صفحہ پلٹیے

اسلامی جمہوریت نہیں چاہیے دنیا کو اسلامی بادشاہت چاہیے

آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ جو تیس سے زیادہ ملکوں کی ایک لڑی تیارکی گئی ہے عالم عرب میں جس میں وہ ملک بھی شامل ہیں جہاں بھوک اور افلاس سے روزانہ لوگ مر رہے ہیں اور وہ ملک بھی جہاں روزانہ اتنی غذائی اشیا ضایع ہوتی ہیں کہ بھوکا مرنے والوں کا پیٹ بھر سکتا ہے، مگر ایسا کیا نہیں جاسکتا کیونکہ اس ''شاہی آمریت'' کا دبدبہ ختم ہوجائے گا۔ یہی تو وہ بنیاد تھی جس کی وجہ سے تاریخ اسلام کا سب سے سنگین اور خونی واقعہ جنم پذیر ہوا تھا جو ایسے بہت سے واقعات کا انتہائی نقطہ تھا۔ یہ عقائد یاخیالات کے تحت نہیں عرض کیا گیا بلکہ تاریخ بیان کی گئی ہے۔

بادشاہی کا دبدبہ جو اسلام کی روح کے منافی ہے،کل بھی منافی تھا اورکل بھی منافی رہے گا تاوقت یہ کہ حاکمیت کا وہ اعلیٰ معیار پیدا کیا جائے کہ بے شک بادشاہ سونے کے پلنگ پر سوئے مگر اس کے دائرہ اختیار میں کوئی شہری بھوکا نہ سوئے۔ تاریخ نے یہ عہد فاروقی اور عہد مرتضوی میں بیان کیا ہے اور دین ہے دین اسلام اور رسول اکرمؐ کی قربت کی۔ آج کا بادشاہ تو جدید ترین کار میں بیٹھ کر شیطان کو سنگ مر مر کے سنگریزے مارتا ہے اور اسے شیطان کو کنکریاں مارنے کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ احترام بادشاہ کے ہاتھ کا ہے کہ اس میں کوئی عام پتھر نہ آئے بلکہ سنگ مر مر کے سنگریزے حاصل ہوں اور شیطان کے حصے میں بھی سنگ مر مر آئیں عام پتھر نہیں۔

دراصل یہ اپنے نفس کو بہکاوے سے روکنے کی رسم ہے جو قدرت نے لازمی قرار دی ہے کہ اس کے بغیر وہ تمام ارکان پورے شمار نہیں ہوں گے جو ادا کرنا حج یا عمرے کی صورت میں ایک مسلمان پر لازم ہیں۔ اس اتحاد کو ان لوگوں کی آشیرباد حاصل ہے جن کے آباؤ اجداد اور وہ خود بھی اسلام کے خلاف کام کرتے نہیں تھکتے۔ بظاہر Soft Attitude قرار دیتے ہیں۔ اس کا مرکز اسرائیل، آپریٹر، امریکا ، جرمنی، فرانس، برطانیہ ہیں۔ یورپ تو کہلاتے ہی یہ ہیں چاہے ان میں کچھ چھوٹی ریاستیں اور بھی ہوں ''چوہدری'' تو یہی ہیں۔ مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ اسلام کے مخالف اسلامی اتحاد کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ خیر مقدم اتحاد کا نہیں سیال سونے کا ہے اور اصل سونے کا بھی کہ خدا نے مسلمانوں کو محروم نہیں پیدا کیا، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کو مقروض ہونے کا بہت شوق ہے تاریخ کا بھی اور حکومتوں کا بھی۔ ریفرنس کے لیے آپ اسلامی تاریخ ملاحظہ فرما لیجیے۔ تمام تر عظیم ترین اسلامی حکومتیں، ایسے ہی فتنوں اور سازشوں سے ختم ہوئیں جیسے اب رائج کیے جا رہے ہیں۔ پہلے ان کے کچھ اور نام تھے اور اب طالبان، داعش اور ابھی نامعلوم اور کتنے تیر ترکش میں ہیں ظالموں کے جو وقت کے ساتھ ساتھ آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔

اسلامی جمہوریت نہیں چاہیے دنیا کو اسلامی بادشاہت چاہیے دنیا کو تاکہ اس بادشاہت کی Sponser Ship مغرب کو حاصل رہے۔ ہمیشہ رہی ہے آپ تاریخ ملاحظہ کرلیجیے مسلمان بادشاہوں نے، مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں سے مدد حاصل کرکے اپنے بھائیوں کو کچلا ہے۔ کم ایسے معاملات ملیں گے کہ غیر مسلم حکمرانوں نے ایک دوسرے کے خلاف مسلمان بادشاہوں سے مدد مانگی ہو۔ وہ تو ایک اتحاد کی صورت ہمیشہ مسلمانوں کے مقابل آتے رہے اور پروردگار عالم نے سچ مسلمان حکمرانوں کو ہمیشہ ان پر فتح نصیب فرمائی اور ان سچے حکمرانوں کو خود اپنے غداروں اور ضمیر فروشوں کی وجہ سے شکست اور پھر موت نصیب ہوئی یہ سب تاریخ ہے، کب تک ہم اس پر ہاتھ رکھے رہیں گے اور صفحہ نہیں پلٹیں گے۔ ہمارے ہاتھ رکھ دینے سے تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔ یہ پڑھی جائے گی پڑھائی جائے گی۔ آپ کو اپنی تاریخی شرمندگیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا، آج کے مسلمان کو اعتراف کرنا چاہیے اور اس میں شرمانا نہیں چاہیے ہر ملک کا اچھا برا دور اور اچھے برے حکمران ہوتے ہیں۔


ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہیں بھی ہوں پہلے مسلمان ہیں اب اسے مسئلہ یوں لکھنا ہے کہ لوگ اسے مسئلہ سمجھتے اورکہتے ہیں حالانکہ ہماری نظر میں یہ ایک شرف ہے اور اس پر نازاں ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی کردار کو اس شرف کے مطابق بنائیں۔ خودکش جیکٹ نہ پہنیں نہ پہننے کی ترغیب دیں۔ یہ دونوں کام کرنے والے جہنمی ہیں اس میں کوئی شبہ ہے ہی نہیں۔ یہ مسائل کے حل کا کوئی طریقہ نہیں ہے یہ دشمن کی سازش ہے، وہ آپ کو ہلاکو ہی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے جو علم کا دشمن تھا بغداد کا کتب خانہ آج تک اس کی مردودیت پہ نوحہ کناں ہے۔

ہر ملک میں بادشاہت ہو تاکہ جب چاہیں اس کا قلع قمع کرکے اپنے مفادات حاصل کرسکیں یہ ایک سازش ہے اسلام اور اسلامی ملکوں کے خلاف اور اب الگ الگ ان سے نبٹنا مغرب کے لیے مشکل ہو رہا تھا لہٰذا سعودیہ کی سرکردگی میں یہ اتحاد تشکیل پایا ہے۔ مقامات مقدسہ سعودیہ کی تحویل میں ہیں لہٰذا مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ان مقامات کے توسط سے اس حکومت سے ہوگی اور یوں ہم اپنے دشمنوں کو خود ان کے اپنے خلاف صف آرا کرکے کمزور کردیں گے اور پھر فاتح سے ہم نمٹ لیں گے ۔

یہ ایک پرانا تاریخی حربہ ہے ان قوتوں کا جس کی تازہ ترین مثال مشرقی پاکستان تھا اس سے پہلے ٹیپو سلطان کو بھی ان قوتوں نے وہاں ہی شکست دی تھی،کیسے کیسے جواں مرد تاریخ اسلام کی ان قوتوں نے سازشوں سے زمین برد کردیے اور ان سازشوں میں ان کے دست راست تھے وہ لوگ جو خود کو مسلمان کہتے تھے عرب سے ایشیا تک ہر اسلامی دربار میں آپ کو یہ لوگ مل جائیں گے جنھوں نے زرومال، زن، زمین کے بدلے عزتوں کے سودے کیے اور مملکتوں کو مٹا دیا۔ نام و نشان نہ رہا اور مسلمان حکمران روتے ہوئے اپنے محلوں سے روانہ ہوئے اور رات میں قتل کردیے گئے کیوں؟ جب سب کچھ چھن چکا، سازشوں سے سب لے لیا تو پھر، قتل کیوں؟ نام و نشان مٹانے کے لیے ان کے بعد تاریخ وہی لکھی گئی جو حکمرانوں نے پسند کی جو تذکرہ مناسب سمجھا۔ پھر بھی بہت کچھ بچ گیا، ہم تک پہنچ گیا، اور جتنا ہم تک پہنچا وہی دل گداز کرنے کو کافی ہے تو اصل کیا ہوگا، غورکیجیے! آج تاریخ پھر ایک دوراہے پر کھڑی ہے، مسلمانوں کو پھر ایک مرحلہ درپیش ہے، کدھر جائیں؟ دنیا بھر میں مسلمان دربدر پھر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جو پناہ گزین ہیں وہ سارے سرمایہ دار ہیں جو اپنے ٹرالر تک پاکستان لے آئے تھے۔

ضیا الحق کے دور میں اور آج تک یہیں ہیں اور یہیں رہیں گے اور سارا بگاڑ کب کس طرح ہوا ہے اب یہ تو ایک میرے قلم سے بیان نہیں ہوا، نہ ہوسکتا ہے اس کی بھی داستانیں رقم ہیں اور ہوتی ہی رہیں گی۔ ہماری وراثت میں یہ ایک چیز بھی تو ہے اس سے مفر کہاں ہے؟ ملک کا کیا حال ہے، کیا ظاہر میں ہو رہا ہے؟ کیا اندرون خانہ پک رہا ہے کون سے وعدے خفیہ ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔ قوم بے حد صابر بھی ہے اور طاقتور بھی یہ پاکستان کے دشمنوں کو پتا ہے لہٰذا وار پاکستان کے دوستوں ہی سے کروایا جائے گا۔ چاہے وہ براہ راست ہو یا بالواسطہ، تیل کے چشموں کی ضرورت کس کو ہے؟ اور اب وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ''فرنگی'' اور ''شہید'' جیسی فلمیں نہ بنیں نہ اسٹیج کیے جائیں بلکہ ''نواب سراج الدولہ'' جیسی پالیسی اختیار کی جائے اس سے دونوں طرف ضرب برابر پڑے گی۔ پاکستان پر بھی اور جس کی حفاظت کا پاکستان خم ٹھونک کر اعلان کر رہا ہے اس پر بھی پاکستان ایک مقروض اور بے فکرے حکمرانوں کا ملک ہے لہٰذا اس کی پالیسی اور اس کے معاملات کو کنٹرول کرنے کا یہ آسان طریقہ ہے کہ اسے چوکیدار بنا دو، کچھ سمجھ میں آیا آپ کے۔ کوشش تو میں نے بین السطور بہت کی ہے اور اس کا اعتراف بھی کررہا ہوں۔
Load Next Story