یہ کیسا ڈرامہ تھا…
لانگ مارچ اور دھرنے کے عوض ہمیں کیا ملا؟ کیا کھانسی، زکام، بخار کا تحفہ دینے کے لیے ہی ہمیں لے جایا گیا تھا؟
وہ تین راتیں میں نے کس کرب کے عالم میں گزاریں، بیان نہیں کر سکتا۔ ہر لمحہ اسی سوچ اور فکر کی نیش زنی میں گزرا کہ ہائے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے والوں پر اس شدت کی سردی میں کیا بیت رہی ہو گی؟ خواتین، بوڑھوں اور بچوں پر کیا قیامت گزر رہی ہو گی؟ میں یہاں کراچی میں جہاں کی سردی میں اسلام آباد جیسی سردی کی شدت نہیں، اپنے کمرے کے اندر گرم کپڑوں میں ملبوس اور گرم بستر میں کانپ رہا ہوں، کھلے آسمان کے نیچے دھرنا دینے والے ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑے کس طرح برداشت کر رہے ہوں گے؟ ان پر یہ رات کتنی بھاری ہو گی؟
میرے بیٹے نے آخر مجھ سے پوچھ ہی لیا ''میں گزشتہ دو راتوں سے دیکھ رہا ہوں، آپ بے چین بے چین سے نظر آ رہے ہیں۔ کیا بات ہے؟ کیسی بے قراری ہے؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ اگر کوئی تکلیف ہے تو بتائیے، ہم ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں آپ کو۔''
مجھے اپنی بے قراری کی وجہ اسے بتانی پڑی۔ میری باتیں سن کر میرے بیٹے نے بھنا کر کہا ''یہ بات آپ کے سوچنے اور پریشان ہونے کی نہیں، یہ بات تو مولانا صاحب کے سوچنے کی ہے جو دھرنا دینے والوں کے درمیان بم پروف کنٹینر کے نرم گرم اور پر تعیش بنکر میں پرسکون نیند سوتے ہیں۔''
پتہ نہیں انھیں کیسے نیند آتی ہو گی، میں نے اپنے آپ سے کہا۔ ٹی وی والے تو وہاں کے بارے میں بہت کچھ دکھاتے ہیں، مگر مولانا صاحب کو تو ان کے بنکر سے نکل کر سردی میں ٹھٹھرتے لوگوں کے درمیان ایک بار بھی نہیں دکھایا۔ اگر وہ نکل کر ان کے پاس آتے اور انھیں دم دلاسا دیتے تو یہ بات سمجھ میں آتی کہ وہ جن لوگوں کو انقلاب کا داعی بنا کر ان کے گھروں سے نکال کر یہاں تک لائے ہیں، ان کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ ٹی وی پر تو میں نے ایسے مناظر بار بار دیکھے ہیں کہ وہ اپنے بم پروف کنٹینر کے گولیوں سے محفوظ رہنے والے شیشے سے جھانکتے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے دھرنا دینے والوں سے کہتے ہیں۔
''قسم کھاؤ کہ تم لوگ مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے؟''
''جب تک تمہارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے، تم یہیں رہو گے؟''
اور قسموں کی زنجیر میں جکڑے دھرنے کے قیدی اپنے لیڈر کو یقین دلاتے ہیں ''ہم یہیں رہیں گے، جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے۔''
خدا جانے مولانا صاحب اور ان کے اہل کاروں نے اتنے لوگوں کو کیا پٹی پڑھا کر ان کے گھروں سے نکال کر یہاں پہنچایا۔ ہم نے تو ان میں سے بیشتر خواتین اور حضرات کی زبانی یہی سنا۔
