ادب میں بھی گلیمر
کتنے فیصد ایسے گھروں میں جن کے پورچ میں دو یا تین کاریں کھڑی ہوں، ’’دیوان غالب‘‘ موجود ہوگا؟‘‘
وسیع مطالعے کے حامل، کتابوں سے عشق کرنے والے قابل احترام غازی صلاح الدین نے ایک دفعہ اپنے کالم میں لکھا تھا ''ڈیفنس میں ایک سڑک کا انتخاب کرتے ہیں جو دو بڑے خیابانوں کے درمیان ہو، اور جس میں 30 یا 40 کے قریب گھر ہوں وہاں ہم ہر دروازے پر جاکر یہ سوال کریں کہ کیا آپ کے گھر میں ''دیوان غالب'' ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے کتنے فیصد ایسے گھروں میں جن کے پورچ میں دو یا تین کاریں کھڑی ہوں، ''دیوان غالب'' موجود ہوگا؟''
غازی کے الفاظ میں ایک دکھ ہے، ایک شکوہ ہے، کتاب سے دوری کا۔ ان کا یہ کہنا بھی سچ ہے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی جادوئی دنیا سے امریکا اور یورپ ہم سے بہت پہلے سے واقف ہیں، لیکن وہاں کتب بینی کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کیونکہ وہاں تعلیم کا تناسب سو فیصد ہے۔ وہاں ہر شخص اپنا اخبار خریدتا ہے، سفر کے دوران بھی وہ مطالعے میں غرق رہتے ہیں، اس متمدن اور مہذب معاشرے کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ دراصل ہمارا معاشرہ علم دشمن اور کتاب دشمن معاشرہ ہے۔ یہاں سیروں کے حساب سے کباب، تکے، برگر اور پیزا حلق سے نیچے اتار لیے جاتے ہیں، کئی کئی لیٹر کولڈ ڈرنک، آئس کریم اور فالودہ پیٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن کتاب کی خریداری گھریلو بجٹ میں شامل نہیں ہوتی۔ ہر قوم آگے بڑھتی ہے تو ترقی کرتی ہے لیکن افسوس کہ ہماری ترقی، ترقی معکوس ہے۔
پچیس سال پہلے تک ہر گھر میں اخبار آتا تھا، کتابیں پڑھی جاتی تھیں، لائبریریاں آباد تھی اور تقسیم سے پہلے شرفاء کے گھرانوں میں کتاب اتنی ہی ضروری تھی جتنا کہ دوپہر اور رات کا کھانا۔ ان پڑھ خواتین کو بھی فسانہ آزاد، میر احسن کی ''باغ و بہار''۔ ''سرور کی فسانہ ''عجائب''۔ ''طلسم ہوشربا'' اور ''الف لیلہٰ'' کی حیرت انگیز اور دلچسپ کہانیاں ہمیں ہماری دادی ہی سے سننے کو ملیں۔ جنہوں نے صرف قرآن ناظرہ پڑھا تھا۔ پھر بھی ایسے مایوس حالات میں بھی کتب و رسائل شایع ہورہے ہیں اور پڑھے جاتے ہیں۔ اسی لیے مرحوم حمید اختر صاحب کے زیادہ تر کالم کتابوں اور ادبی رسائل ہی سے متعلق ہوتے تھے۔
ایک باعث اطمینان بات یہ بھی ہے کہ میں جب بھی کسی اہم کتاب یا ادبی پرچے کا ذکر اپنے کالم میں کرتی ہوں تو بہت سے فون آتے ہیں، جن میں پسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی مجھے ان خواتین و حضرات کے ٹیلی فون کال سے ہوتی ہے جو پشاور، صوابی، چار سدہ، ملتان، گوجرانوالہ، کوئٹہ اور دیگر شہروں سے آتے ہیں۔ اسی لیے سوچا آج بھی کم ازکم ادبی پرچوں کا تعارف ضرور کروادوں، جو مجھے ابھی ابھی موصول ہوئے ہیں۔
پہلا پرچہ ہے ماہنامہ ''الحمراء'' لاہور کا سالنامہ۔ واقعی جی خوش ہوگیا دیکھ کر،...اور فہرست مضامین کا تنوع دیکھ کر محسوس ہوا کہ پرچے کے مدیر نے سالنامے پر بڑی محنت کی ہے۔ خاکے، یادرفتگاں، افسانے، آپ بیتی، انشایئے، تنقیدی مضامین، مزاح نگاری، غزلیں، نظم، تبصرہ کتب اور محفل احباب وغیرہ۔ ویسے تو یہ تمام چیزیں ہر ادبی پرچے میں موجود ہوتی ہیں، لیکن ان کا انداز ذرا مختلف ہے۔ عام طور پر ادبی پرچوں میں افسانہ، آپ بیتی اور سفر نامے زیادہ دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس دفعہ شاہد علی خاں نے اپنے قارئین کی فرمائشوں کا خیال رکھتے ہوئے پورے 400 صفحات کا سالنامہ شایع کیا ہے۔جس میں 23 افسانے بھی شامل ہیں۔ انور سدید صاحب کا مضمون جو ناول نگار اور افسانہ نگار عزیز احمد کے بارے میں ہے بہت خاصے کی چیز ہے۔
عزیز احمد اردو ادب کے وہ مایہ ناز ادیب تھے، ان کی وفات کو کئی برس بیت گئے، لیکن کبھی کسی بھی فورم سے ان پر کوئی پروگرام پیش نہیں کیا گیا ۔ آخری عمر میں وہ گوشہ نشین ہوگئے تھے، کچھ اپنوں اور کچھ پرایوں کے دیے ہوئے دکھ ایسے تھے کہ انھوں نے کسی سے بھی ملنے جلنا بند کردیا تھا۔ وہ اعلیٰ ملازمتوں پر فائز رہے، ایک ہی دفتر میں وہ اور قرۃ العین حیدر ساتھ ساتھ تھے۔ انور سدید صاحب نے ٹھیک کہا ہے کہ انھوں نے اپنی شہرت کا ڈنکا خود نہیں بجایا نہ ہی کسی بڑے نقاد اور ادیب سے اپنے اوپر کوئی مضمون لکھوایا، کیونکہ وہ ادب کی سیاست سے بے نیاز تھے۔ وہ نام و نمود کو بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے اور اپنے گرد خوشامدی اور کاسہ لیس ادیبوں کا ٹولہ بھی جمع نہیں کیا تھا۔ وہ شہرت عام کی منزل کو روند کر بقائے دوام کی مسند پر رونق افروز ہیں۔ الحمراء کا یہ سالنامہ بہت وقیع اور پڑھنے کی چیز ہے۔ الحمراء کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ ہر ماہ نہایت پابندی سے شایع ہوتا ہے۔
