انتخابات کا موسم پہلاحصہ
قومی حیات کے 5سال غارت ہو گئےمگر ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ بے انتہا ناقص کارکردگی کے باوجود اپنی تعریف کیے تھکتے نہیں۔
ISLAMABAD:
ملک میں انتخابات کے موسم کی آمد آمد ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مارچ کے مہینے میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ آئینی طور پر اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات نوے دنوں کے اندر منعقد ہونے ہیں۔ بہرحال اس اعلان کے بعد پاکستان کی مخصوص انتخابی سیاست کا آغاز ہو جائے گا۔ گو اس کی شروعات تو2011ء کی آخری سہ ماہی میں اس وقت ہو گئی تھی، جب عمران خان نے لاہور میں ایک بہت بڑا عوامی جلسہ منعقد کر کے سب کو چونکا دیا تھا۔ جس کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ جلسہ ملکی سیاست کا ایک نیا مو ڑ ثابت ہوا، جہاں ایک طرف تو انتخابی سیاست کی طرف پیش قدمی ہوئی جب کہ دوسری جانب عمران خان کی تحریک انصاف کو پہلی بار حقیقی معنوں میں سیاسی پہچان ملی جس کے بعد خاص طور پر میاں صاحبان کے سامنے ایک نیا سیاسی چیلنج کھڑا ہو گیا۔
جسے وہ اب تک Miscalculate کر رہے تھے اور اب ان کو ایک طرف جہاں زرداری۔ چوہدری اتحاد کا سامنا ہے، وہاں دوسری جانب انھیں عمران خان کی سیاست کا توڑ بھی تلاش کرنا ہے۔ جسے وہ اب کم از کم پنجاب کی حد تک underestimateنہیں کر سکتے۔ پاکستان کی تاریخ کی طرح اس کے انتخابات کی تاریخ بھی اتنی تابناک نہیں رہی ۔ آج ایک عام پاکستانی جب پیچھے کی جانب نظر دوڑاتا ہے تو اسے واقعات، حادثات اور سانحات کی دل دکھا دینے اور دہلا دینے والی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔ جو کسی بھی ملک کی جڑیں ہلا دینے کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مگر ارض وطن اور اس میں بسنے والے نادار عوام کے برداشت کرنے اور صبر پر اکتفا کرنے کی سرحدوں کی بھی شاید کوئی حد نہیں ہے۔ وگرنہ جان لیوا واقعات کا یہ طوفان تو مسلسل ملک کو ہلاتا رہا ہے۔ جس کے تھمنے کا ایک بھی عندیہ آج تک آنکھوں کو نظر نہیں آیا۔
70 کا سال پہلے جمہوری انتخابات کی نوید لے کر آیا تھا مگر پھر قوم نے دیکھا کہ اس سلسلے کی تان کہاں پر ٹوٹی۔ مخصوص طبقات کے مفادات کی کہانی ملک کے دو لخت ہونے پر اختتام پذیر ہوئی مگر اس دل سوز سانحے سے سبق سیکھنے کی توفیق بھلا آج تک کس میں پیدا ہو سکی ہے۔ اس کے بعد 77ء کے انتخابات آئے، وقت سے پہلے منعقد کرائے گئے ان انتخابات پر تاریخی دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے۔ ان انتخابا ت کے نتیجے میں ہونیوالے حالات اور واقعات نے تو جہہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی اور بندوق کے بل بوتے پر اقتدار کی مسند پر ایک اور جنرل قبضہ کر کے براجمان ہو گیا جس نے ملک کو اندھیروں کے حوالے کر دیا۔ قوم اور نادار ملک ایک بار پھر وردی والوں کی فصاحت اور بلاغت کے تابع ہو گیا تھا اور یہ کوئی ایک دو ماہ یا سال پر نہیں بلکہ پورے گیارہ سال پر محیط ایک طویل دورانیے کا عذاب تھا، جو بزور بندوق مسلط ہو چکا تھا، اس بدترین دور کا عکس آج بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ اپنے طرز کی فصاحت اور بلاغت کے اس تاریک دور میں 85ء کے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ایک انتہائی controlled democracy وجود میں لائی گئی تھی، اور جس کی باگیں ایک انتہائی شریف انسان کے حوالے یہ سوچ کر کی گئی تھیں کہ یہ تو ایک ایک اشارے کا پابند ہو گا اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتا رہے گا مگر شرافت بھی اپنے اندر ایک طاقت رکھتی ہے۔ جونیجو صاحب نے بھی اپنے اندر موجود شرافت کی طاقت کو یکجا کیا اور لڑ گئے۔