ہمیں تو اپنے گھروں میں بجلی اور گیس میسر نہیں۔ شدید گرانی کی وجہ سے ضروریات زندگی حاصل نہیں۔ اس لیے ہم اپنے گھروں سے نکل کر یہاں آ گئے ہیں کہ اس دھرنے سے یہ مسائل حل ہو جائینگے۔شاید انھیں چارہ بنانے والوں نے ان کو یہی سبز باغ دکھایا ہو گا کہ ہم تمہارے سارے مسائل حل کرانے کے لیے ہی لانگ مارچ کر رہے ہیں، انھیں یقین آ گیا ہو گا کہ جب اتنا بڑا عالم دین کہہ رہا ہے تو سچ ہی کہہ رہا ہو گا۔ حالات کے مارے سیدھے سادھے لوگ سخت سردی میں اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے کہ چلو چند دنوں کی سختی سہنے کے بعد اگر ہماری زندگی آسان ہو جاتی ہے، بیروزگاری دور ہو جاتی ہے، اشیائے ضرورت سستی ہو جاتی ہیں، قتل و غارت بند ہو جاتی ہے، لوڈشیڈنگ ختم ہو جاتی ہے، بجلی اور گیس کے حصول میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے تو یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہو گا۔ مگر اب جب کہ دھرنا ختم ہو چکا ہے، اسلام آباد کے ڈی چوک سے دھرنا دینے والے واپس جا چکے ہیں تو وہ کیا سوچ رہے ہوں گے؟مولانا صاحب نے تو ڈی چوک میں چار روز تک جو اپنی ڈگڈگی بجائی، اپنی شعلہ نوائی کے کرتب دکھائے، حکومت اور حکمرانوں پر اپنے تیر، تبر چلائے ان سے تو یہی پتہ چلتا تھا کہ کوئی بہت بڑا دھماکا ہونے والا ہے، کوئی یادگار انقلاب آنے والا ہے، پاکستانی عوام کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ زور خطابت میں مولانا نے اسلام آباد کو کوفہ، حکمرانوں کو یزید اور خود کو سید الشہداء کا ماننے قرار دے دیا۔ حکومت کو کالعدم قرار دے دیا، حکمرانوں کو سابق حکمران کہہ دیا۔ ٹی وی ناظرین نے کیا کیا تماشا نہیں دیکھا، ''چلاؤ گولی، میرا سینہ موجود ہے، سب سے پہلے میں تمہاری گولیاں کھانے کو موجود ہوں۔''
شیخ صاحب کی یہ للکار ان کے شہادت پروف کنٹینر کے اندر سے آ رہی تھی۔ سید الشہداء نے تو
سر داد' نہ داد دست ' در دستِ یزید!
مگر ہماری گناہ گار نگاہیں ٹی وی اسکرین پر یہ ڈرامہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ ان سے ہاتھ ہی نہیں ملایا جا رہا ہے، انھیں گلے بھی لگایا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ معاہدے پر دستخط بھی کیے جا رہے ہیں۔دھرنا دینے والے، اپنے لیڈر کی اس قلابازی پر دھیان نہیں دے سکے ہوں گے، کیونکہ اس وقت وہ شدید سردی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، بارش کے پانی میں بھیگے ہوئے تھے، اپنے بیمار بچوں کی وجہ سے پریشان تھے، اور اپنے منہ سے چاہے جو کچھ کہیں، انھیں جو سبق پڑھایا گیا تھا، اسے رٹ کر سنا دیں، مگر سچ یہ ہے کہ اب یہاں ان کا رہنا محال ہوا جا رہا تھا، سو انھیں حکم ملتے ہی وہ چلے گئے ۔ گھر پہنچ کر جب انھیں سکون کا سانس لینا نصیب ہوا ہو گا تو وہ ضرور سوچیں گے۔ یہ سب کچھ کیا تھا؟ شیخ صاحب نے ہمارے سامنے جو معاہدہ پڑھ کر سنایا اس میں ہمارے مسائل کے کتنے حل تھے؟ نہ لوڈ شیڈنگ کا ذکر تھا، نہ گیس اور بجلی کی بحالی کے بارے میں کچھ کہا گیا، نہ گرانی کی آگ بجھانے کی کوئی کہانی سنائی گئی، نہ بے روزگاری کی کٹاری سے ہمیں بچانے کا کوئی معاہدہ کیا گیا۔
