عربوں کی نئی سوچ اور جماعت اسلامی
ان حضرات کو اسلامی ممالک کے تعلیم یافتہ طبقوں میں خاصی پذیرائی ملی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ایشیاء بشمول مشرق وسطیٰ اور یورپ کے حوالے سے کئی نئے اقدامات کا اعلان کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے اقدامات پر امریکا اور یورپ میں کافی لے دے بھی ہورہی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ کا معاملہ الگ ہے۔ اس خطے کے سیاسی افکار و نظریات میں تبدیلی کا عمل ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ امریکی صدر کے دورہ ریاض کو مشرق وسطیٰ میں اندرون خانہ آہستہ آہستہ ہوتی رہنے والی تبدیلیوں کا ببانگ دہل اعلان سمجھا جانا چاہیے۔ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت امریکا کے صدر نے یہ اعلان چالیس سے زائد اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو اپنے پاس ریاض بلا کر اور خود تل ابیب اور ویٹی کن سٹی جاکر کیا ہے۔
ریاض ایک سیاسی اور حکومتی دارالخلافہ ہے۔ یہ شہرکوئی مذہبی حیثیت نہیں رکھتا۔ تل ابیب یا یروشلم سیاسی سے زیادہ مذہبی شناخت کا حامل ہے اور ویٹی کن سٹی تو خالصتاً مذہبی مرکز ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ سے فروغ پانے والے تین بڑے مذاہب کے مراکز پر حاضری نہیں دی۔ ہاں انھوں نے یہودیوں اور کرسچنز کے مراکز پر یقیناً حاضری دی ہے۔ ریاض میں تو صدر ٹرمپ نے مسلمان ملکوں کو نئے حالات میں اپنا پیغام سنایا ہے۔ اس کے ساتھ امریکی معیشت کی مضبوطی کے لیے اربوں ڈالر کے امریکی اسلحہ کی فروخت کے معاہدوں یا وعدوں پر دستخط کیے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورہ کن تبدیلیوں کا باقاعدہ اعلان ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ یہ کمیونزم، سوشل ازم یا مذہب کے نام پر نظریاتی سیاست یا ان بنیادوں پر نظریاتی محاذ آرائیوں کے اختتام کا اعلان اور امریکی بالادستی کو قبول کرلینے کا پیغام ہے۔ ان اقدامات سے یہ حقیقت بھی واضح ہورہی ہے کہ گزشتہ صدی میں امریکا اور سوویت یونین کی زیر سرپرستی دنیا کے مختلف خطوں میں کمیونزم یا مذہب کے نام پر عوامی جذبات کو ابھارکر دراصل کھلا فریب دیا گیا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام بہت مستحکم ہوچکا ہے۔کمیونزم اور سوشل ازم کے علم بردار ممالک روس اور چین اپنے قائم کردہ نظاموں کو خود ہی بائے بائے کہہ کر منڈی کی معیشت اختیارکرچکے ہیں۔ کارل مارکس، لینن اور ماؤزے تنگ کے پیروکار اپنے ان بزرگوںکے نظریات کی ناپائیداری اور فرسودگی کو خود تسلیم کرکے اپنے اپنے ممالک میں مغربی طرز معیشت کا خیر مقدم کررہے ہیں۔
اشتراکی نظام کی عمارت ڈھے چکی ہے چنانچہ کمیونزم کے مقابلے کے لیے ایشیاء میں چلنے والی کئی مذہبی تحریکوں کی بھی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا کے رویے تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ امریکی حکمت عملی کے تحت یا اپنی مصلحتوں کی خاطر بعض عرب ملکوں نے بھی ماضی سے یکسر مختلف طرز ہائے عمل اختیارکر لیے ہیں۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اب کھلے ذہن سے یہ بات مان لینی چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بطور خاص ایشیاء کی سرخ اور سبز نظریات میں تقسیم کی کوششیں کمیونزم اورکیپٹل ازم کے سرخیل طاقت ور ممالک کی طرف سے تھیں۔
