہیں جہاں اِس وقت 1500 طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں، اور آج بھی اسکول کا وہی معیار ہے جو کہ قائدِاعظم کے زمانہ طالب علمی میں تھا۔
یہ اسکول انٹر تک ہے جہاں داخلے کے وقت نہ صرف بچوں کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے بلکہ اُن کے والدین کے بھی انٹرویوز کئے جاتے ہیں۔ چاروں اسکول انگلش میڈیم کے ہیں اور یہاں ہر قسم کے بچے چاہے وہ غریب ہوں یا امیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اِس اسکول کے اندر ماضی کے تین بلاکس قائم ہیں جن میں 'دی آتھر ڈے بلاک'، 'دی ویلیم کے گل بلاک' اور 'ڈاکٹر آرتھی' جنہوں نے شاہ عبدل لطیف بھٹائی کے شاہ جو رسالو کو یکجا کرنے کا کام کیا۔ گوکہ اِن قدیم بلاکوں یا کلاس روم کی حالت قدیم اور عرصہ دراز سے دیکھ بھال نہ ہونے کے باوجود کچھ زیادہ اچھی تو نہیں مگر اب محکمہ تعلیم نے دلچسپی لیتے ہوئے اِن کی ازسرِِ نو تزئین و آرائش کا کام مکمل کرلیا ہے۔
قائدِاعظم اور دیگر نامور طلبہ کے تمام ریکارڈز کو ایک کمرے میں محفوظ کیا جارہا ہے۔ اِس اسکول کے بارے میں مورخین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کراچی کا پہلا انگریزی یا مشنری اسکول تھا اور اِس کے قدیم ترین کلاس روم اور چھتوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ابتدائی تعلیم تو انہوں نے مدرستہ الاطفال سے حاصل کی، اور انہیں 4 جولائی 1887ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں انگریزی شعبے کے درجہ اول میں داخل کیا گیا، جہاں اُن کا رول نمبر 114 تھا۔ پھر قائداعظم بمبئی چلے گئے اور بمبئی سے واپسی پر آپ کو دوبارہ 23 دسمبر 1887ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایا گیا۔ اِس بار آپ کا جنرل رجسٹر نمبر 178 تھا اور اِس کے بعد 5 جنوری 1891ء کو بمبئی جانے کے لیے آپ کو ایک مرتبہ پھر مدرسہ چھوڑنا پڑا اور پھر جب آپ کی دوبارہ کراچی واپسی ہوئی تو 9 فروری 1891ء کو تیسری بار سندھ مدرسۃ الاسلام میں آپ کا داخلہ ہوا۔ لیکن 5 جنوری 1892ء کو شادی کی غرض سے آپ کو ایک بار پھر مدرسہ چھوڑنا پڑا، اور شادی کے بعد جب 8 مئی 1892ء کو دوبارہ آپ کی کراچی واپسی ہوئی تو کرسچن مشن اسکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے جہاں آپ کا رول نمبر 483 تھا جس کا باقائدہ ریکارڈ اب تک محفوظ ہے، یاد رہے کہ یہ اسکول کرائسٹ چرچ کے زیرِ نگرانی تھا اور اِس کے پرنسپل چرچ کے پادری ہوا کرتے تھے
قائدِاعظم کے تعلیمی درس گاہ سندہ مدرستہ الاسلام کے بارے میں تو بہت لکھا جاچکا ہے مگر کرسچن مشن اسکول کے بارے میں لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اسکول اب بھی قائم ہے اور 1971ء میں حکومت کی تحویل میں آجانے کے بعد اِس اسکول میں مزید تین سرکاری اسکول قائم ہوچکے ہیں مگر اسکول کے اندر پہلے کے وقتوں کے 3 بلاک جو کہ قدیم طرزِ تعمیر کے حامل ہیں اب بھی موجود ہیں۔
کرسچن مشن اسکول جس کا نام پہلے مشن روڈ پر تھا، لیکن بعد میں اِس سڑک کا نام مولوی عبدالحق روڈ رکھ دیا گیا اور یہ اسکول اب بھی کرائسٹ چرچ کے عین سامنے موجود ہے۔ یہ اسکول کب قائم ہوا اور اِسے کس نے قائم کیا اِس بارے میں تاریخ خاموش نہیں بلکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔
