غزوۂ بدر کفر و اسلام میں خطِ امتیاز

ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔


June 13, 2017
ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔ فوٹو : فائل

KARACHI: بدر وہ مقام ہے جہاں کفار اور اہل ایمان کے درمیان جنگ ہوئی۔ مورخین نے اس جنگ کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ طواف کعبہ کے لیے جارہے تھے کہ ابوجہل نے ان سے کہا: اگر تم ابی صفوان (امیہ) کے مہمان نہ ہوتے تو اپنے گھر صحیح سلامت واپس نہ لوٹتے۔

جواب میں حضرت سعدؓ نے فرمایا: اگر تم ہمیں کعبہ جانے سے روکو گے تو ہم تمہارا تجارتی راستہ (یعنی شام کا راستہ) روک دیں گے۔ قریش نے کبھی کسی کو خانۂ کعبہ آنے سے نہیں روکا تھا، یہ پہلا واقعہ تھا، لہذا حضور نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کو اس پابندی کے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کی دھمکی کے مطابق اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔

نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نہایت جلدی میں اور کم سامان جنگ کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ادھر مکہ مکرمہ سے کفار قریش کا ایک بہت بڑا لشکر جس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہوکر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوا۔

17رمضان المبارک کو صحابہؓ کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ قلت تعداد کے باوجود وہ بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد نہایت گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ دعا فرمائی:

اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا کر۔

اے اللہ! جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔

نبی کریمؐ نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلا کر اونچی آواز سے دعا کررہے تھے کہ آپؐ کے کندھوں سے چادر مبارک گر گئی تو ابوبکر صدیقؓ نے چادر مبارک کندھوں پر ڈال دی اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ آپ کی یہ دعا کافی ہے۔ آپؐ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔

صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول پاکؐ زمین پر ایک خاص جگہ ہاتھ رکھتے اور فرماتے: یہ فلاں کافر کے مر کر گرنے کی جگہ ہے۔

اور ایسا ہی ہوا۔ رسول کریمؐ کے ارشاد کے مطابق ہر کافر اسی جگہ مرا۔ کتب احادیث میں عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد جب ہم نے ان نشانات کو دیکھا تو ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا، جہاں حضور اکرمؐ نے نشان لگائے تھے۔

ابوبکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر بنت رسولؐ اور زوج عثمان غنیؓ، بی بی رقیہؓ شدید علیل تھیں۔ چناں چہ حضور ﷺ نے عثمانؓ کو ان کی دیکھ بھال پر مامور کیا، جس کی وجہ سے وہ غزوۂ بدر میں شامل نہ ہوسکے۔ لیکن غزوے کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہوا تو حضورؐ نے عثمانؓ کو بھی غازیان بدر میں شامل کرکے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا، لہذا عثمان غنیؓ کو بھی بدری صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

(علامہ محمد افضل قادری)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں