بھوک اناج اور آبادی
گھروں میں ضایع کی جانے والی روٹی سےدنیا کے تین کروڑ فاقہ زدہ عوام بھوک اور تغذیے کی کمی سے نکل سکتے ہیں۔
شادی ہال ہوں یا ہوٹل، گھر ہوں یا دفاتر ہر جگہ اناج کی بے قدری اور ضیاع عام ہے۔ کیا بچہ کیا بوڑھا، کیا مرد کیا عورت کسی کو بھی غذائی بے قدری اور ضیاع کا احساس نہیں۔ لگتا ہے وہ نسلیں ہی اب معدوم ہو چلی ہیں جو اناج کو خدا کی عطا کردہ نعمت اور رحمت سمجھتی تھیں۔ اناج کے دانے دانے کی قدر کرتی تھیں۔ اناج اور کھانے پینے کی اشیاء کے کسی ذرے کا ضیاع تو دور کی بات ہے بے قدری بھی اُنہیں گوارا نہیں تھی۔ ہمارے رویوں میں بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ آج ایسے افراد دیکھنے کو خال خال ہی ملتے ہیں جو کھانے پینے کی اشیاء کو خدا تعالیٰ کی خاص نعمت اور رحمت سمجھ کر اُسے برتتے ہوں۔ اِس میں کِسی کوتاہی کو وہ اپنے لیے وبال سمجھتے ہوں۔ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ تیز رفتار دور نے انسان سے شکم سیری کا یہ لطف بھی چھین لیا ہے کہ وہ کھانا آرام و سکون سے کھا سکے، اپنے کھانے کا لطف بھی لے سکے۔
بسا اوقات تو اُسے بھاگتے دوڑتے برگر، سینڈوچ یا رول پراٹھا نگل کر پیٹ کا دوزخ بھرنا پڑتا ہے۔ اِسے کھانا کھانا تو کیا بس زہر مار کرنا ہی کہا جائے گا۔ اِس بھاگ دوڑ میں اعلیٰ خیالات کی آمد یا غذا کا بطور نعمت ممکنات میں سے نہیں۔ یہ ہی رویے بڑھتے بڑھتے بے قدری، نا قدری اور ضیاع تک لے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ فرد کی نظر میں غذا بھی اشیائِ صرف کی طرح کی ایک شے بن کر رہ جاتی ہے۔ جسے وہ پسند نہ آنے کی صورت میں یا اضافی ہو جانے کی صورت میں کچرے کے ڈبے میں پھینک دینے کو عار نہیں سمجھتا۔ مغرب میں تو یہ عام رواج ہے۔ آپ نے برگر ، پِزا یا کچھ بھی کھانے کے لیے منگوایا۔ اب اگر وہ آپ کو کسی بھی سبب سے ناپسند ہے یا آپ کھانا نہیں چاہتے تو اب وہ کچرے کے ڈبے ہی میں جائے گا۔
آپ خود یا جس دکان یا ادارے سے آپ نے وہ منگوایا ہے وہ اُسے کچرے کُنڈی ہی کے حوالے کرے گا۔ خراچ اور صراف معاشرے میں اِس غذا کا کوئی اور مصرف نہیں رہ جاتا۔ خود ہمارے ہاں گلی محلوں میں، کونوں کُھدروں میں، خالی پلاٹوں میں، جگہ بے جگہ بنی کچرا کُنڈیوں میں لوگ روٹی، چاول، کھانے پینے کی اشیاء پھینکتے ہی رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کچرے کے اِن ڈھیروں پر کچھ میلے کچیلے سے بچے آپ کو غذا تلاش کرتے اور کھاتے نظر آئیں گے۔ اب سے کچھ عرصہ قبل تک اِسے گناہ سمجھا جاتا تھا۔ دستر خوان کا عام رواج تھا۔ گھر کی بچی کچھی غذا اور دستر خوان پر گرنے والے کھانے کے ریزے بڑے اہتمام سے مرغی، چڑیا، پرندوں یہاں تک کہ چیونٹیوں کا دستر خوان بنتی تھی۔ غذا ضایع نہیں ہوتی تھی۔ ایسا صرف یہیں نہیں تھا بلکہ تمام تر روایتی تہذیبوں میں غذا کی بے قدری، ناقدری اور ضیاع کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نہ ہی اُن معاشروں میں افراد کو خوش خوراکی اور بسیار خوری ہی کا عارضہ لاحق ہوتا تھا۔ جو اُن کے ُموٹاپے اور تنومند توند میں اضافے کا باعث بنے۔ زیادہ کھانے کو ظلم کا کھانا تصور کیا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کھانا دنیا کے کسی اور فرد کا حق تھا جو زیادہ کھا لیا گیا، اور یہ ظلم ہے۔
آج کی دنیا عجیب سے تضاد کا شکار ہو گئی ہے۔ ایک جانب کچھ ایسے ممالک ہیں کہ جہاں مٹاپا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ افراد، بچے یہاں تک کہ نومولود بھی مٹاپے کا شکار ہیں۔ یعنی کھا کھا کر مرے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ افراد ہیں جو فاقوں سے مرے جا رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کا ہر آٹھواں فرد بھوک کا شکار ہے۔ قریباً87 کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ (2010-12) یعنی دنیا کی آبادی کا 120.5 فی صد۔ افریقا کے حالات بہت ہی دگرگوں ہیں۔ 1990-92 کے دوران وہاں کے ساڑھے سترہ کروڑ افراد بھوک کا شکار تھے۔ یہ تعداد بڑھ کر 2010-12ء میں تئیس کروڑ نوے لاکھ ہو گئی ہے۔
