خان صاحب آپ کو مبارک ہو
انٹرا پارٹی الیکشن لاکھ اختلاف کےباوجودٹھنڈی ہوا کاجھونکا ہیں، کاش یہ جھونکےجمہوریت اور تبدیلی کی آندھی کاموجب بن جائے
SUKKUR:
بچپن میں شرارتیں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کی ہیں، کھیل تماشے کا شوق بھی رہا ہے، کھیل کے دوران ہمیشہ طاقتور لوگوں کے ساتھ کھڑا رہتا تاکہ میں ہی جیت سکوں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود کے لئے ہمیشہ کمزور حریف کا انتخاب کرتا ہے، طاقتور حریف کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ دیہاتوں میں چلے جائیں تو پنڈ کا چوہدری یا گوٹھ کا سردار ہی سب کچھ ہوتا ہے اور اِس کی طرف داری ہی گاؤں میں کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے، طبقاتی تقسیم ایسی کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا محاورہ بالکل صادق آتا ہے۔
پاکستان میں بھی قوم خود کے لئے آسان ہدف، کمزور حریف، چھوٹی منزلیں اور شارٹ کٹس کی تلاش میں مصروف رہتی ہے۔ ہم مطلق العنانیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ آمریت کی بانہوں میں سکون کے متلاشی ہیں۔ اِس ساری تمہید کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کے نومنتخب چیئرمین عمران خان کو انٹرا پارٹی انتخابات میں کامیابی پر بھرپور مبارکباد پیش کرنا تھا۔
جناب من! آپ کو مبارک ہو تحریک انصاف کے کارکنان نے آپ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، آپ کو مبارک ہو کہ آپ کا سارا پینل سرخرو ہوا، آپ الیکشن کمیشن کے حکم پر انتخابات کروانے پر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں، آپ نے انٹرا پارٹی الیکشن کروا کر اپنا انتخابی نشان 'بلا' بھی محفوظ کرلیا، آپ کے انتخابات نے ملک میں جمہوریت کا بول بالا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، نوجوانوں، بزرگوں اور سیاسی کارکنوں کو آپ نے پارٹی کے اندر متحرک کیا۔
خان صاحب کے انتخابات پر تحفظات تو ہوسکتے ہیں لیکن انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کروا کر باقی سیاسی جماعتوں کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ تحریک انصاف سے قبل قومی سیاست میں ایک ہی جماعت جمہوری سمجھی جاتی تھی، جو اُن کی اتحادی بھی ہے۔ جماعت اسلامی کا طریقہ انتخاب شفافیت اور دیگر معاملات میں بہترین ہے۔ خان صاحب کو اُن سے کچھ تجربات حاصل کرلینے چاہیئں۔ گوکہ تحریک انصاف میں ایسے تجربے اُن کے لئے نیک شگون تو نہیں ہوں گے مگر مستقبل میں اِس کے دو رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے اعظم سواتی کو چیف الیکشن کمیشن لگایا، حالانکہ پارٹی کے اندر اور باقی ملک میں اُن کی شہرت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ خیر انتخابات میں ووٹنگ کے لئے جدید طریقہ کار کا انتخاب کیا گیا، یعنی موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ انتخابات کے لئے دو اہم پینلز تشکیل دئیے گئے، ایک پینل کا نام انصاف اور دوسرا پینل احتساب تھا۔ عمران خان کی سربراہی میں انصاف پینل جبکہ نیک محمد خان کی سربراہی میں احتساب پینل کا ٹاکرا ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین قائدین انصاف پینل کی نمائندگی کر رہے تھے، جن میں شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین، جہانگیر خان ترین سیکرٹری جنرل، ڈاکٹر عارف علوی صدر سندھ، یار محمد رند صدر بلوچستان، محمد اسحاق خان خاکوانی صدر جنوبی پنجاب، عبدالعلیم خان صدر سینٹرل پنجاب، عامر محمود کیانی صدر شمالی پنجاب، فیض اللہ کموکا صدر مغربی پنجاب، علی امین گنڈا پور صدر جنوبی ریجن کے پی کے، شاہ فرمان صدر پشاور ریجن، محمود خان صدر مالاکنڈ ریجن، زر گُل خان صدر ہزارہ ریجن اور راجہ خرم نواز صدر اسلام آباد ریجن شامل ہیں۔
