سزا و جزا
عالمین علم کی جمع ہے اور یہ ماخوذ ہے علم بمعنی علامت ونشانی سے کیونکہ ہرچیز پیدا کرنے والے کا پتہ دیتی ہے
رب کا لفظ عربی زبان میں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔
مالک وآقا،پالنے والا،خبرگیری کرنے والااور نگہبانی کرنے والا، فرما روا، حاکم ، مدبر، منتظم رب مصدر ہے اوراس کے معنی تربیت کے ہیں تربیت عربی میں کہتے ہیں۔
تبلیغ الشئی الی کمالہ محسب استعد ادہ الازلی شیئا فشیئا (روح اللمعافی)
کسی چیزکو اس کی ازلی استعداد اورفطری صلاحیت کے مطابق آہستہ آہستہ مرتبہ کمال تک پہچانا اللہ تعالی کی بے شمارنعمتو ں سے منصم علیہ کے مطابق اعلیٰ ترین نعمت تربیت ہے ۔اس لیے اس کی مثال سورہ فاتحہ میں الحمد کے فورا بعد رب کا ذکر فرما کر حمد کرنے والے کو بتادیا کہ جس کی تو حمد کررہا ہے وہ ہی تعریف کے لائق اسی لیے ہے کہ اسی نے تجھے ضعف، ناتوانی ،جہالت اور بے بسی کی حالت سے نکال کراس منزل تک پہنچادیا۔
عالمین علم کی جمع ہے اور یہ ماخوذ ہے علم بمعنی علامت ونشانی سے کیونکہ ہرچیز پیدا کرنے والے کا پتہ دیتی ہے نیزاس میں اس لطیف نکتے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام کا خدا کسی خاص قو م، نسل اوروطن کا خد ا نہیں نا اس کی نوازشات کسی خاص نسل کے لیے مخصوص ہیں بلکہ اس کی ربوبیت کا رشتہ کائنات کی ہرشے کے ساتھ یکساں ہے، اس کے لیے اس کی لطف واحسان کے سب حقدار ہیں۔
یعنی رب العالمین وہ ہے جو پوری کائنات کا بنانے والا ہے اسی نے ہرچیز بنائی کیونکہ یاد رکھنے کی با ت یہ بھی ہے کہ جہا ں لفظی مذاہب نے اللہ تعالی کو رب یعنی باپ کہہ کر پکارا ہے لیکن قرآن کر یم نے لفظ رب ا ختیارکیا ہے رب کا تعلق مخلوق سے اس سے بڑھ کر ہے جو باپ کا تعلق بچے سے ہے۔
ا ب جب وہ رب العالمین ہے تو اس نے ہر چیزاپنے بندوں اورکائنات میں رہنے والی ہر مخلوق یا دوسری چیزوں کو حسب مراتب یکساں بھی دی ہیں اوردرجہ بدرجہ بھی عنا یت فرمائی ہیں جیسا کہ ہوا، پا نی، بارش اور رزق۔کوشش سے حاصل ہونے والی تمام تر نعمتوں پر ہرمخلو ق کا حق ہے یہ نہیں کے ا گرکوئی مسلمان ہے تو صرف اسی کا حق ہے اس نے ہر قوم ہر مذہب اور نہ ماننے والوں کو بھی رزق سانس ہوا، بارش اوردیگر نعمتوں سے محروم نہیں کیا۔کیونکہ اس نے اپنی مخلوق کی تخلیق کی، اس کو بنایا ان کا منتظم ٹھہرا ۔ سورج کو دیکھیں چاندکی طر ف نظر دوڑائیں تو یہ بات پتہ چلتی ہے اربوں سال سے وہ ا پنے مدار میں گھوم رہے ہیں اپنی مر ضی سے کچھ نہیں کرسکتے کہ آج چاندکی طبیعت خراب ہے تو وہ کام نہیں کرسکے۔