اس کے بعد 88ء کے انتخابات آئے، قوم نے پرانے خوابوں کو شیلفز سے نکالا، انھیں جھاڑا پھونکا اور اپنی آنکھوں کے سامنے سجا کے رکھا۔ قوم سے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا گیا مگر یہ عوامی دور گھوڑوں کو پستے اور بادام کھلانے سے شروع ہو کر وہیں پر ختم ہو گیا جب کہ غریب لوگوں کی قربانیاں لا حاصل کی جستجو بن کر آج بھی دشت کی مسافر ہیں۔ ( حد تو یہ ہے کہ چالیس برس بیت چکے ہیں مگر جمہوریت پسندوں کے پاس آج بھی ایک ہی نعرہ ہے، روٹی، کپڑا اور مکان، اس بات پر افسوس کے علاوہ اورکیا کیا جا سکتا ہے) اس کے بعد 90ء کے انتخابات آئے، جس کی کہانی تو اب قصہ عام بن چکی ہے۔ ان انتخابات میں اسلام اور جمہوریت، دونوں ناموں کو استعمال کر کے ایک اتحاد بنایا گیا۔ اور انتخابی لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ مگر اس بے ثمر جمہوریت کا انجام بھی پہلی والی سے الگ نہ ہوا۔ آمریت کی پیداوار آئینی شق (582b) نے تیسری بار حکومت کا قتل عام کیا۔ پھر 93ء کا سال آیا تو روٹی،کپڑا اور مکان والے اپنا ترنگا لے کر واپس میدان میں لوٹ آئے۔ مگر اس بار بھی کہانی کچھ مختلف نہ تھی، کیونکہ اس بار بھی عوام پستے رہے اور گھوڑے پستے اور بادام کھاتے رہے۔
عام آدمی کی عوامی اقتدار تک رسائی ناممکن رہی اور لوگ ایک بار پھر روٹی کپڑا اور مکان سے محروم رہے۔ اس زمانے میں ایک تجزیہ نگار نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ''میاں نواز شریف گئے، محترمہ بینظیر بھٹو آ گئیں، اور اب اسلام آباد کی سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی سرکاری گاڑیوں پر پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ مسلم لیگ کا جھنڈا ہٹا کر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ باقی کچھ بھی نہیں بدلا ہر چیز وہی ہے'' قوم نے جمہوریت کے نام پر ایک اور sitcom دیکھ لیا اور جمہوریت پسندوں کی بوریا بستر لپیٹ کر روانگی پر سکھ کا سانس لیا۔ مگر جمہوریت پسند عوام اور جمہوریت خود تشنہ ہی رہی۔ پھر 97ء کے انتخابات، کیا کہنے، دو تہائی اکثریت۔ سیاہ اور سفید کے مالکانہ حقوق۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے دکھوں اور درد کا مداوا کیا جاتا۔ مگر اب کے تو حکمرانوں کو امیر المومنیں بننے کا بھوت سوار ہو گیا تھا۔ ہمیشہ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہنے کی خواہش نے جمہوریت کی کشتی کو ہی الٹ دیا اور ملک ایک بار پھر وردی والوں کی فصاحت اور بلاغت کا تابع ہو گیا۔ جنہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے 2002ء میں انتخابات منعقد کروائے اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا ایک بار پھر جنم ہوا۔ پارلیمانی تاریخ میں لین دین اور خرید و فروخت کا ایک نیا باب تحریر ہوا۔ جس کے نتیجے میں جمالی صاحب وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے۔ پرویز مشرف کو باس کہتے رہے۔ مگر افسوس اتنی تابعداری بھی ان کے کام نہ آ سکی۔ بقول شاعر