جبکہ مدمقابل احتساب پینل میں سید آفتاب شاہ وائس چیئرمین، سینیٹر (ر) ڈاکٹر شہزاد وسیم سیکرٹری جنرل، راجہ اظہر خان صدر سندھ، سردار خادم حسین وردک صدر بلوچستان، محمد ابراہیم خان صدر جنوبی پنجاب، منشاء سندھو صدر سینٹرل پنجاب، محمد یوسف خٹک صدر شمالی پنجاب، میجر (ر) عبدالرحمن رانا صدر مغربی پنجاب، ضیاءاللہ بنگش صدر جنوبی ریجن کے پی کے، سید عبدالصبور شاہ صدر پشاور ریجن کے پی کے، عبدالمنیم خان صدر مالاکنڈ ریجن، عبدالحق خان صدر ہزارہ ریجن اور راجہ قیصر غفار صدر اسلام آباد ریجن کے امیدوار تھے۔
ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے کل 25 لاکھ ووٹرز ہیں، جنہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے موبائل میسج کے ذریعے بیلٹ پیپر بھجوائے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے ووٹرز نے جوابی ایس ایم ایس کے ذریعے انصاف یا احتساب پینل کا انتخاب کیا، یعنی ووٹرز کو یہ انتخاب دیا ہی نہیں گیا کہ وہ امیدواروں کو ووٹ دیں، بلکہ ووٹ دینا ہے تو پینل کو دیجیے۔ یہی طریقہ کار تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے، کیونکہ جب گاؤں کے سارے چوہدری ایک جانب ہوں تو عوام بیچاری کا کیا ہوگا؟
جب امتحان میں ہاں اور ناں کا ہی آپشن ہو تو اِس میں طالب علم کا قصور؟ کسی بھی ووٹر کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ پینل میں موجود کسی فرد کو پسند نہیں کرتا یا اپنے ووٹ کا اہل نہیں سمجھتا تو وہ اسے ووٹ نہ دے، ہر ووٹر کو پورے پینل کو ووٹ کرنے کا پابند بنایا گیا۔ کسی بھی اہم رہنما نے عمران خان کے مخالف پینل میں کھڑا ہونے کی ہمت گوارا نہیں کی، بلکہ نیک محمد کے احتساب پینل میں جان بوجھ کر غیر معروف رہنماؤں کو رکھا گیا تاکہ ایک تیر سے دو شکار کیے جاسکیں۔ الیکشن کمیشن میں بھی سرخروئی اور جمہوریت کے دعوؤں کو بھی ثابت کیا جاسکے۔ مزے کی بات یہ کہ پارٹی انتخابات میں 27 لاکھ ووٹر میں سے صرف 2 لاکھ 56 ہزار 957 ووٹر نے اپنا حق استعمال کیا۔ انصاف پینل نے ایک لاکھ 89 ہزار 55 ووٹ حاصل کیے اور مدمقابل احتساب پینل کو 41 ہزار647 ووٹ ملے، جبکہ 26 ہزار 255 ووٹ مسترد ہوئے۔
یعنی کہ انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ صرف 10 فیصد رہا۔ اب کون سی جمہوری جماعت یا ادارہ دس فیصد افراد کی رائے پر انتخابات کو کامیاب قرار دے سکتا ہے؟ جماعت اسلامی کےالیکشن میں امیر کے انتخاب کے لئے 85 فیصد افراد نے بذریعہ ڈاک اپنے بیلٹ کا استعمال کیا تھا، جس پر اُس وقت کے امیر منور حسن نے شدید برہمی کا اظہار کیا کہ باقی 15 فیصد افراد نے اپنی رائے کا اظہار نہ کرکے نا انصافی کی ہے۔
ویسے خان صاحب اِس حوالے سے تو مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالف پینل کھڑا کرکے الیکشن کرایا وگرنہ حکمران جماعت کے سربراہ وزیراعظم نواز شریف بھی تو انتخابات کے ذریعے بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ یعنی اُمیدوار نواز شریف نے اپنے مخالف اُمیدوار نواز شریف کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کی نشست جیت لی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہاں تو بلاول بھٹو کو بھی پرچیاں ڈال کر منتخب کیا گیا ہے۔ غرض یہاں ہر سیاسی جماعت نے ماموں، چاچو، بھائی، بھانجے اور بھتیجے کو اپنا اپنا سربراہ بنایا ہوا ہے۔
