دنیا کے سیاسی نقشے میں عورت

یو این کمیشن میں اس بات پر بھی غور ہوا کہ عورتوں کو مردوں کے ایک ڈالر کے مقابلے میں 77 سینٹ ملتے ہیں


Zahida Hina June 14, 2017
[email protected]

مانچسٹر اور لندن برج پر ہونے والے سانحوں نے بہ طور خاص پاکستانی مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا کہ خدا جانے مذہبی اور نسلی بنیاد پر وہاں آباد لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہو۔ وہ وقت گزر گیا اور برطانوی سفید فام آبادی نے بہت تحمل کا ثبوت دیا۔ ان خونیں واقعات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم روک دی لیکن انتخابات وقت پر ہوئے۔ پھر یہ خبریں آئیں کہ 12 پاکستانی اور 12 ہندوستانی ان انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ 5 پاکستانی نژاد برطانوی خواتین میں لیبر پارٹی کی روزینہ ایلن خان، بیرسٹر شبانہ محمود، لیبر پارٹی کی یاسمین قریشی اور نصرت غنی کامیاب ہوئیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سکھ خاتون پریت کور گل نے بھی انتخاب جیتا۔ ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق 650 نشستوں والے دارالعلوم میں 208 عورتیں جیت کر پہنچی ہیں۔ ان میں 45 فیصد کا تعلق لیبر پارٹی اور 21 فیصد کا تعلق کنزرویٹو سے ہے۔ گرین پارٹی نے صرف ایک نشست جیتی۔

برطانوی انتخابات میں عورتوں کی اس کامیابی نے بہت سی بھولی بسری باتیں یاد دلادیں۔ یہ برطانوی عورتیں تھیں جنھوں نے عورتوں کو ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے جان جوکھم میں ڈالی تھی۔ امریکی عورتوں نے حقوق کی اس جنگ کو غلاموں کی آزادی کی جدوجہد سے جوڑ دیا تھا اور تذلیل، توہین، سماجی مقاطعہ، جیل اور گھروں سے نکالے جانے کی سزا برداشت کی تھی لیکن یہاں میں شہری حقوق کے لیے اس پُرعزم جدوجہد کا ذکر کروں گی جس کا آغاز برطانوی عورت نے 1850 سے کیا۔ یہ جدوجہد ووٹ کے حق کی جدوجہد کے ساتھ ہی جائیداد رکھنے، اپنی آمدنی پر اپنا اختیار رکھنے ، ملازمت کرنے اور دوسرے شہری حقوق کے لیے بھی تھی۔ اس میں چند باضمیر مردوں نے بھی ان کا ساتھ دیا جن میں جون اسٹوارٹ مل کا نام سر فہرست ہے جس نے 1869 میں ''عورتوں کی محکومیت'' لکھی جس میں اس نے عورتوں کے حقوق کی بات کی۔

مجھے ایملی ڈیوسین کی یاد آئی جو اب سے 104 برس پہلے عورتوں کے ووٹ کا حق مانگتی ہوئی شاہ جارج پنجم کے گھوڑے کے سامنے آگئی تھی، اس کے سموں کے نیچے آکر روندی گئی تھی اور زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئی تھی۔ زمانہ کسی لٹو کی طرح گھوم گیا ہے اور آج برطانوی انتخابات میں عورتوں کا ووٹ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ جس وقت برطانوی انتخابات کے نتائج آرہے تھے، اسی وقت Inter-Parliamentary Union (IPU) اور یواین ویمن نے ایک نقشہ جاری کیا جس میں انتظامی عہدوںاور حکومت کی پارلیمانی شاخوں میں عورتوں کی موجودگی کی نشان دہی کی گئی تھی۔ اس نقشے کے مطابق عورتوں کی پائیدار ترقی کے ہدف اور صنفی بنیاد پر ایک زیادہ مساوی دنیا کی تعمیر کی صورت حال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے ۔ خواتین سربراہ مملکت کی تعداد جو 2015میں 19تھی وہ کم ہوکر 17 ہوگئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارے اور IUP کے 2005 میں جمع کیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2005 میں 8 خواتین سربراہ مملکت تھیں جب کہ 2017 میں ان کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ کہنا ہے کہ حکومت کے انتظامی عہدوں اور سربراہان مملکت کی تعداد میں 2015 سے اب تک کمی آئی ہے اور وہ 19 سے 17 ہوگئی ہے۔

Inter Parliamentary Union 1889 میں قائم ہوئی تھی۔ یہ عورتوں کے انتظامی عہدوں پر آنے اور امن کی کاوشوں میں ان کی حصہ داری کے لیے تھی۔ تاہم دنیا کے 273 اسپیکروں میں سے 53 خواتین ہیں۔ اس تنظیم کی سیکریٹری جنرل مارٹن جنگ اورنگ نے اقوام متحدہ کی Malambo -Ngucka Phum نے کہا ''جمہوریت کیا ہے؟ یہ تمام انسانوں کے لیے ہے یا صرف مرد انسانوں کے لیے ہے؟''

یہ بات سامنے کی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں عورتیں انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اتنی مالدار نہیں ہوتیں اور نہ ایسے وسائل رکھتی ہیں کہ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ابتدا سے ہی سیاسی جماعتوں پر مردوں کا غلبہ ہے اور مرد بہ طور امیدوار ان ہی کا انتخاب کرتے ہیں ۔'' تاہم یہ بات 2016 میں دیکھی گئی کہ پارلیمنٹ میں عورتوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی رفتار بہت کم ہے۔ اگر اسی رفتار سے پارلیمانی جمہوری اداروں میں عورتوں کا تناسب بڑھتا رہا تو 50 برس بعد عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات قائم ہوگی۔ یہ صورتحال ہمیں خبردا رکرتی ہے کہ ہم اس سلسلے میں کچھ کریں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی 45 فیصد نشستیں خواتین امیدواروں کے لیے مخصوص کرے۔