لائی حیات، آئی قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
اور اب 5سال قبل 2008ء میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر ایک اور انتخابات منعقد کیے گئے۔ لوگوں کی ایک غالب اکثریت نے اس کے ساتھ نئی امیدیں وابستہ کر لیں۔ چالیس برسوں سے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کرنے والے خواتیں و حضرات ایک بار پھر جمہوریت زندہ آباد کے نعرے لگاتے ہوئے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ عوام نے ٹوٹے دلوں سے ایک بار پھر اپنے پرانے خوابوں کو شیلفز سے نکالا، انھیں ایک بار پھر جھاڑا پھونکا اور یہ سوچ کر انھیں سجایا کہ شاید قیادت تاریخ سے کچھ سیکھ گئی ہو۔
اب کے برس بھی رہ گئے پیاسے، آگ لگے اس ساون کو
غریب عوام کے مقدر میں ناداری ہی لکھی تھی تو سو اسے ملی۔ قومی حیات کے 5سال غارت ہو گئے۔ مگر ہٹ دھرمی کی انتہا یہ ہے کہ بے انتہا ناقص کارکردگی کے باوجود موصوف اپنی تعریف کیے تھکتے ہی نہیں اور اب ایک اور انتخاب سر پر آن کھڑا ہوا ہے اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مخصوص انتخابی سیاست کے پیش نظر روایتی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ جس میں آنیوالے دنوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ نئی سیاسی صف بندیوں کے اس ماحول میں جمہوریت کی بقا اور استحکام کا آرگیومنٹ پیش کر کے وفاداریاں تبدیل کرنا پاکستانی سیاست میں عام سی بات ہے اور اس میں تبدیلی کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ آئیے اس سیاسی ماحول کے تناظر میں چاروں صوبوں کا انتخابی جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے بڑا صوبہ پنجاب جہاں اب کے سیاست کا سب سے بڑا اکھاڑہ سجنے والا ہے۔ اس بار پنجاب میں اصل مقابلہ زرداری۔ چوہدری اتحاد، نواز لیگ، اور تحریک انصاف کے درمیان متوقع ہے۔ پنجاب میں اپر اور لوئر کی سیاسی، سماجی اور معاشی dynamics ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں علاقوں کی سیاست، ایشوز اور انتخابی صورتحال ایک دوسرے سے الگ الگ ہے۔ لاھور سے پنڈی اور بقیہ وسطی پنجاب وقت ملک کے دوسرے علاقوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے جہاں صنعتی جال' شاندار روڈ نیٹ ورک اور جدید بنیادوں پر کی جانیوالی زراعت ترقی کی ضامن ہے۔ اس علاقے میں ملک کی emerging مڈل کلاس بہت تیزی سے جنم لے رہی ہے۔ گو کمزور گورننس، کرپشن، انرجی کرائسس اور دوسرے کئی اور مسائل کی وجہ سے اس علاقے کو بھی اچھا خاصہ سیٹ بیک ملا ہے تاھم یہ اب بھی ملک کے باقی حصوں سے قدرے بہتر ہے۔ اس علاقے میں لوگ زراعتی سماج کی مخصوص نفسیات اور سماجی ڈھانچے کو چھوڑ کر صنعتی سماج اور اس کی ضروریات کو مکمل طور پر اختیار کرنے کے حوالے سے desperate نظر آتے ہیں۔ یہ وہی بیلٹ ہے، جہاں ذرایع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی پہنچ سب سے زیادہ ہے اور اسی وجہ سے یہاں آگہی کی سطح بھی باقی علاقوں سے قدرے بلند ہے مگر پورے ملک کی طرح یہ علاقہ بھی ابھی تک ذات نسل کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکا خاص طور پر دیہی علاقے اس تفریق سے جان نہیں چھڑا پائے۔