اِن سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن لاکھ اختلاف کے باوجود ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہیں۔ کاش یہ جھونکا جمہوریت اور تبدیلی کی آندھی کا موجب بن جائے مگر بظاہر ایسا لگ نہیں رہا، اِس لئے عمران خان آپ کو آپ کی جیت بہت بہت مبارک ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بچپن میں شرارتیں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کی ہیں، کھیل تماشے کا شوق بھی رہا ہے، کھیل کے دوران ہمیشہ طاقتور لوگوں کے ساتھ کھڑا رہتا تاکہ میں ہی جیت سکوں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود کے لئے ہمیشہ کمزور حریف کا انتخاب کرتا ہے، طاقتور حریف کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ دیہاتوں میں چلے جائیں تو پنڈ کا چوہدری یا گوٹھ کا سردار ہی سب کچھ ہوتا ہے اور اِس کی طرف داری ہی گاؤں میں کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے، طبقاتی تقسیم ایسی کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا محاورہ بالکل صادق آتا ہے۔
پاکستان میں بھی قوم خود کے لئے آسان ہدف، کمزور حریف، چھوٹی منزلیں اور شارٹ کٹس کی تلاش میں مصروف رہتی ہے۔ ہم مطلق العنانیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ آمریت کی بانہوں میں سکون کے متلاشی ہیں۔ اِس ساری تمہید کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کے نومنتخب چیئرمین عمران خان کو انٹرا پارٹی انتخابات میں کامیابی پر بھرپور مبارکباد پیش کرنا تھا۔
جناب من! آپ کو مبارک ہو تحریک انصاف کے کارکنان نے آپ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، آپ کو مبارک ہو کہ آپ کا سارا پینل سرخرو ہوا، آپ الیکشن کمیشن کے حکم پر انتخابات کروانے پر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں، آپ نے انٹرا پارٹی الیکشن کروا کر اپنا انتخابی نشان 'بلا' بھی محفوظ کرلیا، آپ کے انتخابات نے ملک میں جمہوریت کا بول بالا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، نوجوانوں، بزرگوں اور سیاسی کارکنوں کو آپ نے پارٹی کے اندر متحرک کیا۔
خان صاحب کے انتخابات پر تحفظات تو ہوسکتے ہیں لیکن انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کروا کر باقی سیاسی جماعتوں کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ تحریک انصاف سے قبل قومی سیاست میں ایک ہی جماعت جمہوری سمجھی جاتی تھی، جو اُن کی اتحادی بھی ہے۔ جماعت اسلامی کا طریقہ انتخاب شفافیت اور دیگر معاملات میں بہترین ہے۔ خان صاحب کو اُن سے کچھ تجربات حاصل کرلینے چاہیئں۔ گوکہ تحریک انصاف میں ایسے تجربے اُن کے لئے نیک شگون تو نہیں ہوں گے مگر مستقبل میں اِس کے دو رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے اعظم سواتی کو چیف الیکشن کمیشن لگایا، حالانکہ پارٹی کے اندر اور باقی ملک میں اُن کی شہرت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ خیر انتخابات میں ووٹنگ کے لئے جدید طریقہ کار کا انتخاب کیا گیا، یعنی موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ انتخابات کے لئے دو اہم پینلز تشکیل دئیے گئے، ایک پینل کا نام انصاف اور دوسرا پینل احتساب تھا۔ عمران خان کی سربراہی میں انصاف پینل جبکہ نیک محمد خان کی سربراہی میں احتساب پینل کا ٹاکرا ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین قائدین انصاف پینل کی نمائندگی کر رہے تھے، جن میں شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین، جہانگیر خان ترین سیکرٹری جنرل، ڈاکٹر عارف علوی صدر سندھ، یار محمد رند صدر بلوچستان، محمد اسحاق خان خاکوانی صدر جنوبی پنجاب، عبدالعلیم خان صدر سینٹرل پنجاب، عامر محمود کیانی صدر شمالی پنجاب، فیض اللہ کموکا صدر مغربی پنجاب، علی امین گنڈا پور صدر جنوبی ریجن کے پی کے، شاہ فرمان صدر پشاور ریجن، محمود خان صدر مالاکنڈ ریجن، زر گُل خان صدر ہزارہ ریجن اور راجہ خرم نواز صدر اسلام آباد ریجن شامل ہیں۔