ایسا اس لیے ہے کہ ان کو صرف حکم دیا گیا ہے، اختیارنہیں دیاگیا ،مگرانسانوں کواللہ تعالی نے حکم بھی دیا اختیار بھی دیا کہ جو دل چاہے وہ کرو ،کیونکہ انسان کی تربیت اللہ نے کی۔ اس نے د نیا میں انسان کو خلیفہ بناکر بھیجا ،ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبرتربیت کے لیے ہی تشر یف لائے اور حضرت محمد ﷺکی نبو ت کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر اس رب نے یہاں بھی انسان کو تنہا نہیں چھوڑا ، قرآن اور حدیث انسان کی تربیت کا ماخذ قرار پائے اور اختیار بھی د ے دیا کہ جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہے، جب اختیاردے دیا تواس کی نگرانی بھی ضرور ی ہے کہ ا ختیارکا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھایا جارہا یا اختیارکو ان ہی معنوں میں استعمال کیا جارہا ہے جیسا کہ حکم ہے۔کائنات کوایک نظام ایک اصول ایک فطرت کے تحت اپنے رحم وکرم سے چلا کر حاکم حکم دے دے مگر حکم کی تعمیل پر نگرانی نہ رکھے یا نگرانی ر کھے مگر تعمیل پرجزا اور عدم تعمیل پر سزا نہ د ے تو احکام کی اجرائی بے کار اور بے معانی ہوجاتی ہے۔ اسی لیے مالک یوم دین کا تصوردیا گیا ہے کہ وہ ہی مالک ہے اس دن کا جب دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا۔
مالک کا مفہوم : حاکم پابند قانون ہوتا ہے اورمالک پابند ِقانون نہیں ہوتا مالک کا لفظ اسی قدرت مطلقہ کی طرف اشارہ ہے، مالک کہتے ہیں
المتصرف فی الاعیان المعلوکتہ کیف شاء(بیضاوی)
جو اپنے ملک میں جو چاہے کرسکے،اس لفظ سے ان عقائد باطلہ کی تردید بھی ہوگئی جن میں ہندوستان کے مشرک اوردوسری قومیں مبتلا تھیں یہ نظریہ کہ خدا ہرمجرم کو سزا دے گا اسے معاف کرنے کا اختیارنہیں، قرآن کی رو سے باطل قرار پاتا ہے، قرآن نے فرمایا وہ مالک ومختار ہے ہر چیزجن وانس اس کی ملکیت ہیں وہ جو چا ہے سلو ک کر ے اگر مجرم کو سزا دینا چاہے توکوئی اسے روک نہیں سکتا اوراگر بخشنا چاہے توکوئی اسے پکڑ نہیں سکتا۔
د ین کے معنی ہیں حساب اورجزا ثواب اورعذاب کی تفسیر لفظ د ین سے کی گئی تاکہ پتہ چلے کہ یہ ثواب اور عذاب بلاوجہ نہیں بلکہ اپنے اعمال کا طبعی اثرہے،اس سے مقصد یہ ہے کہ انسان گناہو ں کی لذ ت میں کھوکر ان بر ے نتائج سے بے خبر نہ ہو جائے و ہ رونما ہوکر رہیں گے ،انسان اپنی عمر ناپائیدار اوراس کی ضیا پذیر راحتو ں پر مغرور ہوکر اس دن کو نہ بھول جائے جس کے ا نصاف کے تر ازو میں اس کا ہرچھو ٹا بڑا نیک وبد فعل تولا جائے گا، یعنی اللہ رب ہے حاکم ہے، مدبر ہے تربیت کرنے والا ہے اس نے تربیت فرما دی ۔ اپنا پیغام رسولوں پیغمبروں کے ذریعے پہنچا دیا ،کھلی نشانیاں بتادیںہرچیزکھو ل کھول کر واضح کر دی ساتھ مخلوق کواختیار بھی د ے دیا کہ جو چاہے کرو، اچھا یا برا مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ان سب اعمال کی جو تم کرو گے ان کی نگرانی بھی ہورہی ہے، ایک دن آئے گا جب کسی کوکسی کی خبر نہ ہوگی ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے اپنے ہا تھ میں ہوگا، اللہ مالک یوم دین ہے ،کسی کے سا تھ رتی بھر بے انصافی نہیں کرے گا، اعمال کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا، سزا اورجزا انسان کے اعمال پر منحصر ہے مگر توبہ کرنے والوں کے لیے معافی ہے مگر اس کی بھی کچھ شرائط ہیں، اس دن توبہ بھی قبول نہ ہوگی۔