(جاری ہے)
ملک میں انتخابات کے موسم کی آمد آمد ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مارچ کے مہینے میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ آئینی طور پر اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات نوے دنوں کے اندر منعقد ہونے ہیں۔ بہرحال اس اعلان کے بعد پاکستان کی مخصوص انتخابی سیاست کا آغاز ہو جائے گا۔ گو اس کی شروعات تو2011ء کی آخری سہ ماہی میں اس وقت ہو گئی تھی، جب عمران خان نے لاہور میں ایک بہت بڑا عوامی جلسہ منعقد کر کے سب کو چونکا دیا تھا۔ جس کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ جلسہ ملکی سیاست کا ایک نیا مو ڑ ثابت ہوا، جہاں ایک طرف تو انتخابی سیاست کی طرف پیش قدمی ہوئی جب کہ دوسری جانب عمران خان کی تحریک انصاف کو پہلی بار حقیقی معنوں میں سیاسی پہچان ملی جس کے بعد خاص طور پر میاں صاحبان کے سامنے ایک نیا سیاسی چیلنج کھڑا ہو گیا۔
جسے وہ اب تک Miscalculate کر رہے تھے اور اب ان کو ایک طرف جہاں زرداری۔ چوہدری اتحاد کا سامنا ہے، وہاں دوسری جانب انھیں عمران خان کی سیاست کا توڑ بھی تلاش کرنا ہے۔ جسے وہ اب کم از کم پنجاب کی حد تک underestimateنہیں کر سکتے۔ پاکستان کی تاریخ کی طرح اس کے انتخابات کی تاریخ بھی اتنی تابناک نہیں رہی ۔ آج ایک عام پاکستانی جب پیچھے کی جانب نظر دوڑاتا ہے تو اسے واقعات، حادثات اور سانحات کی دل دکھا دینے اور دہلا دینے والی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔ جو کسی بھی ملک کی جڑیں ہلا دینے کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مگر ارض وطن اور اس میں بسنے والے نادار عوام کے برداشت کرنے اور صبر پر اکتفا کرنے کی سرحدوں کی بھی شاید کوئی حد نہیں ہے۔ وگرنہ جان لیوا واقعات کا یہ طوفان تو مسلسل ملک کو ہلاتا رہا ہے۔ جس کے تھمنے کا ایک بھی عندیہ آج تک آنکھوں کو نظر نہیں آیا۔
70 کا سال پہلے جمہوری انتخابات کی نوید لے کر آیا تھا مگر پھر قوم نے دیکھا کہ اس سلسلے کی تان کہاں پر ٹوٹی۔ مخصوص طبقات کے مفادات کی کہانی ملک کے دو لخت ہونے پر اختتام پذیر ہوئی مگر اس دل سوز سانحے سے سبق سیکھنے کی توفیق بھلا آج تک کس میں پیدا ہو سکی ہے۔ اس کے بعد 77ء کے انتخابات آئے، وقت سے پہلے منعقد کرائے گئے ان انتخابات پر تاریخی دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے۔ ان انتخابا ت کے نتیجے میں ہونیوالے حالات اور واقعات نے تو جہہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی اور بندوق کے بل بوتے پر اقتدار کی مسند پر ایک اور جنرل قبضہ کر کے براجمان ہو گیا جس نے ملک کو اندھیروں کے حوالے کر دیا۔ قوم اور نادار ملک ایک بار پھر وردی والوں کی فصاحت اور بلاغت کے تابع ہو گیا تھا اور یہ کوئی ایک دو ماہ یا سال پر نہیں بلکہ پورے گیارہ سال پر محیط ایک طویل دورانیے کا عذاب تھا، جو بزور بندوق مسلط ہو چکا تھا، اس بدترین دور کا عکس آج بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ اپنے طرز کی فصاحت اور بلاغت کے اس تاریک دور میں 85ء کے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ایک انتہائی controlled democracy وجود میں لائی گئی تھی، اور جس کی باگیں ایک انتہائی شریف انسان کے حوالے یہ سوچ کر کی گئی تھیں کہ یہ تو ایک ایک اشارے کا پابند ہو گا اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتا رہے گا مگر شرافت بھی اپنے اندر ایک طاقت رکھتی ہے۔ جونیجو صاحب نے بھی اپنے اندر موجود شرافت کی طاقت کو یکجا کیا اور لڑ گئے۔