جبکہ مدمقابل احتساب پینل میں سید آفتاب شاہ وائس چیئرمین، سینیٹر (ر) ڈاکٹر شہزاد وسیم سیکرٹری جنرل، راجہ اظہر خان صدر سندھ، سردار خادم حسین وردک صدر بلوچستان، محمد ابراہیم خان صدر جنوبی پنجاب، منشاء سندھو صدر سینٹرل پنجاب، محمد یوسف خٹک صدر شمالی پنجاب، میجر (ر) عبدالرحمن رانا صدر مغربی پنجاب، ضیاءاللہ بنگش صدر جنوبی ریجن کے پی کے، سید عبدالصبور شاہ صدر پشاور ریجن کے پی کے، عبدالمنیم خان صدر مالاکنڈ ریجن، عبدالحق خان صدر ہزارہ ریجن اور راجہ قیصر غفار صدر اسلام آباد ریجن کے امیدوار تھے۔
ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے کل 25 لاکھ ووٹرز ہیں، جنہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے موبائل میسج کے ذریعے بیلٹ پیپر بھجوائے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے ووٹرز نے جوابی ایس ایم ایس کے ذریعے انصاف یا احتساب پینل کا انتخاب کیا، یعنی ووٹرز کو یہ انتخاب دیا ہی نہیں گیا کہ وہ امیدواروں کو ووٹ دیں، بلکہ ووٹ دینا ہے تو پینل کو دیجیے۔ یہی طریقہ کار تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے، کیونکہ جب گاؤں کے سارے چوہدری ایک جانب ہوں تو عوام بیچاری کا کیا ہوگا؟
جب امتحان میں ہاں اور ناں کا ہی آپشن ہو تو اِس میں طالب علم کا قصور؟ کسی بھی ووٹر کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ پینل میں موجود کسی فرد کو پسند نہیں کرتا یا اپنے ووٹ کا اہل نہیں سمجھتا تو وہ اسے ووٹ نہ دے، ہر ووٹر کو پورے پینل کو ووٹ کرنے کا پابند بنایا گیا۔ کسی بھی اہم رہنما نے عمران خان کے مخالف پینل میں کھڑا ہونے کی ہمت گوارا نہیں کی، بلکہ نیک محمد کے احتساب پینل میں جان بوجھ کر غیر معروف رہنماؤں کو رکھا گیا تاکہ ایک تیر سے دو شکار کیے جاسکیں۔ الیکشن کمیشن میں بھی سرخروئی اور جمہوریت کے دعوؤں کو بھی ثابت کیا جاسکے۔ مزے کی بات یہ کہ پارٹی انتخابات میں 27 لاکھ ووٹر میں سے صرف 2 لاکھ 56 ہزار 957 ووٹر نے اپنا حق استعمال کیا۔ انصاف پینل نے ایک لاکھ 89 ہزار 55 ووٹ حاصل کیے اور مدمقابل احتساب پینل کو 41 ہزار647 ووٹ ملے، جبکہ 26 ہزار 255 ووٹ مسترد ہوئے۔
یعنی کہ انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ صرف 10 فیصد رہا۔ اب کون سی جمہوری جماعت یا ادارہ دس فیصد افراد کی رائے پر انتخابات کو کامیاب قرار دے سکتا ہے؟ جماعت اسلامی کےالیکشن میں امیر کے انتخاب کے لئے 85 فیصد افراد نے بذریعہ ڈاک اپنے بیلٹ کا استعمال کیا تھا، جس پر اُس وقت کے امیر منور حسن نے شدید برہمی کا اظہار کیا کہ باقی 15 فیصد افراد نے اپنی رائے کا اظہار نہ کرکے نا انصافی کی ہے۔
ویسے خان صاحب اِس حوالے سے تو مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالف پینل کھڑا کرکے الیکشن کرایا وگرنہ حکمران جماعت کے سربراہ وزیراعظم نواز شریف بھی تو انتخابات کے ذریعے بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ یعنی اُمیدوار نواز شریف نے اپنے مخالف اُمیدوار نواز شریف کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کی نشست جیت لی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہاں تو بلاول بھٹو کو بھی پرچیاں ڈال کر منتخب کیا گیا ہے۔ غرض یہاں ہر سیاسی جماعت نے ماموں، چاچو، بھائی، بھانجے اور بھتیجے کو اپنا اپنا سربراہ بنایا ہوا ہے۔
اِن سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن لاکھ اختلاف کے باوجود ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہیں۔ کاش یہ جھونکا جمہوریت اور تبدیلی کی آندھی کا موجب بن جائے مگر بظاہر ایسا لگ نہیں رہا، اِس لئے عمران خان آپ کو آپ کی جیت بہت بہت مبارک ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