نیٹو سپلائی پر پاک امریکا تحریری معاہدہ

امریکی انتظامیہ بھی اس مفاہمتی یادداشت کی اسی طرح پاسداری کرے گی جیسی پاسداری پاکستان خود کرنا چاہتا ہے

ایڈیشنل سیکریٹری دفاع ریئر ایڈمرل فرخ احمد اور امریکی قائم مقام سفیر رچرڈ ہوگلینڈ نے دستخط کیے. فوٹو اے ایف پی

MIRPUR:
پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے رسد کی فراہمی کے سمجھوتہ پر دستخط ہو گئے ہیں۔ مفاہمت کی اس یادداشت پر منگل کی سہ پہر وزارت دفاع راولپنڈی میں ایڈیشنل سیکریٹری دفاع ریئر ایڈمرل فرخ احمد اور امریکی قائم مقام سفیر رچرڈ ہوگلینڈ نے دستخط کیے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والا اس قسم کا پہلا تحریری معاہدہ ہے۔ مفاہمتی یادداشت پر دستخط بلاشبہ پاک امریکا تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کا سبب بنیں گے اور اب توقع کی جا سکے گی کہ نیٹو سپلائی کے معاملات زیادہ ہموار انداز میں آگے بڑھیں گے۔

اس مفاہمتی یادداشت پر دستخط سے جہاں پاکستان کچھ معاملات کا پابند بن گیا ہے وہاں کئی پابندیاں امریکا پر بھی عائد ہو گئی ہیں جن کی پاسداری کی یقین دہانی قائم مقام امریکی سفیر نے کرائی ہے۔ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام امریکی سفیر نے کہا کہ نیٹو سپلائی کی بحالی سے پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد سازی مضبوط ہوئی' معاہدے کی تمام شقوں کو امریکا نے سنجیدگی سے لیا ہے ان پر عمل در آمد ہو گا' امریکا پاکستان کی خود مختاری کا مکمل احترام کرتا ہے۔


اس کے ردعمل میں سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل آصف یاسین نے کہا کہ مفاہمتی یادداشت سے دونوں ممالک کے درمیان شفافیت پیدا ہو گی۔ یقیناً اس شفافیت کے نتیجے میں متعلقہ امور زیادہ بہتر انداز میں انجام دیے جاسکیں گے تاہم یہ بات عوام کے لیے تاحال سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے امریکا سے کوئی ٹھوس مطالبہ کیوں نہیں منوایا جا سکا' نہ تو ان کنٹینروں کی ترسیل کے حوالے سے کوئی معاوضہ طے کیا گیا ہے حالانکہ ماضی قریب میں خبریں سامنے آتی رہیں کہ پاکستان نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے امریکا سے معاوضہ طے کر رہا ہے' نہ ہی ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ پورا ہو سکا حتیٰ کہ یہ یقین دہانی تک حاصل نہیں کی جا سکی کہ امریکا کی جانب سے آیندہ پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی نہیں ہو گی' بہرحال حکومت نے جو معاہدہ بھی کیا ہے امید ہے کہ اس میں ملکی مفادات کو اہمیت و ترجیح دی گئی ہو گی۔

دستاویز کے مطابق افغانستان جانے والے تمام کنٹینرز پر جدید ترین ٹریکنگ سسٹم آر ایف آئی نصب ہو گا، کنٹینرز میں جانے والے تمام سامان کی جامع چیکنگ ہو گی۔ یادداشت کے تحت نیٹو 24 ممنوعہ اشیاء افغانستان نہیں لے جا سکے گا۔ اس طرح صرف انھی چیزوں کی افغانستان میں انتہا پسندوں کے خلاف برسرپیکار نیٹو فورسز کو ترسیل کی جا سکے گی جو طے شدہ ہیں اور وہ چیزیں پاکستان کے راستے افغانستان نہیں جانے دی جائیں گی جو اس معاہدے کے پیرامیٹرز میں نہیں آتیں۔ معاہدے میں طے کی گئی یہ شق پاکستان کے حق میں جاتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت معاہدے کو منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

یوں اگر امریکا کی جانب سے اس معاہدے کی کسی بھی طرح سے خلاف ورزی ہوئی یا مستقبل میں امریکا کی جانب سے پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ سپلائی ایک بار پھر معطل کر دے اور ایسا کرنے پر پاکستان سے باز پُرس نہیں کی جا سکے گی۔ اب جب کہ یہ معاہدہ تحریری طور پر طے پا گیا ہے تو امید کی جاتی ہے امریکی انتظامیہ بھی اس مفاہمتی یادداشت کی اسی طرح پاسداری کرے گی جیسی پاسداری پاکستان خود کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ امریکا مسائل کے حل کے سلسلے میں پاکستان کی طرف دست تعاون بڑھائے گا۔

Recommended Stories

Load Next Story