اس کے بعد 88ء کے انتخابات آئے، قوم نے پرانے خوابوں کو شیلفز سے نکالا، انھیں جھاڑا پھونکا اور اپنی آنکھوں کے سامنے سجا کے رکھا۔ قوم سے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا گیا مگر یہ عوامی دور گھوڑوں کو پستے اور بادام کھلانے سے شروع ہو کر وہیں پر ختم ہو گیا جب کہ غریب لوگوں کی قربانیاں لا حاصل کی جستجو بن کر آج بھی دشت کی مسافر ہیں۔ ( حد تو یہ ہے کہ چالیس برس بیت چکے ہیں مگر جمہوریت پسندوں کے پاس آج بھی ایک ہی نعرہ ہے، روٹی، کپڑا اور مکان، اس بات پر افسوس کے علاوہ اورکیا کیا جا سکتا ہے) اس کے بعد 90ء کے انتخابات آئے، جس کی کہانی تو اب قصہ عام بن چکی ہے۔ ان انتخابات میں اسلام اور جمہوریت، دونوں ناموں کو استعمال کر کے ایک اتحاد بنایا گیا۔ اور انتخابی لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ مگر اس بے ثمر جمہوریت کا انجام بھی پہلی والی سے الگ نہ ہوا۔ آمریت کی پیداوار آئینی شق (582b) نے تیسری بار حکومت کا قتل عام کیا۔ پھر 93ء کا سال آیا تو روٹی،کپڑا اور مکان والے اپنا ترنگا لے کر واپس میدان میں لوٹ آئے۔ مگر اس بار بھی کہانی کچھ مختلف نہ تھی، کیونکہ اس بار بھی عوام پستے رہے اور گھوڑے پستے اور بادام کھاتے رہے۔
عام آدمی کی عوامی اقتدار تک رسائی ناممکن رہی اور لوگ ایک بار پھر روٹی کپڑا اور مکان سے محروم رہے۔ اس زمانے میں ایک تجزیہ نگار نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ''میاں نواز شریف گئے، محترمہ بینظیر بھٹو آ گئیں، اور اب اسلام آباد کی سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی سرکاری گاڑیوں پر پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ مسلم لیگ کا جھنڈا ہٹا کر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ باقی کچھ بھی نہیں بدلا ہر چیز وہی ہے'' قوم نے جمہوریت کے نام پر ایک اور sitcom دیکھ لیا اور جمہوریت پسندوں کی بوریا بستر لپیٹ کر روانگی پر سکھ کا سانس لیا۔ مگر جمہوریت پسند عوام اور جمہوریت خود تشنہ ہی رہی۔ پھر 97ء کے انتخابات، کیا کہنے، دو تہائی اکثریت۔ سیاہ اور سفید کے مالکانہ حقوق۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے دکھوں اور درد کا مداوا کیا جاتا۔ مگر اب کے تو حکمرانوں کو امیر المومنیں بننے کا بھوت سوار ہو گیا تھا۔ ہمیشہ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہنے کی خواہش نے جمہوریت کی کشتی کو ہی الٹ دیا اور ملک ایک بار پھر وردی والوں کی فصاحت اور بلاغت کا تابع ہو گیا۔ جنہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے 2002ء میں انتخابات منعقد کروائے اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا ایک بار پھر جنم ہوا۔ پارلیمانی تاریخ میں لین دین اور خرید و فروخت کا ایک نیا باب تحریر ہوا۔ جس کے نتیجے میں جمالی صاحب وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے۔ پرویز مشرف کو باس کہتے رہے۔ مگر افسوس اتنی تابعداری بھی ان کے کام نہ آ سکی۔ بقول شاعر