ان پالیسی ساز پروڈیوسرزکے کہانی نویسوں اور ڈائریکٹرز نے کسی کو مزدوروں کا ہمدرد، عوام دوست اور کسی کو مذہب کا پیروکار اور دلیر مجاہد قرار دے کر اپنا اپنا کام نکلوایا۔ مختلف معاشروں میں اثر و رسوخ کے قیام کے لیے ڈالر اور روبل کھلے ہاتھوں خرچ کیے جاتے رہے۔ کہیں فن و ثقافت و ادب کی سرپرستی کے نام پر اور کہیں مذہبی افکار کے فروغ کے ذریعے اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر بنائے گئے۔ اشتراکی نظریات کو فروغ دینے کے لیے سوویت یونین نے دنیا کے کئی ملکوں میں اپنے ہم مسلک دانشوروں کو امن، علم اور ترقی کا سفیر قرار دیا تو عرب ملکوں نے جہاں فن و ثقافت کی ایک حد سے زیادہ پذیرائی نہیں کی جاتی مذہبی عالموں کو دور جدید کے اسلامی اسکالر اور مبلغ قرار دیتے ہوئے ان کی خوب عزت افزائی کی۔
مصر میں حسن البنا اور سید قطب نے قرآن کی تفسیر اور دیگر اسلامی موضوعات پر قلم اٹھا کر دور حاضر میں عوام کو اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی۔ برصغیر میں یہ کام سید ابو الا علی مودودی نے شروع کیا۔ اپنے افکار کی اشاعت اور اپنے ہم خیال افراد کو پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے حسن البنا نے مصر میں اخوان المسلمون اور سید مودودی نے برصغیر میں جماعت اسلامی کے نام سے تنظیمیں قائم کیں۔
ان حضرات کو اسلامی ممالک کے تعلیم یافتہ طبقوں میں خاصی پذیرائی ملی۔ کئی غیر عرب اور عرب ممالک نے ان عالموں کے سامنے عقیدت مندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ان کے افکار اور نظریات کو دین کی بہت بڑی خدمت قرار دیا۔ ان حضرات کی تحریروں کی اشاعت وترویج کے لیے کئی مسلم حکومتوں نے سرپرستانہ کردار ادا کیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی بہت علمی مذہبی شخصیت اور پاکستان میں اسلامی نظام کے داعی سید ابوالاعلی مودودی کی علمی کاوشوں کوامت مسلمہ کی بہت بڑی خدمت قرار دیتے ہوئے سعودی حکومت نے کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ واضح رہے کہ حکومتی سرپرستی میں کنگ فیصل ایوارڈ ہر سال پانچ شعبوں 1۔خدمت اسلام 2۔ مطالعہ اسلام 3 ۔عربی زبان و ادب، 4، طب، 5 سائنس میں اعلیٰ خدمات سرانجام دینے والوں کو عطا کیا جاتا ہے۔
1979ء میں سید ابو الاعلی مودودی کو خدمت اسلام کے شعبے میں پہلا کنگ فیصل ایوارڈعطا کرتے ہوئے سرکاری طور پر یہ اعتراف کیا گیا کہ''سید مودودی نے اپنے دور جوانی سے ہی اسلامی صحافت میں سرگرم کردار ادا کیا۔ انھوں نے نہایت موثر طریقے سے اسلامی افکار کے احیا کی کوششیں کیں۔ ان کی کوششیں برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کا ماننا ہے کہ سید مودودی بیسویں صدی کے سب سے پُر اثر اسلامی اسکالر ہیں۔''