ان کی ایسی سوچ اس وقت اور شدید ہو جائے گی جب چار دنوں کی سردی اور بارش کا خمیازہ انھیں ابھی بھگتنا پڑے گا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کے عوض ہمیں کیا ملا؟ کیا کھانسی، زکام، بخار کا تحفہ دینے کے لیے ہی ہمیں لے جایا گیا تھا؟ اب انھیں خیال آئے گا کہ شیخ صاحب بار بار جو ہمیں قسموں کی زنجیر میں جکڑتے تھے تو انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ کہیں یہ لوگ (ہم لوگ) مجھے اور میری فیملی اور کارندوں کو آرام دہ اور محفوظ کنٹینر میں دیکھ کر بھاگ نہ کھڑے ہوں، کہیں یہ نہ مطالبہ کریں کہ آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے آ جائیں۔
میرے بیٹے نے آخر مجھ سے پوچھ ہی لیا ''میں گزشتہ دو راتوں سے دیکھ رہا ہوں، آپ بے چین بے چین سے نظر آ رہے ہیں۔ کیا بات ہے؟ کیسی بے قراری ہے؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ اگر کوئی تکلیف ہے تو بتائیے، ہم ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں آپ کو۔''
مجھے اپنی بے قراری کی وجہ اسے بتانی پڑی۔ میری باتیں سن کر میرے بیٹے نے بھنا کر کہا ''یہ بات آپ کے سوچنے اور پریشان ہونے کی نہیں، یہ بات تو مولانا صاحب کے سوچنے کی ہے جو دھرنا دینے والوں کے درمیان بم پروف کنٹینر کے نرم گرم اور پر تعیش بنکر میں پرسکون نیند سوتے ہیں۔''
پتہ نہیں انھیں کیسے نیند آتی ہو گی، میں نے اپنے آپ سے کہا۔ ٹی وی والے تو وہاں کے بارے میں بہت کچھ دکھاتے ہیں، مگر مولانا صاحب کو تو ان کے بنکر سے نکل کر سردی میں ٹھٹھرتے لوگوں کے درمیان ایک بار بھی نہیں دکھایا۔ اگر وہ نکل کر ان کے پاس آتے اور انھیں دم دلاسا دیتے تو یہ بات سمجھ میں آتی کہ وہ جن لوگوں کو انقلاب کا داعی بنا کر ان کے گھروں سے نکال کر یہاں تک لائے ہیں، ان کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ ٹی وی پر تو میں نے ایسے مناظر بار بار دیکھے ہیں کہ وہ اپنے بم پروف کنٹینر کے گولیوں سے محفوظ رہنے والے شیشے سے جھانکتے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے دھرنا دینے والوں سے کہتے ہیں۔
''قسم کھاؤ کہ تم لوگ مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے؟''
''جب تک تمہارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے، تم یہیں رہو گے؟''
اور قسموں کی زنجیر میں جکڑے دھرنے کے قیدی اپنے لیڈر کو یقین دلاتے ہیں ''ہم یہیں رہیں گے، جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے۔''
خدا جانے مولانا صاحب اور ان کے اہل کاروں نے اتنے لوگوں کو کیا پٹی پڑھا کر ان کے گھروں سے نکال کر یہاں پہنچایا۔ ہم نے تو ان میں سے بیشتر خواتین اور حضرات کی زبانی یہی سنا۔
ہمیں تو اپنے گھروں میں بجلی اور گیس میسر نہیں۔ شدید گرانی کی وجہ سے ضروریات زندگی حاصل نہیں۔ اس لیے ہم اپنے گھروں سے نکل کر یہاں آ گئے ہیں کہ اس دھرنے سے یہ مسائل حل ہو جائینگے۔شاید انھیں چارہ بنانے والوں نے ان کو یہی سبز باغ دکھایا ہو گا کہ ہم تمہارے سارے مسائل حل کرانے کے لیے ہی لانگ مارچ کر رہے ہیں، انھیں یقین آ گیا ہو گا کہ جب اتنا بڑا عالم دین کہہ رہا ہے تو سچ ہی کہہ رہا ہو گا۔ حالات کے مارے سیدھے سادھے لوگ سخت سردی میں اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے کہ چلو چند دنوں کی سختی سہنے کے بعد اگر ہماری زندگی آسان ہو جاتی ہے، بیروزگاری دور ہو جاتی ہے، اشیائے ضرورت سستی ہو جاتی ہیں، قتل و غارت بند ہو جاتی ہے، لوڈشیڈنگ ختم ہو جاتی ہے، بجلی اور گیس کے حصول میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے تو یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہو گا۔ مگر اب جب کہ دھرنا ختم ہو چکا ہے، اسلام آباد کے ڈی چوک سے دھرنا دینے والے واپس جا چکے ہیں تو وہ کیا سوچ رہے ہوں گے؟مولانا صاحب نے تو ڈی چوک میں چار روز تک جو اپنی ڈگڈگی بجائی، اپنی شعلہ نوائی کے کرتب دکھائے، حکومت اور حکمرانوں پر اپنے تیر، تبر چلائے ان سے تو یہی پتہ چلتا تھا کہ کوئی بہت بڑا دھماکا ہونے والا ہے، کوئی یادگار انقلاب آنے والا ہے، پاکستانی عوام کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ زور خطابت میں مولانا نے اسلام آباد کو کوفہ، حکمرانوں کو یزید اور خود کو سید الشہداء کا ماننے قرار دے دیا۔ حکومت کو کالعدم قرار دے دیا، حکمرانوں کو سابق حکمران کہہ دیا۔ ٹی وی ناظرین نے کیا کیا تماشا نہیں دیکھا، ''چلاؤ گولی، میرا سینہ موجود ہے، سب سے پہلے میں تمہاری گولیاں کھانے کو موجود ہوں۔''
شیخ صاحب کی یہ للکار ان کے شہادت پروف کنٹینر کے اندر سے آ رہی تھی۔ سید الشہداء نے تو
سر داد' نہ داد دست ' در دستِ یزید!
مگر ہماری گناہ گار نگاہیں ٹی وی اسکرین پر یہ ڈرامہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ ان سے ہاتھ ہی نہیں ملایا جا رہا ہے، انھیں گلے بھی لگایا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ معاہدے پر دستخط بھی کیے جا رہے ہیں۔دھرنا دینے والے، اپنے لیڈر کی اس قلابازی پر دھیان نہیں دے سکے ہوں گے، کیونکہ اس وقت وہ شدید سردی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، بارش کے پانی میں بھیگے ہوئے تھے، اپنے بیمار بچوں کی وجہ سے پریشان تھے، اور اپنے منہ سے چاہے جو کچھ کہیں، انھیں جو سبق پڑھایا گیا تھا، اسے رٹ کر سنا دیں، مگر سچ یہ ہے کہ اب یہاں ان کا رہنا محال ہوا جا رہا تھا، سو انھیں حکم ملتے ہی وہ چلے گئے ۔ گھر پہنچ کر جب انھیں سکون کا سانس لینا نصیب ہوا ہو گا تو وہ ضرور سوچیں گے۔ یہ سب کچھ کیا تھا؟ شیخ صاحب نے ہمارے سامنے جو معاہدہ پڑھ کر سنایا اس میں ہمارے مسائل کے کتنے حل تھے؟ نہ لوڈ شیڈنگ کا ذکر تھا، نہ گیس اور بجلی کی بحالی کے بارے میں کچھ کہا گیا، نہ گرانی کی آگ بجھانے کی کوئی کہانی سنائی گئی، نہ بے روزگاری کی کٹاری سے ہمیں بچانے کا کوئی معاہدہ کیا گیا۔
ان کی ایسی سوچ اس وقت اور شدید ہو جائے گی جب چار دنوں کی سردی اور بارش کا خمیازہ انھیں ابھی بھگتنا پڑے گا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کے عوض ہمیں کیا ملا؟ کیا کھانسی، زکام، بخار کا تحفہ دینے کے لیے ہی ہمیں لے جایا گیا تھا؟ اب انھیں خیال آئے گا کہ شیخ صاحب بار بار جو ہمیں قسموں کی زنجیر میں جکڑتے تھے تو انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ کہیں یہ لوگ (ہم لوگ) مجھے اور میری فیملی اور کارندوں کو آرام دہ اور محفوظ کنٹینر میں دیکھ کر بھاگ نہ کھڑے ہوں، کہیں یہ نہ مطالبہ کریں کہ آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے آ جائیں۔