تمہاری یاد سے دل کا نگر آباد رکھتے ہیں

پتہ نہیں آنکھوں میں آنسو کیوں آ جاتے ہیں اور یہ دل میں، پتہ نہیں درد کیوں ہونے لگتا ہے؟

لاہور:
قاضی حسین احمد، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔ جب یہ دل کو دکھانے والی اور افسردہ کردینے والی خبر ملی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ دل غم سے بوجھل ہو گیا، پورا گھر سوگوار ہو گیا، وہ تمام لمحات ذہن کے پردے پر تازہ ہو گئے جو مختصر سے وقت میں یادوں میں قید ہو گئے تھے۔

زمانہ طالب علمی کا ذکر ہے، کراچی میں جماعت کا ایک پروگرام تھا، ختم ہونے کے بعد علم ہوا کہ قاضی صاحب باہر والے کمرے میں صحافیوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ اس سے پہلے قاضی صاحب کو براہ راست دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ان کو دیکھنے اور ان سے گفتگو کا بہت اشتیاق تھا اور طالب علمی میں جذبہ اور جوش کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے لہٰذا چند لڑکیوں کو جو ہماری ہی طرح قاضی صاحب کی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھیں، جمع کیا اور چپکے سے وہاں سے کھسک لیے۔ باہر کا کمرہ صحافیوں سے بھرا ہوا تھا، قاضی صاحب مصروف گفتگو تھے، صحافی ہمہ تن گوش تھے، ہم نے دروازے پر کھڑے صاحب سے ایک منٹ کی درخواست کی۔ دروازے تک تو پہنچ ہی چکے تھے، وہ بے چارے کیا منع کرتے، ان کے ہاں کہتے ہی ہم چاروں طالبات کمرے میں گھس گئیں۔

قاضی صاحب نے ہمیں اندر آتے دیکھا تو اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ اتنا احترام، اتنا ادب، ان کو اٹھتا دیکھ کر تمام صحافی کھڑے ہو گئے، قاضی صاحب ہماری طرف آئے، کتنا روشن چہرہ تھا، مسکراتا ہوا، شفقت بھرا۔ میں اپنے والد صاحب کے سایہ شفقت سے بچپن میں ہی محروم ہو گئی تھی، جب سے مجھے ہر پروقار شفیق شخصیت میں اپنے والد صاحب کی ہی شبیہہ نظر آتی ہے۔ ہم نے سلام کیا اور کہا کہ قاضی صاحب! آپ کو دیکھنے کی بہت آرزو تھی۔ آج اللہ نے پوری کر دی۔ بس آپ کو سلام کرنے آئے تھے۔ قاضی صاحب نے ہماری آواز کی کپکپاہٹ محسوس کر لی۔ ''وعلیکم السلام! میری بچیو!'' وہ آگے بڑھے، ہمارے سروں پر ہاتھ رکھا، دعا دی ''اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو، آپ کو خوش رکھے''۔ میں نے ان کا لمس، ان کا شفقت بھرا ہاتھ کا سایہ اپنے سر پر محسوس کیا۔

باپ ایسے ہی تو ہوتے ہیں، اتنے ہی شفیق، اتنے ہی محبت والے اور میں ان کو دیکھتے ہوئے بس یہ سوچ رہی تھی کہ قاضی صاحب مجھے اتنے اچھے لگتے ہیں بالکل ابا کی طرح لگتے ہیں یہ تو، تو یہ اپنی بیٹیوں کو کتنے پیارے لگتے ہوں گے۔ واپس تو آ گئی مگر ان کی شخصیت کا سحر ساتھ ہی لے آئی۔ پھر شاہ فیصل مسجد کا گراؤنڈ تھا اور اجتماع عام، قریب ہی ایک باوقار خوبصورت خاتون ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ کھڑی تھیں، بچہ اپنے سامان کے لیے پریشان تھا اور خاتون اسے تسلی دے رہی تھیں کہ مل جائے گا، اللہ پر بھروسہ کرو۔


اتنے میں ایک خوبصورت حسین لڑکی ایک بستر بند گھسیٹتے ہوئے وہاں لے آئی۔ خاتون نے بستر بند دیکھ کر اسے ہدایت کی کہ اسے مردانے میں بھجوا دو کہہ دینا کہ قاضی صاحب کا بستر ہے۔ نام سن کر ہم نے تعارف حاصل کیا تو پتہ چلا کہ وہ محترم خاتون قاضی صاحب کی اہلیہ اور اور وہ لڑکی ان کی بیٹی اور نواسہ ہے۔ زمین پر چادر بچھا کر بیٹھی ہوئی یہ خاتون امیر جماعت اسلامی پاکستان کی اہلیہ ہیں۔ اتنی سادگی، اتنی پرہیزگاری، نہ ان کے لیے کوئی امتیازی جگہ اور نہ امتیازی کمرہ، نہ کوئی نخرہ اور نہ کوئی اہتمام۔ سب کی طرح وہ بھی عام لوگوں میں شامل تھیں۔ ان سے مل کر، رہن سہن دیکھ کر اندازہ ہوا کہ قاضی صاحب کی فیملی میں کس قدر سادگی، بے نیازی اور آخرت کی لگن ہے۔

