اچار کا تحفہ
سرکہ اور تیل اچارکو خراب ہونے سے بچاتے ہیں اور اچار 12 سے 16 مہینے تک بھی استعمال کرسکتے ہیں
PESHAWAR:
گرمی کا موسم آتے ہی جہاں دھوپ سے بچاؤکے لیے مختلف طریقے اختیارکیے جاتے ہیں، وہیں موسم میں پیدا ہونے والے پھلوں اور سبزیوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تاکہ گرمی کو بھگایا جاسکے۔اس موسم میں ویسے تو بہت سارے تحفے اور مزے مل جاتے ہیں کہ انسان، جانور اور پرندے بڑے خوش بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانی کی فراوانی گرمیوں کے ہی موسم میں ملتی ہے اور ہم دریائے سندھ سے ملنے والے پانی سے زمین کو سیراب کرتے ہیں جس سے اچھے اور مزے کی فصل اور پھل ملتے ہیں اورہماری خوراک کی ضروریات پوری ہوتی ہے بلکہ کھانے اور پینے کے ذائقے بھی حاصل ہوتے ہیں۔
جب ہم بچے تھے تو دیسی آم کے درخت گھروں، گلیوں اور باغات میں عام تھے، بچے بڑے اس کی کیری توڑ کر اس سے چٹنی بناتے تھے جس میں پیاز، ہری مرچ، دھنیا، پودینا وغیرہ ملاتے تھے۔ اس کی اتنی لذت ہوتی تھی کہ ہم روکھی بھی کھا جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اچار کا بڑا استعمال ہوتا تھا جو دکانوں میں بھی بکتا تھا اور کئی گھروں میں سے بھی۔ ویسے تو اچار کے حوالے سے شکار پور بہت مشہور ہے اور اس وقت بھی وہاں پر کافی اچار بنانے والے کارخانے کام کر رہے ہیںاور انھیں شہر کے مین بازاروں میں سجاکر بیچا جاتا ہے۔ اس بیوپار میں زیادہ تر ہندو لوگ ہوتے تھے لیکن شکارپور میں جن گھروں میں لوگ لینے جاتے تھے وہ صدیقی ذات کے لوگ ہوتے ہیں۔
بازار میں دکانوں میں بڑی مقدار میں بکتا ہے لیکن گھروں میں بننے والا اچار وہ اپنے کھانے کے لیے بناتے ہیں یا پھر دوستوں کو تحفے کے طور پر بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں سے لوگ ان سے جو اچار لیتے ہیں وہ 5 روپے سے لے کر 10 روپے کا ہوتا ہے جو انھیں برتن میں دیتے ہیں جو وہ اپنے ساتھ لاتے ہیں اور وہ زیادہ بچے ہوتے ہیں جو گھر میں جاکر لے آتے ہیں۔ اس طرح سے اچار بیچنے والوں کا کہنا ہے کہ جو اچار بچ جاتا ہے وہ محلے والوں یا پھر جاننے والوں کو بھیجتے ہیں اور یہ ان کا بزنس نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں بھی اچار اپنے کھانے کے لیے بنایا جاتا تھا جس کے لیے مجھے مسالے لکھ کر دیے جاتے تھے جو میں بازار سے لے آتا تھا۔ کیری بڑی سستی اور بڑی تعداد میں بازار سے مل جاتی تھی۔ کیری کو سب سے پہلے پانی سے کئی مرتبہ دھویا جاتا تھا پھر تیز بڑے چھرے سے چار حصے کرکے گٹھلیوں سمیت بنائے ہوئے مسالے سے مکس کیا جاتا تھا۔ مسالے میں پسی ہوئی لال مرچ، کلونجی، نمک، تیل یا پھر سرکہ، ہلدی، سوکھا پسا ہوا دھنیا، سونف، اجوائن، کالی مرچ وغیرہ ڈالا جاتا ہے۔ اچار کے لیے تین فٹ کے چینی سے بنے ہوئے مضبوط کولے ہوتے تھے جس میں اچار Reserve رہتا تھا۔
اس زمانے میں زیادہ تر آم کا اچار بنایا جاتا تھا لیکن اب سبزیوں، پھلوں اور گوشت کا اچار بھی تیارکیا جاتا ہے اور یہ ایک اچھا خاصا بزنس بن چکا ہے، مگر اب یہ بزنس زیادہ تر شکار پور تک سندھ میں محدود ہوگیا ہے۔ اس وقت اچارکراچی، لاہور،اسلام آباد اور بلوچستان بھی بھیجا جاتا ہے جہاں سے افغانستان اور ایران بھی جاتا ہے۔ اچارکھٹا اور میٹھا بھی بنتا ہے جس کے لیے مسالوں میں تھوڑی سی تبدیلی لانی پڑتی ہے اور خاص طور پر میٹھے اچار میں چینی ڈالی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت کھٹی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سرسوں کے تیل میں بنا ہوئے اچار میں آم یا دوسرے پھلوں کی کھال نہیں اتاری جاتی جب کہ سرکے میں بنانے کے لیے اس کی کھال اتار دی جاتی ہے۔ اچار پانی میں بھی بنتی ہے اور وہ سستی ہوتی ہے مگر اس کا ذائقہ اتنا اچھا نہیں ہوتا۔
