سندھ کا تعلیمی بجٹ
سیکریٹریٹ کے افسران نے حج اور عمرے پر جانے والے اساتذہ کو اپنی این او سی جاری کرنے کی شرح مقرر کردی
وزیراعلیٰ سندھ مرا علی شاہ نے تعلیم کے لیے بجٹ کا 24 فیصد مختص کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ سندھ میں 55 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے، کیا ان بچو ں کی تعداد کم ہوگی؟ اس بجٹ کی کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہے۔ سندھ کا بجٹ 10کھرب سے زائد کا ہے ، اگرچہ یہ خسارے کا بجٹ ہے مگر بجٹ میں تعلیم، صحت اور امن و امان کو ترجیح دی گئی ہے۔ اب تعلیم کا بجٹ 202.2 بلین، صحت کا 100.32 بلین اور امن وامان کا بجٹ 92.9 بلین ہوگا۔ حکومت پنجاب نے اس سال کل بجٹ کا 20 فیصد حصہ مختص کیا ہے جب کہ پختون خواہ میں تعلیم کا بجٹ 17 فیصد مختص ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت 2008ء میں قائم ہوئی، یوں 9سال بعد سندھ کا تعلیم کا بجٹ پنجاب سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اس بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ میٹرک اور انٹر بورڈ کے ریگولر طلبہ کی انرولمنٹ فیس معاف کردی گئی ہے، جس سے لاکھوں طالب علموں کا فائدہ ہوگا۔ اس فیصلے میں پرائیوٹ طلبہ کی رجسٹریشن فیس کا ذکر نہیں ہے جو زیادہ ضروری ہے۔ سندھ کی یونیورسٹیوں کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ بجٹ کا صرف 2.4 فیصد ہے۔ اسی طرح 41 ہزار ملازمتیں دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ بجٹ میں اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں کے لیے 1 ارب روپے کے قریب رقم مختص کی گئی ہے۔ سندھ تعلیم اورصحت کے اعتبار سے پسماندہ صوبہ ہے۔ اس پسماندگی کی وجہ مالیاتی رقوم کی فراہمی کے علاوہ شفافیت کا معاملہ بھی ہے۔ اگرچہ سندھ میں سرکاری تعلیمی شعبے کا حجم بہت بڑھا ہے مگر امراء سے لے کر غریب والدین تک کی اولین ترجیح نجی تعلیمی ادارے ہیں۔
حتیٰ کہ سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ ،تعلیم کے محکمے کے مجاز حکام، وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ بھی اپنے بچوں کے لیے نجی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں جو سرکاری شعبے پر عدم اعتماد کی واضح مثال ہے۔ سندھ میں اب بھی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 55 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے جن میں 60 فیصد لڑکیاں ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ اسکول موجود ہیں۔ اسکولوں، کالجوںاوریونیورسٹیوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی ،غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کا خاتمہ نہ ہونے اور نااہل اورکرپٹ اساتذہ اورافسروں کا محکمہ تعلیم سے منسلک ہونا صورتحال کی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس بات کی امید پیدا ہوئی تھی کہ اب تعلیم کو بنیادی ترجیح دی جائے گی مگر 5 سال کی صورتحال سے پتہ چلا کہ تعلیم کا محکمہ بازار سے منسلک کردیا گیا ہے جہاں ہر شعبہ فروخت ہورہا ہے۔ اسکولوں اورکالجوں کی عمارتوں کی تعمیر اور پرانی عمارتوں کی مرمت جیسے معاملات التواء کا شکار ہوئے مگر ان کے لیے مختص فنڈ کہیں اور خرچ ہوگئے۔
تعلیم کے معیار اور تعلیمی اداروں کی صورتحال کا جائزہ لینے والی غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹوں سے پتہ چلا کہ 5 ہزار کے قریب گھوسٹ اسکول موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق لاڑکانہ اور نواب شاہ کے اضلاع سے ہے۔ ان اسکولوں کے لیے اساتذہ ریکارڈ پر تو موجود ہیں اور ترقیاں اورفنڈز کا اجراء باقاعدگی سے ہوتا ہے مگر اسکول کام نہیں کرتے۔ پھر اساتذہ کے تقرر کے لیے مارکیٹ ریٹ طے ہوگئے۔ اندورن سندھ اورکراچی کے کئی ہزار افراد لاکھوں روپے ادا کرکے استاد کا خط حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ محکمہ تعلیم کے افسروں کے تقرر کے لیے اسی طرح نیلامی ہونے لگی جیسے پولیس کے محکمے میں ایس ایچ او کے تقررکے لیے ہوتی ہے۔
سیکریٹریٹ کے افسران نے حج اور عمرے پر جانے والے اساتذہ کو اپنی این او سی جاری کرنے کی شرح مقرر کردی۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ ورلڈ بینک نے جو اسکول ایجوکیشن کے لیے سب سے زیادہ رقم فراہم کرتا ہے اپنی گرانٹ روکنے کا عندیہ دیا جس پر تعلیم کے وزیر اور سیکریٹری تعلیم تبدیل ہوئے۔یہ افراد جو اساتذہ کہلانے لگے تھے ان کی تنخواہیں روکی گئیں۔ان میں سے کئی ہزار افراد مظاہرے اور بھوک ہڑتالیں کرنے لگے۔ نیب محکمہ تعلیم کی طرف متوجہ ہوا، اعلیٰ افسران گرفتار ہوئے اور سابق وزیرتعلیم پیر مظہر الحق کو ضمانت کرانی پڑی۔ سندھ کا ایک المیہ یہ ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے۔ سپریم کورٹ اس کے سربراہ اور اراکین کو نااہل قرار دے چکا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اداروں کے تقدس کو برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے دور میں سندھ پبلک سروس کمیشن تباہ ہوا اور وہ محض سپریم کورٹ سے محاذ آرائی کو اہمیت دیتے رہے اور کمیشن کی خرابیوں کو دورکرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب بھی وقت ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ سندھ میں ایسے ایماندار بیوروکریٹس، اساتذہ اورججوں کی تعیناتی ہو جو اس ادارے کو غیر جانبدار اور شفاف ادارہ بنا سکیں۔ یہ معاملہ صرف محکمہ تعلیم کا ہی نہیں بلکہ تمام محکموں اور حکومت سندھ سے منسلک خود مختار اداروں سے منسلک ہے، اگر سندھ پبلک سروس کمیشن ایک شفاف ادارہ بن جائے اور شہری اور دیہی امیدواروں کے ساتھ میرٹ کے مطابق سلوک کرے تو اہل افراد کے حکومت سندھ میں شامل ہونے سے بری طرز حکومت کا معاملہ حل ہوجائے گا۔ حکومت سندھ نے اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں کے لیے ایک خطیر رقم مختص کی ہے۔ سندھ میں اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں کا تجربہ اہم اور نازک ہے ، اصولی طور پر تو ہر علاقے کے باشعور افراد، ریٹائرڈ اساتذہ، صحافیوں اور خواتین کو ان کمیٹیوں میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ کمیٹیاں سیاسی اثر سے دور ہونی چاہئیں۔
اگر یہ کمیٹیاں فعال ہوجائیں تو سرکاری اسکولوں کی ساکھ بہتر ہوسکتی ہے۔ حکومت سندھ نے سرکاری اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں (N.G.O) کے سپرد کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ یہ پالیسی حکومت کی ناکامی کا اعلان ہے۔ حکومت جب اپنے اداروں کو غیر ریاستی اداروں کے حوالے کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان اداروں کو چلانے کی اہل نہیں۔ N.G.Os اسکولوں کی عمارتوں کو بہتر بناتی ہیں ، اساتذہ کی نگرانی کرتی ہیں اور پورے ضلع سے اساتذہ کو منگوالیتی ہیں۔ کراچی کے ضلع جنوبی میں ایک بڑے اسکول کو ایک این جی او کے حوالے کیا گیا تو ضلع جنوبی کے اسکولوں کے تمام قابل اساتذہ کواس اسکول میں تعینات کرالیا گیا۔ رنچھوڑ لائن سے متصل گورنمنٹ گرلز اسکول کی ہیڈ مسٹریس یہ واویلا کرتی رہی کہ ان کے اسکول کے میٹرک کے طلبہ کو ریاضی اور انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کو اس اسکول میں بھیج دیا گیا ہے۔
اب ان کے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ این جی او کو پرانے اسکول دینے کے بجائے نئے اسکول قائم کرنے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ حکومت نے یونیورسٹیوں کے لیے 5ارب روپے مختص کیے ہیں مگر حیدرآباد شہر کے لیے یونیورسٹی کا قیام پھر بجٹ کا حصہ نہیں بن سکا۔ اس صدی کے 17 برسوں میں کراچی میں سرکاری شعبے میں دو جنرل یونیورسٹیاں، ایک انجنیئرنگ اور دو میڈیکل یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں۔ لاڑکانہ، خیرپور، سکھر اور نواب شاہ وغیرہ میں یونیورسٹیاں قائم ہوئی ہیں۔ اس بجٹ میں سکرنڈ کے لیے بے نظیر بھٹو ویٹنری انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جو ایک خوش آیند بات ہے۔ حیدرآباد شہر میں حکومت سندھ کا یونیورسٹی قائم نہ کرنے کا فیصلہ سندھ میں نئے تضادات اور امتیازی سلوک کی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت سندھ کو وفاقی حکومت سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے لیے مختص گرانٹ حکومت سندھ کو دیںکیونکہ صوبے کی نگرانی میں یونیورسٹی زیادہ بہتر انداز میں کام کرسکتی ہے۔
صوبے کی سب سے بڑی کراچی یونیورسٹی شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ ملک کا سب سے قدیم شعبہ ابلاغ عامہ جدید سہولتوں سے محروم ہے۔ اس شعبے میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم نے مدد کی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے شعبہ ابلاغ عامہ کے لیے صحافیوں کے لیے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر شاید سندھ کا اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ، خزانہ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے افسران کچھ اور سوچتے ہیں۔ اس بناء پر بجٹ دستاویزات اس بارے میں خاموش ہیں۔ صرف شعبہ ابلاغ عامہ ہی نہیں بلکہ یہاں تمام شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں ہیں، طلبہ کے لیے بسیں ناپید ہیں، محمود حسین لائبریری کی عمارت پرانی ہوچکی ہے اور اب تک بعض شعبوں میں بلیک بورڈ اور چاک کا استعمال ہوتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کو کراچی یونیورسٹی کے انفرااسٹرکچر کو بچانے کے لیے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ سندھ کے بجٹ میں تعلیم کے لیے کل بجٹ کا 24 فیصد مختص کرنا ایک اچھی خبر ہے مگر اس رقم کا شفاف اور پورے صوبے کے لیے استعمال ہی سندھ کی ترقی کا ضامن بنے گا۔