اس کے بعد سے بہت سارے پروگرامز میں قاضی صاحب کو دیکھتی رہی، سنتی رہی۔ میری ایک عادت ہے کہ جب تک مقرر کو دیکھ کر نہ سنوں، تقریر کا مزہ نہیں آتا۔ اس لیے جہاں بھی پروگرام ہوتا، کسی نہ کسی طرح اسٹیج کے قریب پہنچ جاتی اور پھر وہیں بیٹھ کر پروگرام سنتی۔ پتہ تو چلے کہ کون بول رہا ہے اور کیا بول رہا ہے؟ شخصیت کا تاثر آپ کی گفتگو کو موثر اور جاندار بنا دیتا ہے اور پھر ایسا ہوا کہ ہمارے اسکول کی تعمیر کا منصوبہ بنا۔ طے پایا کہ سنگ بنیاد قاضی حسین احمد سے رکھوایا جائے۔ ہم بہت خوش ہوئے، تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں، مگر رات کراچی میں ہنگامے میں جماعت کے کارکنان شہید کر دیے گئے۔ لہٰذا پروگرام عین وقت پر کینسل کرنا پڑا۔ قاضی صاحب کراچی آئے ضرور، مگر سنگ بنیاد رکھنے نہیں بلکہ شہید کارکنان کی نماز جنازہ پڑھانے۔

پھر اسکول کی تعمیر شروع ہو گئی اور اللہ کے فضل و کرم سے مکمل بھی ہو گئی۔ پھر طے پایا کہ سنگ کشائی قاضی صاحب کے ہاتھوں کروائی جائے۔ اس وقت تک قاضی صاحب بیمار رہنے لگے تھے۔ ایک آپریشن بھی ہو چکا تھا، بہرحال پروگرام طے ہوا۔ وقت مقررہ پر قاضی صاحب ہمارے درمیان افتتاحی تقریب کے لیے موجود تھے۔ وہی شفیق انداز، وہی محبت بھرا لمس اور وہی اللہ کو یاد دلانے والی باتیں۔ وہ سب ہی کے ہر دلعزیز تھے، کیا اپنے کیا پرائے۔ شخصیت میں ایک سحر تھا، ایک وقار تھا، نوجوان تو ان کے دیوانے تھے۔ ان کا مقبول نعرہ تھا ''بیٹے کس کے؟ قاضی کے''۔ قاضی صاحب سب سے محبت سے ملتے تھے۔ ہمیشہ نرم لہجے میں گفتگو فرماتے، کبھی غصے میں نہیں دیکھا، اپنے پرائے سب ان کی عزت کرتے، چہرے پر اللہ نے اعمال کا نور دیا تھا، گفتگو تھی کہ بہتے پانی کی روانی، الفاظ جیسے موتی کی طرح چمکتے، قرآنی آیات کے حوالے، احادیث کا تذکرہ، اقبال کے اشعار، حافظ اور سعدی کی فارسی شاعری کا ترنم، ان کی تقریر، ان کا انداز آج بھی سماعتوں میں رس گھولتا جاتا ہے۔

ہم تو جیسے ان سے کبھی دور ہی نہ تھے اور وہ تو جیسے کبھی یہاں سے گئے ہی نہ تھے۔ کون کہتا ہے کہ مرنے والے دور ہو جاتے ہیں؟ کوئی پوچھے ہم سے، یہ جو دل ہے ناں یہ یہاں آ جاتے ہیں، بسیرا کرنے، نظروں سے دور ہو جاتے ہیں مگر دل میں بس جاتے ہیں، ایک درد کی صورت، کوئی کیا جانے کہ ایسے کتنے درد انسان سنبھالے پھرتا ہے جو ذرا چھلک جائے تو دنیا ہی ڈوب جائے۔ قاضی صاحب دنیا سے تو گئے مگر دل میں اب بھی بسیرا ہے ان کا، مگر پھر بھی، جب جب انھیں یاد کرتے ہیں پتہ نہیں آنکھوں میں آنسو کیوں آ جاتے ہیں اور یہ دل میں، پتہ نہیں درد کیوں ہونے لگتا ہے؟

''اور ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔''
Load Next Story