سرکہ اور تیل اچارکو خراب ہونے سے بچاتے ہیں اور اچار 12 سے 16 مہینے تک بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ جتنا مسالے اور چیز کا معیار ہوگا اس کی لذت بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ اچار کھانے سے بھوک لگتی ہے اور ہاضمے کے لیے بھی بہتر ہے اس کا اثر ٹھنڈا ہوتا ہے حالانکہ اس میں گرم مسالے ڈالے جاتے ہیں مگر سرکے اور تیل کی وجہ سے ان کا اثرکافی کم ہوجاتا ہے۔ گرمی میں اچار کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور غریب لوگ اسے دوپہر کو روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں اور اپنے معاشی مسئلے کا حل اس میں انھیں مل جاتا ہے۔ اچار زیادہ تر عورتیں کھاتی ہیں اور خاص طور پر جب وہ ماں بننے والی ہوتی ہیں۔ اچار عورتوں کے لیے اچھا ہے مگر اسے مرد زیادہ استعمال کریں تو ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔
اچار کھانے سے ڈکار آجاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سندھ میں اچار کا استعمال زیادہ تھا اور ہر گھر میں اچار موجود ہوتا تھا۔جس طرح شہد میں یہ خوبی ہے کہ وہ چیزوں کو محفوظ رکھتا ہے اسی طرح تیل اور سرکہ بھی ان ہی خصوصیات کا حامل ہے۔ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں سرکے والی اچار استعمال ہوتا ہے اور گاؤں والے زیادہ تر تیل کا اچار استعمال کرتے ہیں۔ تیل کا اچار زیادہ کھانے سے اور مسلسل استعمال سے مہینے میں ایک وزن سا محسوس ہوتا ہے۔ جب کہ سرکے کا زیادہ اچار کھانے سے گلا خراب ہوجاتا ہے۔ بہت زیادہ استعمال کیا جائے تو گرمی کا اثر بھی ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں تیزابیت ہوتی ہے۔ اس وقت لوگ زیادہ تر سبزی اور گوشت والا اچار کھاتے ہیں جس سے ان کو غذائیت بھی مل جاتی ہے۔ اگر اچار میں مرچوں کا وزن زیادہ ہوجائے تو بھی اثرکا خدشہ رہتا ہے۔ اچھی کوالٹی کے اچار بنانے والے مسالے کا اندازہ بالکل صحیح رکھتے ہیں۔
اب تو کئی کمپنیاں اس بزنس میں آگئی ہیں جنھوں نے چھوٹے ساشے سے لے کر بڑی بالٹی تک پیکنگ کا انتظام کیا ہے۔ ہاتھ سے بننے والے اچار اور مشین سے بننے والے اچار میں صفائی کا عنصر الگ الگ نظر آتا ہے۔ اس وقت آم کے اچارکا موسم ہے اور کیری ٹرکوں کے حساب سے لائی جا رہی ہے۔ پہلے بھی مربہ بنتا تھا مگر اب اس کے بنانے میں جدت آگئی ہے۔ مربے کی قیمت اچار سے زیادہ ہے۔ مربہ زیادہ تر صبح کے وقت روٹی کے ساتھ کھایا جاتاہے۔ مربہ آم، سیب، آلوبخارہ میں بنتا ہے۔ اب جس وقت کا پھل ہوگا مربہ اس کا بنایا جائے گا۔ مشین کے ذریعے بننے والے اچار یا پھر ہاتھ کے کارخانوں کے بننے والے اچار کا اگر معیار بے حد اچھا ہے تو اسے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ جب کبھی اچار اور مربہ بنانیوالوں میں Competition ہوتا ہے تو قیمتیں کم کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کھانے والے افراد کو فائدہ ہوتا ہے مگر ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ میرے تجربے کے مطابق کھانے والے وہ چیزکھاتے ہیں جس میں ذائقہ زیادہ اچھا ہو یا پھر وہ قیمت کو نہیں دیکھتے۔
اچار کھانے کے عادی اس وقت بھی اچار اپنے گھروں میں خود بھی بناتے ہیں اور دوستوں کو تحفے کے طور پر دور دور تک بھیجتے ہیں اور شکار پور میں کئی گھر ایسے ہیں جہاں پر اچار لینے کے لیے لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ وہاں پر رہنے والے سومرو قوم کے لوگ بھی صدیوں سے اچار بنانے میں مصروف ہیں۔ اچار کا چٹ پٹا احساس ایک دم منہ میں پانی بھر دیتا ہے اور کھانے والا اس کا آخری رس تک چوس کر ہی جاتا ہے۔ اگر آپ کسی میوزک کا ساز بنانے والے کے سامنے اچار کو چوس کر کھائیں گے تو وہ کبھی بھی ساز بجا نہیں سکتا کیونکہ اس کے منہ میں بھی پانی بھر آتا ہے۔