اِس اسکول میں اب تین مزید اسکول قائم ہیں، جہاں اِس وقت 1500 بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ قائدِاعظم کے اِس اسکول کی حالت زار کو جاننے کے لئے جب اسکول کے ذمہ داران اور تاریخ کے جاننے اور سمجھنے والوں سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا یہ تھا کہ یہ اسکول 171 سال قدیم ہے، جس کی بنیاد کراچی کے پہلے انگریز کلکٹر کرنل پریڈی نے 1845ء میں رکھی تھی اور اِس کی تعمیر 1854ء میں مکمل ہوئی جس کی تختی آج بھی اسکول کے بلاک پر موجود ہے۔
1854ء تک اِس اسکول کے پرنسپل موڈ سوڈن تھے، جبکہ 1893-1854ء تک جیمز شیلڈون اور 1993-1907ء تک ڈبلیو جے ابگانی تھے، جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے واجبات اور پینشن کی رقم سے ایک بلاک اور کلاس روم قائم کیا اور قائدِاعظم محمد علی جناح نے انہی کے دور یعنی کہ 1892ء میں یہاں چھٹے درجے میں داخلہ لیا۔ اِن کا داخلہ نمبر 483 تھا، جس کا اسکول کے پاس تو کوئی ریکارڈ نہیں ہے مگر سابق وزیراعلیٰ سندہ سید عبداللہ شاہ جو کہ موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے والد تھے کے دور میں آرکائیو نے اِس ریکارڈ یعنی کہ اسکول کے رجسٹر کو اپنے پاس محفوظ کرلیا ہے۔
سابق کمشنر کراچی نے اِس واحد رجسٹر کو محفوظ کرنے کے لئے اِس کی جلد بھی بنوائی ہے۔ اِس اسکول سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے علاوہ چار ٹیسٹ کرکٹر مشتاق محمد، صادق محمد، ہارون رشید، انتخاب عالم سمیت مشہور اور معروف ہستیوں نے تعلیم حاصل کی، نیز آثار قدیمہ نے بھی اسے ورثہ قرار دیا۔ کرائسٹ چرچ کے پادری شاہد انور کا کہنا یہ ہے کہ جب تک یہ اسکول کرائسٹ چرچ کے زیرِ نگرانی تھا، اُس وقت تک اِس کا شمار کراچی کے نامور اسکولوں میں ہوتا تھا مگر جب ہم سے یہ اسکول واپس لے لیا گیا تو اِس اسکول کے نام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی تھی، لیکن حکومت نہ تو اسکول کے نام کو برقرا ر رکھنے میں کامیاب رہی بلکہ 1970ء کے بعد کوئی قابل رشک طالب علم بھی یہاں سے پڑھ کر نہیں نکلا۔
جبکہ اِس اسکول کے موجودہ پرنسپل امتیاز علی بگھیو نے کہا ہے کہ اِس اسکول کے اندر سی ایم ایس اسکول کے تین مزید اسکول قائم ہوچکے ہیں جہاں اِس وقت 1500 طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں، اور آج بھی اسکول کا وہی معیار ہے جو کہ قائدِاعظم کے زمانہ طالب علمی میں تھا۔
یہ اسکول انٹر تک ہے جہاں داخلے کے وقت نہ صرف بچوں کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے بلکہ اُن کے والدین کے بھی انٹرویوز کئے جاتے ہیں۔ چاروں اسکول انگلش میڈیم کے ہیں اور یہاں ہر قسم کے بچے چاہے وہ غریب ہوں یا امیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اِس اسکول کے اندر ماضی کے تین بلاکس قائم ہیں جن میں 'دی آتھر ڈے بلاک'، 'دی ویلیم کے گل بلاک' اور 'ڈاکٹر آرتھی' جنہوں نے شاہ عبدل لطیف بھٹائی کے شاہ جو رسالو کو یکجا کرنے کا کام کیا۔ گوکہ اِن قدیم بلاکوں یا کلاس روم کی حالت قدیم اور عرصہ دراز سے دیکھ بھال نہ ہونے کے باوجود کچھ زیادہ اچھی تو نہیں مگر اب محکمہ تعلیم نے دلچسپی لیتے ہوئے اِن کی ازسرِِ نو تزئین و آرائش کا کام مکمل کرلیا ہے۔
قائدِاعظم اور دیگر نامور طلبہ کے تمام ریکارڈز کو ایک کمرے میں محفوظ کیا جارہا ہے۔ اِس اسکول کے بارے میں مورخین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کراچی کا پہلا انگریزی یا مشنری اسکول تھا اور اِس کے قدیم ترین کلاس روم اور چھتوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