ماہ رمضان میں دل ویسے ہی گداز ہوتا ہے اورجب اللہ کی صفا ت پرغوروفکرکرو تو مزید فکرہوجاتی ہے کہ ا نسان کی تربیت کن مقاصد کے تحت ہوئی اور ہم وہ بدقسمت ہیں کہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو بھول کر صرف دنیا کمانے میں لگ گئے اوراس کے لیے جائزنا جائز سب حر بے ا ستعما ل کرلیے، مگر نہ کوئی ڈرنہ فکر حکمرانوں پر تو ویسے بھی دہری ذمے داری ہوتی ہے مگر جیسے عوام ویسے حکمران ان لوگوں کو تو نہ دنیا کی نیک نامی کی پرواہ ہے نہ ہی آخرت کی فکرکس طریقے سے دولت کمائی ہے فکر اس بات کی ہے کہ کہیں اس کے بارے میں رازآشکارہ نہ ہوجائیں ، یہ فکر نہیں ہے، رمضا ن میں لو گوں کے گھر میں چولھا جلا ہے یا نہیں یہ توکہہ د یتے ہیں لوڈ شیڈ نگ بردا شت نہیں کی جائے گی مگر جب اٹھارہ بیس گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے تو ذمے داروں کو سزا کا تصور ہی نہیں ، مگرایک د ن آنے والا ہے جب سب ذمے داروں کو سزا ملے گی، ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، وہاں کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ حکمرانوں کے بیٹو ں کے سا تھ کیسا سلوک ہورہا ہے اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
مالک وآقا،پالنے والا،خبرگیری کرنے والااور نگہبانی کرنے والا، فرما روا، حاکم ، مدبر، منتظم رب مصدر ہے اوراس کے معنی تربیت کے ہیں تربیت عربی میں کہتے ہیں۔
تبلیغ الشئی الی کمالہ محسب استعد ادہ الازلی شیئا فشیئا (روح اللمعافی)
کسی چیزکو اس کی ازلی استعداد اورفطری صلاحیت کے مطابق آہستہ آہستہ مرتبہ کمال تک پہچانا اللہ تعالی کی بے شمارنعمتو ں سے منصم علیہ کے مطابق اعلیٰ ترین نعمت تربیت ہے ۔اس لیے اس کی مثال سورہ فاتحہ میں الحمد کے فورا بعد رب کا ذکر فرما کر حمد کرنے والے کو بتادیا کہ جس کی تو حمد کررہا ہے وہ ہی تعریف کے لائق اسی لیے ہے کہ اسی نے تجھے ضعف، ناتوانی ،جہالت اور بے بسی کی حالت سے نکال کراس منزل تک پہنچادیا۔
عالمین علم کی جمع ہے اور یہ ماخوذ ہے علم بمعنی علامت ونشانی سے کیونکہ ہرچیز پیدا کرنے والے کا پتہ دیتی ہے نیزاس میں اس لطیف نکتے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام کا خدا کسی خاص قو م، نسل اوروطن کا خد ا نہیں نا اس کی نوازشات کسی خاص نسل کے لیے مخصوص ہیں بلکہ اس کی ربوبیت کا رشتہ کائنات کی ہرشے کے ساتھ یکساں ہے، اس کے لیے اس کی لطف واحسان کے سب حقدار ہیں۔