دسمبر 2015ء میں اچانک یہ خبر آئی کہ سعودی حکومت نے مملکت میں سید ابو الاعلی مودودی کی کتابوں پر فوری طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان کے ساتھ مصر کے حسن البنا اور سید قطب کی کتابیں بھی پابندی کی زد میں آئیں۔ بتایا گیا کہ ان اسلامی اسکالرز کی تحریریں انتہا پسندی اور شدت پسندی کا سبب بن رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی دہائیوں پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ان حضرات کی سب تحریریں بہت پرانی ہیں اور یہی تحریریں خدمت اسلام قرار دی جاتی رہی ہیں۔
ریاض سمٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارشادات بعد ازاں خلیج میں، قطر کے حوالے سے جنم لینے والی صورت حال، اب امریکا کی زیر سرپرستی نئی حکمت عملی اور نئی صف بندیوں کا اشارہ دے رہی ہے۔ اب لوگوں کو متاثر کرنے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مذہب، اشتراکی نظام، جمہوریت، آزادی اظہار، حقوق انسانی جیسے خوش نما پیراہن اور دل آویز نعرے بلند نہیں کیے جائیں گے۔ کیپٹل ازم کے فنکار اپنی پٹاری سے نئے غبارے اور نئے بہلاوے نکالیں گے۔ امریکا کو ضرورت پڑی تو ایسے دن بھی آسکتے ہیں جب آزادی اظہار کے چیمپئن ملک میں ہی نئے نئے انداز سے اظہار رائے ہر خفیہ یا اعلانیہ پابندیاں لگائی جارہی ہوں۔
سپر پاور امریکا اپنے مدمقابل چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج چینی صدر ژی جن پنگ کا ون بیلٹ ون روڈ OBOR ویژن بھی ہے۔
عالمی سطح پر اور مشرق وسطی میں بدلتے ہوئی پالیسیوں پر پاکستان کی حکومت اپنی خارجہ، داخلہ، معاشی اور چند دیگر پالیسیوںمیں کیا ترتیب اور ترمیم کرے گی۔ عربوں کی تبدیل شدہ سوچ کے بعد پاکستان کے مفادات کو اولیت دینے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عوام کی فکری رہنمائی کس نہج پر کی جائے گی۔ امریکا اور عربوں پر انحصار کرنے والی جماعتیں اور سیاست دان نئے حالات میں کیا حکمت عملی اپنائیں گے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کو نئے حقائق کے ادراک کے ساتھ ساتھ اپنی اہلیتوں اور استعداد کا بھی درست اندازہ ہونا چاہیے۔ عرب اشرافیہ کی سوچ تو سید مودودی کی تحریروں کو اپنے لیے نقصان دہ اور پُر خطر سمجھ رہی ہے۔
اس تبدیل شدہ صورت حال کو کس طرح دیکھا جائے اور جماعت کے متعلقین اور ناقدین سے کیا کہا جائے۔۔۔۔؟
ریاض ایک سیاسی اور حکومتی دارالخلافہ ہے۔ یہ شہرکوئی مذہبی حیثیت نہیں رکھتا۔ تل ابیب یا یروشلم سیاسی سے زیادہ مذہبی شناخت کا حامل ہے اور ویٹی کن سٹی تو خالصتاً مذہبی مرکز ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ سے فروغ پانے والے تین بڑے مذاہب کے مراکز پر حاضری نہیں دی۔ ہاں انھوں نے یہودیوں اور کرسچنز کے مراکز پر یقیناً حاضری دی ہے۔ ریاض میں تو صدر ٹرمپ نے مسلمان ملکوں کو نئے حالات میں اپنا پیغام سنایا ہے۔ اس کے ساتھ امریکی معیشت کی مضبوطی کے لیے اربوں ڈالر کے امریکی اسلحہ کی فروخت کے معاہدوں یا وعدوں پر دستخط کیے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورہ کن تبدیلیوں کا باقاعدہ اعلان ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ یہ کمیونزم، سوشل ازم یا مذہب کے نام پر نظریاتی سیاست یا ان بنیادوں پر نظریاتی محاذ آرائیوں کے اختتام کا اعلان اور امریکی بالادستی کو قبول کرلینے کا پیغام ہے۔ ان اقدامات سے یہ حقیقت بھی واضح ہورہی ہے کہ گزشتہ صدی میں امریکا اور سوویت یونین کی زیر سرپرستی دنیا کے مختلف خطوں میں کمیونزم یا مذہب کے نام پر عوامی جذبات کو ابھارکر دراصل کھلا فریب دیا گیا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام بہت مستحکم ہوچکا ہے۔کمیونزم اور سوشل ازم کے علم بردار ممالک روس اور چین اپنے قائم کردہ نظاموں کو خود ہی بائے بائے کہہ کر منڈی کی معیشت اختیارکرچکے ہیں۔ کارل مارکس، لینن اور ماؤزے تنگ کے پیروکار اپنے ان بزرگوںکے نظریات کی ناپائیداری اور فرسودگی کو خود تسلیم کرکے اپنے اپنے ممالک میں مغربی طرز معیشت کا خیر مقدم کررہے ہیں۔
اشتراکی نظام کی عمارت ڈھے چکی ہے چنانچہ کمیونزم کے مقابلے کے لیے ایشیاء میں چلنے والی کئی مذہبی تحریکوں کی بھی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا کے رویے تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ امریکی حکمت عملی کے تحت یا اپنی مصلحتوں کی خاطر بعض عرب ملکوں نے بھی ماضی سے یکسر مختلف طرز ہائے عمل اختیارکر لیے ہیں۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اب کھلے ذہن سے یہ بات مان لینی چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بطور خاص ایشیاء کی سرخ اور سبز نظریات میں تقسیم کی کوششیں کمیونزم اورکیپٹل ازم کے سرخیل طاقت ور ممالک کی طرف سے تھیں۔
ان پالیسی ساز پروڈیوسرزکے کہانی نویسوں اور ڈائریکٹرز نے کسی کو مزدوروں کا ہمدرد، عوام دوست اور کسی کو مذہب کا پیروکار اور دلیر مجاہد قرار دے کر اپنا اپنا کام نکلوایا۔ مختلف معاشروں میں اثر و رسوخ کے قیام کے لیے ڈالر اور روبل کھلے ہاتھوں خرچ کیے جاتے رہے۔ کہیں فن و ثقافت و ادب کی سرپرستی کے نام پر اور کہیں مذہبی افکار کے فروغ کے ذریعے اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر بنائے گئے۔ اشتراکی نظریات کو فروغ دینے کے لیے سوویت یونین نے دنیا کے کئی ملکوں میں اپنے ہم مسلک دانشوروں کو امن، علم اور ترقی کا سفیر قرار دیا تو عرب ملکوں نے جہاں فن و ثقافت کی ایک حد سے زیادہ پذیرائی نہیں کی جاتی مذہبی عالموں کو دور جدید کے اسلامی اسکالر اور مبلغ قرار دیتے ہوئے ان کی خوب عزت افزائی کی۔
مصر میں حسن البنا اور سید قطب نے قرآن کی تفسیر اور دیگر اسلامی موضوعات پر قلم اٹھا کر دور حاضر میں عوام کو اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی۔ برصغیر میں یہ کام سید ابو الا علی مودودی نے شروع کیا۔ اپنے افکار کی اشاعت اور اپنے ہم خیال افراد کو پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے حسن البنا نے مصر میں اخوان المسلمون اور سید مودودی نے برصغیر میں جماعت اسلامی کے نام سے تنظیمیں قائم کیں۔
ان حضرات کو اسلامی ممالک کے تعلیم یافتہ طبقوں میں خاصی پذیرائی ملی۔ کئی غیر عرب اور عرب ممالک نے ان عالموں کے سامنے عقیدت مندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ان کے افکار اور نظریات کو دین کی بہت بڑی خدمت قرار دیا۔ ان حضرات کی تحریروں کی اشاعت وترویج کے لیے کئی مسلم حکومتوں نے سرپرستانہ کردار ادا کیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی بہت علمی مذہبی شخصیت اور پاکستان میں اسلامی نظام کے داعی سید ابوالاعلی مودودی کی علمی کاوشوں کوامت مسلمہ کی بہت بڑی خدمت قرار دیتے ہوئے سعودی حکومت نے کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ واضح رہے کہ حکومتی سرپرستی میں کنگ فیصل ایوارڈ ہر سال پانچ شعبوں 1۔خدمت اسلام 2۔ مطالعہ اسلام 3 ۔عربی زبان و ادب، 4، طب، 5 سائنس میں اعلیٰ خدمات سرانجام دینے والوں کو عطا کیا جاتا ہے۔
