دنیا جہنم بن جائے گی

پوری قوم کو عوامی عدالت لگانے سے روکنے کیلئے یکساں انصاف کی فراہمی کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔


حکمرانوں کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ریاست اور ریاستی ادارے جب انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوجائیں تو عوام بے یقینی اور اضطراب کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جہاں بڑی سے بڑی سزا بھی اُن کے بدلے کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کرسکتی۔

KARACHI: لڑکی کے بھائی نے لڑکے کو عبرت کا نشان بنانے کی قسم کھائی تھی۔ لڑکا اندرون سندھ کے ایک گوٹھ کا رہائشی تھا۔ اُس کی عمر 23 برس تھی اور وہ بی اے کا طالب علم تھا۔ لڑکے پر لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کرنے کا الزام تھا۔ لڑکی کے بھائی نے تین ساتھیوں کی مدد حاصل کی اور لڑکے کو دن دیہاڑے اغوا کیا، اُسے گاڑی میں بٹھایا، گالیاں دیں، تشدد کا نشانہ بنایا اور ویران علاقے میں لے جا کر ریت پر پھینک دیا۔

لڑکا ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا رہا، رحم کی اپیل کرتا رہا اور اپنے بے گناہ ہونے کا یقین دلاتا رہا، لیکن لڑکی کا بھائی آج خود ہی مدعی بھی تھا، منصف بھی اور جلاد بھی۔ بھائی کے ساتھ تین میں سے دو ساتھیوں نے لڑکے کے ہاتھ پکڑے، ایک نے دونوں ٹانگیں دبوچیں اور لڑکی کے بھائی نے اِس کے سینے پر بیٹھ کر خنجر نکال لیا۔ پہلے ایک ہاتھ پر وار کیا، خون کا فوارہ چھوٹا اور ہاتھ بازو سے کٹ کر دور جا گرا۔ لڑکی کے بھائی کے غصے کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی، اُس نے دوسرے ہاتھ پر بھی خنجر گھونپا اور اُسے بھی جسم سے جدا کردیا۔

لڑکی کے بھائی کی ابھی بھی تسلی نہیں ہوئی تھی، اُس نے پہلے لڑکے کے دونوں پائوں کے ناخن نکالے اور پھر دونوں پاؤں کاٹ کر مٹی میں دفنا دیئے۔ لڑکا یہ ظلم برداشت نہ کرسکا اور بے ہوش ہوگیا۔ لڑکی کے بھائی نے مرنے کیلئے اُسے ریت پر پھینک دیا اور ساتھیوں سمیت فرار ہوگیا۔ ایک اجنبی شخص کی نظر اُس لڑکے پر پڑی تو خون میں لت پت اُس لڑکے کو اُٹھا کر اسپتال لے گیا۔ ڈاکٹروں کی کوششوں سے لڑکے کی جان بچ گئی لیکن وہ ساری عمر کیلئے معذور ہوگیا۔ لڑکے کے والدین نے انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے عہدایداران سے انصاف کی اپیل کردی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اُنہیں نہ تو کوئی انصاف ملا اور نہ ہی اِس کے ملنے کی کوئی اُمید ہے کیونکہ لڑکی کا بھائی بااثر خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔

آپ اِس واقعہ کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ کیوں لڑکی کے بھائی نے صرف الزام کی بنیاد پر ایک نوجوان لڑکے کو عبرت کا نشان بنا ڈالا؟ اگر لڑکے نے واقعی ہی جرم کیا تھا تو بھائی نے انصاف حاصل کرنے کیلئے کیوں ریاست کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا؟ وہ شکایات لے کر کیوں پولیس کے پاس نہیں گیا؟ وہ کیسے خود ہی مدعی، خود ہی جج اور خود ہی جلاد بن گیا؟ اُس نے عدالت کے سامنے اپنا معاملہ کیوں نہیں رکھا؟ اُس نے ریاست کے قانون اور انصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیوں اپنے طرز کے انصاف کو ترجیح دی؟ اور کیوں اُسے اِس بات کا یقین ہوگیا کہ میں اُس لڑکے کیساتھ کچھ بھی کرلوں ریاست میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی؟