یعنی رب العالمین وہ ہے جو پوری کائنات کا بنانے والا ہے اسی نے ہرچیز بنائی کیونکہ یاد رکھنے کی با ت یہ بھی ہے کہ جہا ں لفظی مذاہب نے اللہ تعالی کو رب یعنی باپ کہہ کر پکارا ہے لیکن قرآن کر یم نے لفظ رب ا ختیارکیا ہے رب کا تعلق مخلوق سے اس سے بڑھ کر ہے جو باپ کا تعلق بچے سے ہے۔
ا ب جب وہ رب العالمین ہے تو اس نے ہر چیزاپنے بندوں اورکائنات میں رہنے والی ہر مخلوق یا دوسری چیزوں کو حسب مراتب یکساں بھی دی ہیں اوردرجہ بدرجہ بھی عنا یت فرمائی ہیں جیسا کہ ہوا، پا نی، بارش اور رزق۔کوشش سے حاصل ہونے والی تمام تر نعمتوں پر ہرمخلو ق کا حق ہے یہ نہیں کے ا گرکوئی مسلمان ہے تو صرف اسی کا حق ہے اس نے ہر قوم ہر مذہب اور نہ ماننے والوں کو بھی رزق سانس ہوا، بارش اوردیگر نعمتوں سے محروم نہیں کیا۔کیونکہ اس نے اپنی مخلوق کی تخلیق کی، اس کو بنایا ان کا منتظم ٹھہرا ۔ سورج کو دیکھیں چاندکی طر ف نظر دوڑائیں تو یہ بات پتہ چلتی ہے اربوں سال سے وہ ا پنے مدار میں گھوم رہے ہیں اپنی مر ضی سے کچھ نہیں کرسکتے کہ آج چاندکی طبیعت خراب ہے تو وہ کام نہیں کرسکے۔
ایسا اس لیے ہے کہ ان کو صرف حکم دیا گیا ہے، اختیارنہیں دیاگیا ،مگرانسانوں کواللہ تعالی نے حکم بھی دیا اختیار بھی دیا کہ جو دل چاہے وہ کرو ،کیونکہ انسان کی تربیت اللہ نے کی۔ اس نے د نیا میں انسان کو خلیفہ بناکر بھیجا ،ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبرتربیت کے لیے ہی تشر یف لائے اور حضرت محمد ﷺکی نبو ت کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر اس رب نے یہاں بھی انسان کو تنہا نہیں چھوڑا ، قرآن اور حدیث انسان کی تربیت کا ماخذ قرار پائے اور اختیار بھی د ے دیا کہ جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہے، جب اختیاردے دیا تواس کی نگرانی بھی ضرور ی ہے کہ ا ختیارکا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھایا جارہا یا اختیارکو ان ہی معنوں میں استعمال کیا جارہا ہے جیسا کہ حکم ہے۔کائنات کوایک نظام ایک اصول ایک فطرت کے تحت اپنے رحم وکرم سے چلا کر حاکم حکم دے دے مگر حکم کی تعمیل پر نگرانی نہ رکھے یا نگرانی ر کھے مگر تعمیل پرجزا اور عدم تعمیل پر سزا نہ د ے تو احکام کی اجرائی بے کار اور بے معانی ہوجاتی ہے۔ اسی لیے مالک یوم دین کا تصوردیا گیا ہے کہ وہ ہی مالک ہے اس دن کا جب دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا۔
مالک کا مفہوم : حاکم پابند قانون ہوتا ہے اورمالک پابند ِقانون نہیں ہوتا مالک کا لفظ اسی قدرت مطلقہ کی طرف اشارہ ہے، مالک کہتے ہیں
المتصرف فی الاعیان المعلوکتہ کیف شاء(بیضاوی)
جو اپنے ملک میں جو چاہے کرسکے،اس لفظ سے ان عقائد باطلہ کی تردید بھی ہوگئی جن میں ہندوستان کے مشرک اوردوسری قومیں مبتلا تھیں یہ نظریہ کہ خدا ہرمجرم کو سزا دے گا اسے معاف کرنے کا اختیارنہیں، قرآن کی رو سے باطل قرار پاتا ہے، قرآن نے فرمایا وہ مالک ومختار ہے ہر چیزجن وانس اس کی ملکیت ہیں وہ جو چا ہے سلو ک کر ے اگر مجرم کو سزا دینا چاہے توکوئی اسے روک نہیں سکتا اوراگر بخشنا چاہے توکوئی اسے پکڑ نہیں سکتا۔
