شکارپرپابندی ماہی گیروں کی عید کی خوشیاں ماند پڑگئیں
ماہی گیروں کے گھروں میں فاقے پڑرہے ہیں ،ابراہیم حیدری کے قریب سمندر کنارے پرکشتیاں اور لانچیں کھڑی کردی گئیں
رمضان المبارک میں مچھلی اور جھینگے کے شکار پر پابندی لگنے سے ماہی گیروں کی عید کی خوشیاں ماند پڑ گئیں اور گھروں میں فاقے شروع ہوگئے ہیں.
تفصیلات کے مطابق مچھلی اور جھینگے کے شکار پر بندش کا سیزن یکم جون سے شروع ہوچکا ہے اور ابراہیم حیدری کے قریب سمندر کنارے ہزاروں کی تعدادمیں کشتیاں اور لانچیں کھڑی ہیں،مچھلی شکار پر 2ماہ کی بندش کے دوران ماہی گیر شدید مالی مشکات سے دوچار ہیں،ماہی گیروں کے لیے جون اور جولائی کا مہینہ ہر سال مالی مشکلات کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس دوران مچھلی اور جھینگے کی افزائش نسل کا سیزن ہوتا ہے جس کی وجہ سے مچھلی اور جھینگے کے شکار پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔
امسال ماہ رمضان جون اور جولائی میں آنے سے ماہی گیروں کی مالی مشکلات دہری ہوگئی ہیں اور ان کی عید کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے سبب ماہی گیروں کے گھروں میں سحر وافطارکے دستر خوان خالی رہتے ہیں، ماہی گیروں کے مطابق سمندر میں اوور فشنگ کی وجہ سے 75فیصد مچھلی اور جھینگے ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سارا سال کوئی خاص شکار نہیں ملتا، اب2ماہ کی بندش کی وجہ سے مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، ابراہیم حیدری کی رہائشی خواتین کے مطابق رمضان میں روزگار نہ ہونے سے ان کے گھرکا چولہا ٹھنڈا ہے،سحری اور افطار کے لیے راشن نہ ہونے سے دن کے ساتھ اکثر رات میں بھی مجبوراً بھوکا رہنا پڑتا ہے۔
ماہی گیروں نے حکومت سندھ اور محکمہ فشریز سے اپیل کی ہے کہ انھیں مچھلی کے شکار پر بندش والے مہینوں میں وظیفہ دیا جائے تاکہ وہ ابھی اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں مناسکیں،35سالہ ماہی گیرسلیم کچھی نے ایکسپریس کو بتایا کہ 4سال سے رمضان المبارک کا مہینہ جون اور جولائی میں آرہا ہے، ان دنوں مچھلی کے شکار پر پابندی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ماہی گیروںکو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شکار پر پابندی کے باعث ایک طرف توماہی گیر بے روزگار ہوجاتے ہیں، دوسری جانب سال بھر کی تھوڑی جمع پونجھی بھی ان دنوں خرچ ہوجاتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق مچھلی اور جھینگے کے شکار پر بندش کا سیزن یکم جون سے شروع ہوچکا ہے اور ابراہیم حیدری کے قریب سمندر کنارے ہزاروں کی تعدادمیں کشتیاں اور لانچیں کھڑی ہیں،مچھلی شکار پر 2ماہ کی بندش کے دوران ماہی گیر شدید مالی مشکات سے دوچار ہیں،ماہی گیروں کے لیے جون اور جولائی کا مہینہ ہر سال مالی مشکلات کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس دوران مچھلی اور جھینگے کی افزائش نسل کا سیزن ہوتا ہے جس کی وجہ سے مچھلی اور جھینگے کے شکار پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔
امسال ماہ رمضان جون اور جولائی میں آنے سے ماہی گیروں کی مالی مشکلات دہری ہوگئی ہیں اور ان کی عید کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے سبب ماہی گیروں کے گھروں میں سحر وافطارکے دستر خوان خالی رہتے ہیں، ماہی گیروں کے مطابق سمندر میں اوور فشنگ کی وجہ سے 75فیصد مچھلی اور جھینگے ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سارا سال کوئی خاص شکار نہیں ملتا، اب2ماہ کی بندش کی وجہ سے مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، ابراہیم حیدری کی رہائشی خواتین کے مطابق رمضان میں روزگار نہ ہونے سے ان کے گھرکا چولہا ٹھنڈا ہے،سحری اور افطار کے لیے راشن نہ ہونے سے دن کے ساتھ اکثر رات میں بھی مجبوراً بھوکا رہنا پڑتا ہے۔
ماہی گیروں نے حکومت سندھ اور محکمہ فشریز سے اپیل کی ہے کہ انھیں مچھلی کے شکار پر بندش والے مہینوں میں وظیفہ دیا جائے تاکہ وہ ابھی اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں مناسکیں،35سالہ ماہی گیرسلیم کچھی نے ایکسپریس کو بتایا کہ 4سال سے رمضان المبارک کا مہینہ جون اور جولائی میں آرہا ہے، ان دنوں مچھلی کے شکار پر پابندی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ماہی گیروںکو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شکار پر پابندی کے باعث ایک طرف توماہی گیر بے روزگار ہوجاتے ہیں، دوسری جانب سال بھر کی تھوڑی جمع پونجھی بھی ان دنوں خرچ ہوجاتی ہے۔