1979ء میں سید ابو الاعلی مودودی کو خدمت اسلام کے شعبے میں پہلا کنگ فیصل ایوارڈعطا کرتے ہوئے سرکاری طور پر یہ اعتراف کیا گیا کہ''سید مودودی نے اپنے دور جوانی سے ہی اسلامی صحافت میں سرگرم کردار ادا کیا۔ انھوں نے نہایت موثر طریقے سے اسلامی افکار کے احیا کی کوششیں کیں۔ ان کی کوششیں برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کا ماننا ہے کہ سید مودودی بیسویں صدی کے سب سے پُر اثر اسلامی اسکالر ہیں۔''
دسمبر 2015ء میں اچانک یہ خبر آئی کہ سعودی حکومت نے مملکت میں سید ابو الاعلی مودودی کی کتابوں پر فوری طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان کے ساتھ مصر کے حسن البنا اور سید قطب کی کتابیں بھی پابندی کی زد میں آئیں۔ بتایا گیا کہ ان اسلامی اسکالرز کی تحریریں انتہا پسندی اور شدت پسندی کا سبب بن رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی دہائیوں پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ان حضرات کی سب تحریریں بہت پرانی ہیں اور یہی تحریریں خدمت اسلام قرار دی جاتی رہی ہیں۔
ریاض سمٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارشادات بعد ازاں خلیج میں، قطر کے حوالے سے جنم لینے والی صورت حال، اب امریکا کی زیر سرپرستی نئی حکمت عملی اور نئی صف بندیوں کا اشارہ دے رہی ہے۔ اب لوگوں کو متاثر کرنے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مذہب، اشتراکی نظام، جمہوریت، آزادی اظہار، حقوق انسانی جیسے خوش نما پیراہن اور دل آویز نعرے بلند نہیں کیے جائیں گے۔ کیپٹل ازم کے فنکار اپنی پٹاری سے نئے غبارے اور نئے بہلاوے نکالیں گے۔ امریکا کو ضرورت پڑی تو ایسے دن بھی آسکتے ہیں جب آزادی اظہار کے چیمپئن ملک میں ہی نئے نئے انداز سے اظہار رائے ہر خفیہ یا اعلانیہ پابندیاں لگائی جارہی ہوں۔
سپر پاور امریکا اپنے مدمقابل چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج چینی صدر ژی جن پنگ کا ون بیلٹ ون روڈ OBOR ویژن بھی ہے۔
عالمی سطح پر اور مشرق وسطی میں بدلتے ہوئی پالیسیوں پر پاکستان کی حکومت اپنی خارجہ، داخلہ، معاشی اور چند دیگر پالیسیوںمیں کیا ترتیب اور ترمیم کرے گی۔ عربوں کی تبدیل شدہ سوچ کے بعد پاکستان کے مفادات کو اولیت دینے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عوام کی فکری رہنمائی کس نہج پر کی جائے گی۔ امریکا اور عربوں پر انحصار کرنے والی جماعتیں اور سیاست دان نئے حالات میں کیا حکمت عملی اپنائیں گے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کو نئے حقائق کے ادراک کے ساتھ ساتھ اپنی اہلیتوں اور استعداد کا بھی درست اندازہ ہونا چاہیے۔ عرب اشرافیہ کی سوچ تو سید مودودی کی تحریروں کو اپنے لیے نقصان دہ اور پُر خطر سمجھ رہی ہے۔
اس تبدیل شدہ صورت حال کو کس طرح دیکھا جائے اور جماعت کے متعلقین اور ناقدین سے کیا کہا جائے۔۔۔۔؟