پاکستان کے بارے میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار بھی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتے۔ وفاقی وزیر برائے تحفظ تغذیہ و تحقیق میر اسرار اللہ زہری نے ایک سیشن میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی 58 فی صد آباد ی غذائی قلت کا شکار ہے۔ 29.6 فی صد افراد بھوک یا شدید بھوک کا شکار ہیں۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ چوں کہ دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے لہٰذا دنیا بھر میں افراد کو غذائی قلت اور بھوک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ایسی باتیں بہبودِ آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی والے تو کر سکتے ہیں لیکن اِن کا اصل حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پزیر ممالک کی آبادی کم کرنے اور کم رکھنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے غیر عقلی اور غیر فطر ی طریقے متعارف کروائے۔ اِن غیر فطری فیصلوں کی بنا پرخود اُن کے ہاں طرح طرح کے مسائل نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر کم بچے خوشحال گھرانے کے نعرے نے ایسا کام دکھایا کہ آج مغرب میں بچے کئی جگہوں پر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ وہاں ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں بچے نہ ہونے کی بِنا پر اسکول تک بند کر دینے پڑے۔ بوڑھوں کی آبادی میں نہایت تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ترقی پزیر ممالک کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ چین نے کچھ عرصہ قبل ایک خاندان ایک بچے کی پالیسی اپنائی تھی۔ آج آسٹریلیا کے تحقیق کار بتا رہے ہیں پالیسی کے نتیجے میں قنوطیت زدہ نسل پیدا ہوئی ہے۔ تنہائی کا مارا ایک خاندان کا ایک بچہ کم قابلِ بھروسہ اور خطرات سے گریزاں ہے۔
برطانیہ کے انسٹیٹیوٹ آف مکینیکل انجینئیرز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی کُل غذا کا نصف سے زائد ضایع ہو جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس چار ارب ٹن خوراک پیدا ہوتی ہے۔ اس کا نصف یا اس سے کم ہر برس ضایع ہو جاتا ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر جنوب مشرق ایشاء میں چاول کی کُل پیداوار کا 37 سے 80 فی صد تک ضایع ہو جاتا ہے۔ (کولن برائون)۔ شمالی اٹلانٹک میں ہر برس تئیس لاکھ ٹن مچھلی ضایع کر دی جاتی ہے۔ یورپ میں پکڑی جانے والی چالیس سے ساٹھ فی صد تک مچھلی ضایع کر دی جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق برطانیہ عظمیٰ میں بیس سے چالیس فی صد پھل اور سبزیاں دکان تک پہنچنے سے قبل رد کر کے ضایع کر دیے جاتے ہیں۔ یہاں کے گھروں میں ضایع کی جانے والی صرف روٹی اگر غذائی قلت کے شکار افراد تک پہنچ جائے تو دنیا کے تین کروڑ فاقہ زدہ عوام بھوک اور تغذیے کی کمی سے نکل آئیں۔ کھیت سے پلیٹ تک آتے آتے یہاں ہر برس دو کروڑ ٹن اناج ضایع ہو جاتا ہے۔ مختلف امدادی ادارے غذا کے ضایع ہونے کا ایک عرصے سے واویلا کرتے آئے ہیں۔ ''سیو دی چلڈرن'' کا کہنا ہے کہ دنیا میں بچوں کی ضروریات سے زیادہ اناج ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہر برس تئیس لاکھ سے زائد بچے بھوک کا شکار ہو کر لقمہئِ اجل بن جاتے ہیں۔ بینڈن کوکس کا کہنا ہے کہ والدین کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ خود کھائیں یا بچوں کو کھلائیں؟
خدا ہر برس دنیا والوں کو اتنا اناج دیتا ہے جو ہماری دو برس کی غذائی ضروریات سے بھی زائد ہوتا ہے۔ یہ زمینی خدائوں کا نظام اور تقسیم کا مسئلہ ہے جس نے بھوک اور فاقہ زدگی کو کروڑوں افراد کی تقدیر بنا دیا ہے۔