اِن تمام سوالات کے جوابات ایک تلخ حقیقت میں پوشیدہ ہیں، اور وہ حقیقت یہ ہے کہ لڑکی کا بھائی جانتا تھا کہ وہ تھانے کو خرید لے گا، اور اگر بات تھانے کے ہاتھ سے نکل گئی تو کسی ایم این اے سے فون کروا کر جج کے فیصلے پر اثر انداز ہوجائے گا اور اگر بات جج کے بھی قابو میں نہ رہی تو متاثرہ خاندان کی لڑکی کو اغواء کرکے کیس واپس لینے کیلئے بلیک میل کرلے گا اور اگر یہ تمام پینترے بھی کام نہ آئے تو متاثرہ غریب خاندان کو منہ مانگی رقم ادا کرکے اپنی جان بچا لے گا اور اِس ملک کے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مکھن میں سے بال کی طرح نکل جائے گا۔

اب میں تصویر کے دوسرے رخ کی جانب آتا ہوں اور لڑکی کے بھائی کے جذبات کی ترجمانی کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے معاشرے میں بہنیں، بیٹیاں اور مائیں ہمیشہ سے عزت اور حیاء کی علامت رہی ہیں۔ ہم اپنی جان داؤ پر لگا دیں گے لیکن اُن کی عزت کے خلاف ایک بات بھی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم کسی بھی قیمت پر اُنہیں تھانے، عدالت اور کچہری میں نہیں لے کر جائیں گے۔ لڑکی کا بھائی بھی یقیناً اِسی کیفیت سے گزرا ہوگا۔ وہ پولیس کے پاس اِس لیے نہیں گیا ہوگا کہ پھر پولیس اُس کی بہن کو تھانے بلائے گی اور نازیبا سوالات کرے گی جن کے جوابات دیتے دیتے وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتی۔

اُس نے اپنا معاملہ عدالت میں اِس لیے نہیں رکھا ہوگا، کیوںکہ مخالف وکیل اُس کی بہن کو پوری کہانی سنانے کیلئے کہے گا اور وہ بھرے مجمعے میں شرمندہ ہوجائے گی اور وہ جانتا تھا کہ اِس تمام تر ذلت کے باوجود بھی اُس کی بہن کو انصاف کے حصول کے لیے سالوں عدالتوں کے دھکے کھانے پڑیں گے۔

یہ ہمارے معاشرے کی ایسی سچائیاں ہیں جنہیں ہم جھٹلا نہیں سکتے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر لڑکا قصور وار تھا تب بھی لڑکی کے بھائی کے پاس اُسے اِس عبرت کا نشان بنانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جیسے ہی تصویر کے دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھیں گے تو آپ بھی اِس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہ تلخ حقیقتیں ہمارے ملک کے انصاف کے نظام پر ایسا طمانچہ ہیں جن کی آواز ہم 69 سالوں سے سنتے آرہے ہیں اور شاید ہماری آنے والی کئی نسلیں صدیوں تک اِن کی گونج سنتی رہیں گی۔

ہمارے حکمرانوں کو آج اِس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ ریاست اور ریاستی ادارے جب انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوجائیں تو عوام بے یقینی اور اضطراب کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جہاں بڑی سے بڑی سزا بھی اُن کے بدلے کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کرسکتی اور لوگ اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آپ ڈرا دھمکا کر کسی ایک فرد یا گروہ کو غلط کام کرنے سے روک سکتے ہیں لیکن پوری قوم کو عوامی عدالت لگانے سے روکنے کیلئے یکساں انصاف کی فراہمی کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔ کیونکہ جب ہر شخص خود انصاف کا معیار طے کرنے لگے گا تو پوری دنیا رہنے کیلئے جہنم بن جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