یو این کمیشن میں اس بات پر بھی غور ہوا کہ عورتوں کو مردوں کے ایک ڈالر کے مقابلے میں 77 سینٹ ملتے ہیں۔ ایک ہی کام کے لیے معاوضے میں یہ کمی عورتوں کے ساتھ ایک بڑی بڑی نا انصافی ہے۔ عورتوں کے معاوضے میں 23 فیصد کا یہ فرق مٹانے کے لیے اقوام متحدہ ایک مہم کا آغازکررہی ہے۔

2015 کی دنیا میں خواتین وزیروں کی تعداد 730تھی جو اب بڑھ کر 732 ہوگئی ہے ۔ یہ اضافہ ایسا نہیں جس پر خوش ہوا جائے۔ یورپ اور امریکا میں خواتین وزیروں کی تعداد زیادہ ہے۔ ادھر بلغاریہ، فرانس، نکاراگوا، سوئیڈن اور کینیڈا میں خواتین وزیروں کی تعداد 50 فیصد سے اوپر چلی گئی ہے۔ سوئیڈن میں دنیا کی پہلی فیمینسٹ حکومت قائم ہوئی۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ماحولیاتی وزارت میں دنیا بھر سے 161 میں سے 47 ماحولیاتی وزارتیں خواتین کے پاس ہیں۔

حالیہ برطانوی انتخابات کے نتیجے میں 208 عورتیں دارالعوام میں پہنچی ہیں جب کہ 2015 میں یہ تعداد 191 تھی۔ پاکستانی عورتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے جدوجہد 1850 سے چل رہی تھی اور پہلی جنگ عظیم کے مسائل کے دباؤ میں آکر برطانوی حکومت نے عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا لیکن یہ ایک مشروط حق تھا۔ یعنی 30 برس اور اس سے زیادہ عمر کی عورتیں ووٹ ڈال سکتی تھیں۔

صورتحال پہلے کی نسبت بہتر ہوئی ہے لیکن اقوام متحدہ نے دنیا بھر کی پارلیمنٹوں میں عورتوں کی موجودگی کے حوالے سے جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں ہندوستان بہت پیچھے ہے اور اس کا نمبر 148 ہے۔ لوک سبھا میں 11.8 فیصد عورتیں ہیں یعنی 542 کے ایوان میں 64 عورتیں ہیں جب کہ راجیہ سبھا میں 245 اراکین میں سے 27 خواتین ہیں۔

فن لینڈ جہاں خواتین وزیروں کی تعداد ہر ملک سے زیادہ تھی، وہاں بھی 2017 میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ یعنی وہ 62.5 سے گر کر 38.5 ہوگئی۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرکا کہنا ہے کہ سیاسی میدان میں عورتوں کی پسپائی ہمیں خبردار کرتی ہے کہ انتظامی اور اہم امور میں عورتوں اور مردوں کو مساوی مواقعے ملنے کے لیے ہمیں تمام ملکوں میں یہ بات دیکھنی ہوگی کہ ان کے قوانین عورتوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن رہے ہوں۔ اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ جہاں افریقا میں خواتین وزیروں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی، وہیں جنوبی امریکا میں اس تعداد میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح ایشیا میں جہاں ویتنام اور نیپال میں وزیر عورتوں کی تعداد کم ہوئی، وہیں انڈونیشیا میں ذمے دار اور اہم اداروں کی سربراہی میں عورتوں کا حصہ زیادہ رہا۔ عرب ریاستوں میں یہ تعداد بہ مشکل 9.7 فیصد تک پہنچی۔ یورپ میں یہ بلغاریہ تھا جہاں اہم اداروں کی سربراہی میں عورتوں کا حصہ 52.9 تک جاپہنچا جس کی وجہ سے یہ ملک جو 2010 میں عالمی برادری میں 45 واں نمبر رکھتا تھا، وہ پہلے نمبر پر پہنچ گیا۔

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کو ناخواندہ اور عضوِ معطل رکھ کر ہم ایک خوشحال اور ترقی یافتہ دنیا کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سابقہ سوویت یونین اور سوشلسٹ چین نے عورتوں کو جو حقوق دیے اور اس سے انھیں جس طرح آگے آنے کا موقع ملا، تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج سوویت یونین تحلیل ہو چکا ہے، اس کے باوجود روس اور اس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں عورتوں کی تعلیم اور مختلف شعبوں میں ان کی نمایندگی اور کارکردگی ان ملکوں سے کہیں بہتر ہے جو آزاد دنیا میں شمار کیے جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ لکھتے ہوئے بار بار سری لنکا کی مسز بندرانائیکے، اسرائیل کی مسزگولڈ امئیر، ہندوستان کی مسز اندرا گاندھی، برطانیہ کی مسز تھیچر، ہماری بے نظیر بھٹو اور ان کے بعد آنے والیاں یاد آ رہی ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یہ خواتین اپنی آیندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ تھیں اور ہیں۔ انھیں یاد کرتے ہوئے عورتیں عالمی سیاسی نقشے پر ایک اہم طاقت کے طور پر ابھر سکتی ہیں، شرط یہ ہے کہ ان کے اندر عزم و ہمت ہو اور وہ صرف وزیر اعظم، اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر ہونے پر مطمئن نہ ہوجائیں۔ ہماری عورتوں میں آگے بڑھنے کی شاندار صلاحیتیں ہیں، ان صلاحیتوں کو ملک اوردنیا کے کام آنا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں