اُف یہ لوڈ شیڈنگ

بجلی کے بحران کا آغاز پہلے روزے کی سحری کے ساتھ ہی ہوگیا تھا


Shakeel Farooqi June 13, 2017
[email protected]

جس وقت کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کی تیاریاں ہورہی تھیں، اس وقت بجلی کے کھمبے پر چڑھے ہوئے ایک عام سے کارکن نے کہا تھا کہ نجکاری کے بعد صارفین سر پکڑکر روئیں گے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے گزشتہ عام انتخابات میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو ہی اپنا سب سے بڑا ایشو بتایا تھا اور اسے چند ماہ کے اندر اندر ختم کردینے کے بلند وبانگ دعوے بھی کیے تھے جو سب کے سب نقش برآب اور قطعی کھوکھلے اور بالکل جھوٹے ثابت ہوئے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ عوام لوڈ شیڈنگ کے قیامت خیز عذاب سے بری طرح پریشان ہوکر جلاؤ گھیراؤ اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پرتشدد احتجاجی مظاہروں پر اتر آئے ہیں جس کی تمام تر ذمے داری بجلی کے محکمے کی کھلی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر عائد ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم تک کو اندھیرے میں رکھا گیا اور حقائق ان سے بھی چھپائے گئے جس پر متعلقہ وڈیروں اور اعلیٰ حکام کو شرم آنی چاہیے اورکھلے عام معافی مانگنی چاہیے۔

بجلی کے بحران کا آغاز پہلے روزے کی سحری کے ساتھ ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے روزہ داروں کو ناگہانی عذاب جھیلنا پڑا۔ عوام چیخ اٹھے لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ہوگئی تاآنکہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ میڈیا بھی چلا اٹھا لیکن بجلی کے محکمے کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔

بجلی کے شدید بحران نے رمضان المبارک کے پہلے جمعے کی نماز کے دوران بھی شہریوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بجلی کی مسلسل آنکھ مچولی نے شہر قائد کے نظام زندگی کو بالکل چوپٹ کرکے رکھ دیا۔ شہرکے متعدد علاقوں میں بجلی کی فراہمی 14 گھنٹے سے بھی زائد معطل رہی۔ کراچی کے زیادہ تر رہائشی علاقوں میں اوسطاً 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور لوڈ شیڈنگ سے استثنیٰ غیر اعلانیہ طور پر ختم کردیا ہے۔ یکم رمضان سے شروع ہونے والا بجلی کا بحران کم ہونے کے بجائے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور شہر کی سیاسی اور سماجی تنظیموں کے مسلسل احتجاج کے باوجود کے الیکٹرک کی جانب سے اصلاح احوال کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ انتہا یہ ہے کہ ادارے کی انتظامیہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے گریزاں ہے کہ شہر میں غیر معمولی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔

بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان چھوٹے چھوٹے بچے ، بزرگ شہری اور بے چارے مریض ہیں جن میں برداشت کی قوت ہی نہیں ہے۔ ان سب کی حالت انتہائی خراب اور ناقابل بیان ہے ۔ بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی موٹریں بھی نہیں چل سکتیں جس کی وجہ سے لوگ شدید گرمی کے اس موسم میں پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے بھی محروم ہیں۔ فریج میں رکھی ہوئی چیزیں خراب ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے بے چارے عوام سخت پریشان ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس سے شکایت کریں اور کس سے فریاد کریں۔

تھک ہار کر مجبور شہریوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو بھی ذمے دار قرار دینا شروع کردیا ہے، مگر وہاں سے بھی بے چاروں کو مایوسی کے سوائے کچھ بھی نہیں مل رہا۔

ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کمبخت ترا چاہنے والا نکلا

بڑھتے ہوئے عوامی اشتعال کی وجہ سے شہر کا امن و امان خطرے میں پڑ رہا ہے اور کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ جو لوگ صاحب حیثیت ہیں وہ جنریٹر اور یوپی ایس افورڈ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں آج کل ان کی خریداری اور فروخت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے، لیکن جنریٹر یا یوپی ایس خریدنا ایک عام آدمی کے بس سے باہر ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ وہ بے چارہ آخر کیا کرے؟ وہ اپنے بال بچوں کو شدید گرمی سے کس طرح بچائے؟ گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ بیمار بھی پڑ رہے ہیں جس میں غریب سب سے زیادہ ہیں جو آسانی سے اپنا علاج بھی نہیں کراسکتے۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ بقول مرزا غالب:

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اب اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ شہر کی 100 سے زائد سڑکیں اسٹریٹ لائٹس سے محروم ہیں۔ شہر کے مضافاتی علاقے رات کے وقت اندھیرے میں ڈوبے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سمانا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ لوٹ مارکے واقعات بھی آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سڑکیں کھدی پڑی ہیں جس کی وجہ سے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ لیاری کے علاقے میں رات کے وقت صورتحال بہت سنگین ہوجاتی ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شمیم احمد فرپو نے بجلی کی بار بار بندش پر گہری تشویش ظاہرکی ہے اور رمضان کے آغاز سے ہی کراچی والوں کو طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مشکلات سے دوچارکرنے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ کے الیکٹرک کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں۔ کراچی والوں کو نہ صرف سحر اور افطار کے وقت بجلی کی بندش کو بھگتنا پڑ رہا ہے بلکہ کسی بھی علاقے میں بجلی کا اچانک غائب ہوجانا کوئی نئی بات نہیں۔ کے الیکٹرک اب ایک زبردست منافع کمانے والا ادارہ بن چکا ہے اور ہر سال اربوں روپے کا منافع کما رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے پر کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی۔ عوامی خدمت کے اس ادارے نے اپنے اخراجات کم کرنے کی غرض سے بعض ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے صورتحال اور بھی بگڑ گئی ہے۔ مثال کے طور پر تانبے کے تاروں کو المونیم کے تاروں سے تبدیل کردیا گیا ہے۔

جس کی وجہ سے بجلی کی لائنوں میں ہر روز کوئی نہ کوئی خرابی پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں کراچی کے شہری ناحق گھنٹوں اندھیرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔کے الیکٹرک کی انتظامیہ لوڈ شیڈنگ کا کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر اصل صورتحال سے آنکھیں چرانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ تاجر اور دکاندار بھی بجلی کی بار بار بندش سے بری طرح پریشان ہیں جس کے لیے انھوں نے کراچی چیمبر سے مدد مانگی ہے۔ صنعتی علاقوں میں 10سے 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جس سے پیداواری نقصانات کا سامنا ہے۔

حیدرآباد میں بھی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بندش سے عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری نے طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر رمضان کے دوران یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو فیکٹریوں کو بند کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔ اس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اور حالات بگڑ جائیں گے۔ ایسوسی ایشن کے صدر اسد نثار نے وزیر اعظم، گورنر سندھ اور وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی پر زور دیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور کراچی کی صنعتوں کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے کے الیکٹرک کو معمول کے مطابق صنعتوں کو بجلی فراہم کرنے کی ہدایت کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