لائی حیات، آئی قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
اور اب 5سال قبل 2008ء میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر ایک اور انتخابات منعقد کیے گئے۔ لوگوں کی ایک غالب اکثریت نے اس کے ساتھ نئی امیدیں وابستہ کر لیں۔ چالیس برسوں سے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کرنے والے خواتیں و حضرات ایک بار پھر جمہوریت زندہ آباد کے نعرے لگاتے ہوئے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ عوام نے ٹوٹے دلوں سے ایک بار پھر اپنے پرانے خوابوں کو شیلفز سے نکالا، انھیں ایک بار پھر جھاڑا پھونکا اور یہ سوچ کر انھیں سجایا کہ شاید قیادت تاریخ سے کچھ سیکھ گئی ہو۔
اب کے برس بھی رہ گئے پیاسے، آگ لگے اس ساون کو
غریب عوام کے مقدر میں ناداری ہی لکھی تھی تو سو اسے ملی۔ قومی حیات کے 5سال غارت ہو گئے۔ مگر ہٹ دھرمی کی انتہا یہ ہے کہ بے انتہا ناقص کارکردگی کے باوجود موصوف اپنی تعریف کیے تھکتے ہی نہیں اور اب ایک اور انتخاب سر پر آن کھڑا ہوا ہے اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مخصوص انتخابی سیاست کے پیش نظر روایتی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ جس میں آنیوالے دنوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ نئی سیاسی صف بندیوں کے اس ماحول میں جمہوریت کی بقا اور استحکام کا آرگیومنٹ پیش کر کے وفاداریاں تبدیل کرنا پاکستانی سیاست میں عام سی بات ہے اور اس میں تبدیلی کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ آئیے اس سیاسی ماحول کے تناظر میں چاروں صوبوں کا انتخابی جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے بڑا صوبہ پنجاب جہاں اب کے سیاست کا سب سے بڑا اکھاڑہ سجنے والا ہے۔ اس بار پنجاب میں اصل مقابلہ زرداری۔ چوہدری اتحاد، نواز لیگ، اور تحریک انصاف کے درمیان متوقع ہے۔ پنجاب میں اپر اور لوئر کی سیاسی، سماجی اور معاشی dynamics ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں علاقوں کی سیاست، ایشوز اور انتخابی صورتحال ایک دوسرے سے الگ الگ ہے۔ لاھور سے پنڈی اور بقیہ وسطی پنجاب وقت ملک کے دوسرے علاقوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے جہاں صنعتی جال' شاندار روڈ نیٹ ورک اور جدید بنیادوں پر کی جانیوالی زراعت ترقی کی ضامن ہے۔ اس علاقے میں ملک کی emerging مڈل کلاس بہت تیزی سے جنم لے رہی ہے۔ گو کمزور گورننس، کرپشن، انرجی کرائسس اور دوسرے کئی اور مسائل کی وجہ سے اس علاقے کو بھی اچھا خاصہ سیٹ بیک ملا ہے تاھم یہ اب بھی ملک کے باقی حصوں سے قدرے بہتر ہے۔ اس علاقے میں لوگ زراعتی سماج کی مخصوص نفسیات اور سماجی ڈھانچے کو چھوڑ کر صنعتی سماج اور اس کی ضروریات کو مکمل طور پر اختیار کرنے کے حوالے سے desperate نظر آتے ہیں۔ یہ وہی بیلٹ ہے، جہاں ذرایع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی پہنچ سب سے زیادہ ہے اور اسی وجہ سے یہاں آگہی کی سطح بھی باقی علاقوں سے قدرے بلند ہے مگر پورے ملک کی طرح یہ علاقہ بھی ابھی تک ذات نسل کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکا خاص طور پر دیہی علاقے اس تفریق سے جان نہیں چھڑا پائے۔
(جاری ہے)