چینی زبان وثقافت سے قربت کا مسئلہ
اسی طرح اگرچین کےباسیوں کی ہمارے ہاں آمد ورفت پر نظر ڈالی جائے تب بھی نتائج اتنے حوصلہ افزا نہیں ملیں گے
صرف محبت کے لیے کسی زبان کی ضرورت نہیں ہوتی، ورنہ دنیا میں ہرکام کرنے کے لیے ایک ایسی زبان کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، جسے دو فریق با آسانی بول اورسمجھ سکیں۔ اس معاملے میں اگر ہم اپنا قومی تجزیہ کریں تو سوائے شرمندگی کے کچھ نہ مل پائے گا۔ صدیوں ایک دوسرے کے قریب رہنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی صرف پانچ زبانیں پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی اوراردو سیکھنے اورسمجھنے میں ناکام رہے۔
ایک دوسرے کی زبانیں نہ سیکھنے اوران کی تضحیک کرنے کے جو نتائج سامنے آئے اس سے تو سب واقف ہیں، مگر تعصب اورکم علمی کی وجہ سے ہم پڑوسی ممالک کی زبانوں سے جس طرح دور ہوتے چلے گئے اس سے بھی کچھ کم نقصان نہ ہوا۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے پرائمری نصاب میں فارسی پڑھائی جاتی تھی اور مدارس میں رومی،جامی اور سعدی کی اشعار گونجتے تھے۔اس زمانے میں آزادی سے قبل کی وہ نسل بھی موجود تھی جو فارسی، ہندی، بنگالی، سنسکرت اور گور مکھی رسم الخط سے خوب واقف تھی، مگر اب وہ بھی ہمارے درمیان سے اٹھتی جارہی ہے۔
فارسی کو ہم نے مذہبی مدارس تک محدودکردیا، بنگالی کو مار پیٹ کر اپنے آپ سے جدا کیا اور ہندی اور سنسکرت کوہندؤوں کی زبان قرار دے کر ان سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی۔ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پانچ ہزار سال قبل یا اُس سے بھی پہلے موئن جودڑو کے مقام پر وجود میں آنے والے ویدوں کی زبان سنسکرت ہی تھی اور اس کا گرائمر ترتیب دینے والا عالم ''پاننی'' بھی دریائے سندھ کے کنارے واقع اٹک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو ہزار سال قبل مسیح کے دوران پیدا ہوا تھا۔یہی زبان اس زمانے میں ٹیکسلا کی سب سے قدیم یونی ورسٹی میں پڑھائی جاتی تھی اورسیکڑوں میل دور سے چل کر آنے والے علم کے پیاسے اس کی تہہ میں چھپے خزانوں سے واقفیت حاصل کرتے تھے۔
پڑوس میں واقع افغانستان،ایران،بھارت اور چین ایسے ممالک ہیں جن کے اثرات صدیوں کی قربت کی وجہ سے ہماری زندگی پر کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کے مقابلے میں چین سے ہمارے مذہبی، ثقافتی اور لسانی رشتے اتنی قربت نہیں رکھتے۔جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں اس سے چین کا رشتہ اس وقت استوار ہوا جب تجارت کے سلسلے میں یہاں آنے والے چینی تاجر نہ صرف بدھ مت کی تعلیمات کو اپنے ساتھ لے کر اپنے ملک لوٹے بلکہ باہمی تجارت کے سلسلے میں شاہراہ ریشم کے ذریعے چائے اور ریشم کی تجارت کا بھی آغاز ہوا۔ باہمی تعلقات کا یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں مزید عروج پر پہنچ گیا۔ یہاں کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت جب دوحصوں میں تقسیم ہوئی تو اس کا ایک دھڑا بھی ماؤزے تنگ کے سیاسی خیالات کا ترجمان بن کر سامنے آیا۔پھر چین سے اردو زبان میں ایک رسالہ ''چین با تصویر'' چھپ کرآنے لگا اور انقلاب چین کے متعلق بھی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہوکر پاکستان آئیں، مگر ان میں چینی ادب وثقافت کی کتابیں بہت کم اور سیاسی تراجم زیادہ تعداد میں نظر آتے تھے۔
ضیاء الحق کے مارشل لا اور جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد ملکی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے عتاب سے نہ تو ملکی مصنفین اور صحافی بچ سکے اور نہ ہی دوسرے ممالک سے آنی والی کتابوں اور رسائل کے لیے کوئی ٹھکانا بچا۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات اور دوستی ثقافت اور کلچر سے زیادہ دفاعی اور فوجی نوعیت کی تھی لہٰذاوقت اور حالات کے ساتھ وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی، لیکن ہم تمام تر آزادیوں کے باوجود ثقافتی، لسانی اور ادبی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے۔نہ ہی ہمیں چین کا لباس اپنی طرف کھینچ سکا، نہ ہی وہاں کی موسیقی، ڈرامے اور فلمیں ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ بناسکیں اورنہ ہی وہاں کی قدرتی خوب صورتی نے ہمیںاتنا مجبورکیا کہ ہم وہاں کے بلندوبالا پہاڑوں ، چشموں اورعمارتوںکو قریب سے دیکھ سکیں۔