دوسرا پرچہ ہے ''دنیا زاد'' جسے آصف فرخی بڑی پابندی اور جانفشانی سے نکالتے ہیں۔ یہ دسمبر 2012 کا شمارہ میرے سامنے ہے۔ کتابی سلسلہ ''دنیا زاد''کے سال میں تین شمارے شایع ہوتے ہیں۔ زیر نظر شمارے میں لندن سے آئے ہوئے عامر حسین کے چار افسانے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انتظار حسین، شمس الرحمن فاروقی، اور کشور ناہید بھی ہیں۔ لیکن عامر حسین کا ذکر بطور خاص میں نے اس لیے کیا کہ آصف فرخی نے عامر حسین کا تعارف اس حوالے سے کروایا تھا کہ وہ برطانیہ میں رہ کر اردو میں افسانے لکھ رہے ہیں۔ یہ بڑی بات ہے، ان کی چار کہانیوں میں ، دو کہانیاں، حوصلہ مند، مایا اور ہنس اور میاں تم اردو میں کیوں نہیں لکھتے، شامل ہیں۔ آخری الذکر پڑھنے کی چیز ہے۔ جس میں انھوں نے قرۃ العین حیدر سے اپنی وابستگی اور تعلق خاطر کا ذکر بڑے پیار بھرے اور اچھے انداز میں کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کی میں بھی پرستار ہوں۔ شاید اسی لیے یہ مضمون بہت ہی اچھا لگا۔ باقی تینوں کہانیاں بھی قاری کو پکڑ لیتی ہیں اور آخر تک اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔
اور اب ایک ایسے پرچے کا ذکر جو اپنے پہلے شمارے سے لے کر آج تک نہایت پابندی سے وقت پر شایع ہو رہا ہے۔ یہ ہے سہ ماہی ''اجراء'' جس کے مدیر احسن سلیم ہیں۔ جن کی محنت ''اجراء'' کے صفحات میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس شمارے میں پرچے کا اداریہ پڑھنے کی چیز ہے جو ذہن کے نئے گوشے کھولتا ہے اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ انھوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ''کرپشن صرف حکومتی اداروں میں ہی نہیں ہے، ادیب اور شاعر بھی کرپشن کی خوبصورتی اور دلکشی پر جان دیتے ہیں۔ ادب میں بھی گلیمر کے ساتھ ساتھ سیاست کی طرح زبردست گروہ بندی اور تفرقہ بازی کا شاندار کھیل کھیلا جا رہا ہے''۔ ''اجراء'' کی ایک اور بات بہت منفرد ہے۔ وہ ہے اس کے بین الاقوامی اور علاقائی ادب سے تراجم۔
اس بار بھی تقریباًدس مضامین اس حوالے سے موجود ہیں۔ 576 صفحات کے ضخیم پرچے میں پاکستان کے علاوہ بھارت کے لکھنے والے بھی شامل ہیں۔ مضامین کے حصے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کا مضمون ''اردو ناول کی زوال پذیری کا غیر ضروری شکوہ'' اور ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا ''منٹو صاحب کا طرز بیان'' بہت جامع اور معیاری مضامین ہیں۔ ''اجراء'' میں بھی وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی پرچے کو معیاری، مستند اور دلچسپ بناتا ہے۔
چند دن پہلے فیصل آباد سے احمد اقبال صاحب نے فون پر کہا تھا کہ کالموں کے ذریعے انھیں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ کون کون سی نئی کتابیں اور رسائل بازار میںآگئے ہیں اور وہ آسانی سے ان میں سے چند ایک کو اپنے مطالعے کے لیے منتخب کرلیتے ہیں۔ کیونکہ ہر شخص کے لیے بازاروں میں گھوم کر نئی کتب اور رسائل کا پتہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔لیکن میں یہاں یہ بات واضح کردوں کہ میں صرف ان کتب اور رسائل کا تعارف کرواتی ہوں جنہوں نے خود مجھے متاثر کیا ہو، اور ان میں کوئی خاص بات بھی ہو۔ اور جب لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں تو میری محنت وصول ہوجاتی ہے اور میں خود کو واقعی ''کتابوں کی سفیر'' کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ کتابیں ہی آدمی کو انسان بناتی ہیں اور مطالعے کی عادت ہی اسے انسانیت کا سبق سکھاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ''ایکسپریس '' نے اس معاملے میں اپنی ذمے داری بخوبی نبھائی ہے۔