د ین کے معنی ہیں حساب اورجزا ثواب اورعذاب کی تفسیر لفظ د ین سے کی گئی تاکہ پتہ چلے کہ یہ ثواب اور عذاب بلاوجہ نہیں بلکہ اپنے اعمال کا طبعی اثرہے،اس سے مقصد یہ ہے کہ انسان گناہو ں کی لذ ت میں کھوکر ان بر ے نتائج سے بے خبر نہ ہو جائے و ہ رونما ہوکر رہیں گے ،انسان اپنی عمر ناپائیدار اوراس کی ضیا پذیر راحتو ں پر مغرور ہوکر اس دن کو نہ بھول جائے جس کے ا نصاف کے تر ازو میں اس کا ہرچھو ٹا بڑا نیک وبد فعل تولا جائے گا، یعنی اللہ رب ہے حاکم ہے، مدبر ہے تربیت کرنے والا ہے اس نے تربیت فرما دی ۔ اپنا پیغام رسولوں پیغمبروں کے ذریعے پہنچا دیا ،کھلی نشانیاں بتادیںہرچیزکھو ل کھول کر واضح کر دی ساتھ مخلوق کواختیار بھی د ے دیا کہ جو چاہے کرو، اچھا یا برا مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ان سب اعمال کی جو تم کرو گے ان کی نگرانی بھی ہورہی ہے، ایک دن آئے گا جب کسی کوکسی کی خبر نہ ہوگی ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے اپنے ہا تھ میں ہوگا، اللہ مالک یوم دین ہے ،کسی کے سا تھ رتی بھر بے انصافی نہیں کرے گا، اعمال کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا، سزا اورجزا انسان کے اعمال پر منحصر ہے مگر توبہ کرنے والوں کے لیے معافی ہے مگر اس کی بھی کچھ شرائط ہیں، اس دن توبہ بھی قبول نہ ہوگی۔
ماہ رمضان میں دل ویسے ہی گداز ہوتا ہے اورجب اللہ کی صفا ت پرغوروفکرکرو تو مزید فکرہوجاتی ہے کہ ا نسان کی تربیت کن مقاصد کے تحت ہوئی اور ہم وہ بدقسمت ہیں کہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو بھول کر صرف دنیا کمانے میں لگ گئے اوراس کے لیے جائزنا جائز سب حر بے ا ستعما ل کرلیے، مگر نہ کوئی ڈرنہ فکر حکمرانوں پر تو ویسے بھی دہری ذمے داری ہوتی ہے مگر جیسے عوام ویسے حکمران ان لوگوں کو تو نہ دنیا کی نیک نامی کی پرواہ ہے نہ ہی آخرت کی فکرکس طریقے سے دولت کمائی ہے فکر اس بات کی ہے کہ کہیں اس کے بارے میں رازآشکارہ نہ ہوجائیں ، یہ فکر نہیں ہے، رمضا ن میں لو گوں کے گھر میں چولھا جلا ہے یا نہیں یہ توکہہ د یتے ہیں لوڈ شیڈ نگ بردا شت نہیں کی جائے گی مگر جب اٹھارہ بیس گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے تو ذمے داروں کو سزا کا تصور ہی نہیں ، مگرایک د ن آنے والا ہے جب سب ذمے داروں کو سزا ملے گی، ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، وہاں کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ حکمرانوں کے بیٹو ں کے سا تھ کیسا سلوک ہورہا ہے اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