اسی طرح اگر چین کے باسیوں کی ہمارے ہاں آمد ورفت پر نظر ڈالی جائے تب بھی نتائج اتنے حوصلہ افزا نہیں ملیں گے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دہشتگردی کی وجہ سے پچھلی دو دہائیوں کے دوران کسی چینی شہری کا اس ملک میں آزادانہ سفرکرنا مشکل تھا اور اس دوران کئی چینی شہریوں کو دہشتگردوں کے ہاتھوں نقصان بھی پہنچا، مگر اس سے قبل یعنی ستر اور اسی کی دہائی پر نظر ڈالی جائے تب بھی سوائے دانتوں کا علاج کرنے والے چینی ڈاکٹروں کے ہمیں اپنے بڑے بڑے شہروں میں چینی ہنرمند،استاد، گائیک،اداکار،صحافی اورادیب کم ہی نظر آئے۔ہاں ژانگ شی ژوآن نامی چینی شاعر جو انتخاب عالم کے نام سے اردو میں شاعری کرتے ہیںکئی مشاعروں میںاپنا اردوکلام پڑھنے کے لیے ضرور شامل ہوئے۔
علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کے تحت پاکستان اور چین قریب سے قریب تر آ چکے ہیں، مگر اس قربت میں زبان کی دوری سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ادبی، سماجی اور ثقافتی طائفوں کے تبادلے پر بھی توجہ نہیں دی جارہی ۔ ہاں کبھی کبھی بڑی سطح پر ایسے پروگرام ضرور منعقد کیے جاتے ہیں جن میں چیدہ چیدہ لوگوں کو مدعوکرلیا جاتا ہے، لیکن یہ پروگرام عام شہریوں کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔
دو سال قبل چین کے مایہ ناز فلسفی کنفیوشس کی علمی ادبی خدمات کے سلسلے میں پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا جسے بہت سراہا گیا لیکن اس پروگرام میں نہ تو ان کی کوئی تصنیف سامنے آئی اور نہ ہی مستقبل میں کسی کتاب کے ترجمے کی کوئی نوید سنائی گئی۔یاد رہے کہ کنفیوشس کا شمار دنیا کے ان عظیم دانشوروں میں ہوتا ہے جو برسوں پہلے انگریزی میں ترجمہ ہوکر برصغیر کی لائبریریوں کی زینت بن چکا ہے۔کچھ عرصہ قبل وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان ثقافتی روابط بڑھانے کے لیے ابتدائی طور پر پانچ پانچ فلموں کا تبادلہ کیا جائے گا لیکن اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی خبر سامنے نہ آ سکی جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں کہ ثقافتی شعبے میں چین کو قریب لانے میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں۔ پاکستان چائینا انسٹی ٹیوٹ کے بانی اور معروف صحافی مشاہد حسین سید پاکستان اور چین کے تعلقات کا تاریخی سرا 2500 سال قبل ٹیکسلا کی یونیورسٹی سے جوڑتے ہیں جہاں چینی دانشور اور بدھ بھکشو مجسمہ سازی کے ساتھ علم و فن سیکھنے کے لیے آتے تھے۔
اگر ہم اس گم شدہ رسی کے ریشے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو گندھارا سے لے کر مردان، سوات، وزیرستان تک اور سوان،ہڑپہ سے لے کر موئن جودڑو تک ایک ایسا سیاحتی اور ثقافتی انقلاب برپا ہو سکتا ہے جسے دیکھنے کے لیے پوری دنیا اس خطے کی طرف متوجہ ہو گی، لیکن اس سے قبل ہمیں یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ ہم نے اپنی زبانوں،علاقائی ثقافتوں اور لوک ورثے کے ساتھ کتنا انصاف کیا ہے۔آج کل حکومت کی طرف سے چین کے ساتھ ثقافتی اور لسانی حوالے سے جو بھی بیان سامنے آتا ہے اس کے ساتھ سی پیک کے منصوبوں پر ہونے والے مالی اخراجات اور دفاعی تعاون کا ذکر بھی شامل ہوتا ہے۔ جس یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی قربت سے زیادہ تجارتی اور دفاعی ضرورتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اسلام آباد سے ''خواشاں'' کے نام سے نکلنے والے چینی زبان کے ہفت روزہ رسالے کا ذکر بھی آج کل انتہائی گرم جوشی سے ہو رہا ہے، مگر یہ رسالہ بھی شاید پاکستان اور چین کی ثقافتی سرگرمیوں کو اس لیے اتنی اہمیت نہیں دیتا کہ اردو میں اس کے نام کا مطلب ہی ''خالص کاروبار'' ہے۔حکومت سندھ نے اسکولوں کی سطح پر چینی زبان پڑھانے کا اعلان کیا ہے اور ملک کے بیشتر شہروں میں ایسے انسٹی ٹیوٹ قائم ہوئے ہیں جو چینی زبان سکھا رہے ہیں۔