سرکاری اداروں کی حالت بہتر بنانے کیلیے اصلاحات کی تجویز
4 برس میں بجلی پر 10 کھرب روپے خرچ ہوئے جو دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت سے بھی زائد ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کی معاشی ترقی کے لیے توانائی کے شعبے، سرکاری اداروں کی حالت بہتر بنانے اور مالیاتی اور محصولاتی خسارہ کم کرنے کے لیے جامع اصلاحات کی تجویز پیش کردی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ میں ملک کی معیشت کو درپیش توانائی کے بحران اور سرکلر ڈیٹ جیسے سنگین چیلنج، سرکاری اداروں کی حالت زار اور مالیاتی و محصولاتی خسارے کا جائزہ لیتے ہوئے ان شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں توانائی کے پی ایس ایز کے بڑھتے ہوئے نقصانات محدود مالی وسائل کے زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔ خصوصاً وفاقی حکومت گذشتہ چار برسوں کے دوران بجلی کے شعبے کو دس کھرب روپے فراہم کر چکی ہے۔ یہ رقم دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر آنے والی لاگت سے زیادہ ہے۔
ان کوششوں کے باوجود م س 12 میں ملک کو بجلی و قدرتی گیس دونوں کی ریکارڈ قلت کا سامنا کرنا پڑا اور 27 جولائی 2012ء تک گردشی قرضہ.5 382 ارب روپے کی سطح تک پہنچ گیا تھا۔ توانائی کے بحران کا قلیل مدتی حل فراہم کرنے کے لیے بجلی کے شعبے کی گنجائش کے استعمال کو بڑھانا ضروری ہے۔ اس مرحلے پر مقصد نئی گنجائش میں سرمایہ کاری کے بجائے دستیاب انفراسٹرکچر سے استفادہ ہونا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نقد رقوم کی دستیابی میں رکاوٹ نہ ہو اور حکومتی ضمانتیں پوری کی جائیں۔
اس کے علاوہ زر اعانت کا درست بجٹ بنایا جائے اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو بلز کی بروقت ادائیگی پر مجبور کیا جائے۔پیداوار اور ترسیل کی سطح پر چوری اور خامیوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹا جائے۔ اس ضمن میں نجکاری شدہ کے ای ایس سی کی مثال قابل ذکر ہے: اس یوٹیلٹی ادارے نے فاضل عملے (یونین کی سخت مخالفت کے باوجود) سے نجات حاصل کی، غیر اداشدہ بلز کے باعث بجلی کی رسد منقطع (حتیٰ کہ اعلیٰ سطح کے حکومتی اداروں کی بھی) کی گئی، زیادہ بہتر کارکردگی والے پیداواری یونٹوں میں سرمایہ کاری کی گئی اور کمرشل بنیادوں پر لوڈ شیڈنگ کا نظام الاوقات تشکیل دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کراچی کی صورتحال ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔
ڈسکوز (DISCOs) کو چاہیے کہ وہ وصولی بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات کریں کیونکہ موجودہ صورتحال اطمینان بخش نہیں۔ہائیڈل اور کوئلے پر مبنی پیداواری یونٹوں کو ترقی دینے کے لیے وسط تا طویل مدتی جامع حکمت عملی تشکیل دینا بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ عوام کو اس منصوبے سے آگاہ کرنا چاہیے تا کہ ان کے علم میں یہ بات ہو کہ آئندہ چند برسوں میں توانائی کی رسد کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے گا۔بجلی و گیس کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ضوابطی اداروں کو چاہیے کہ وہ استعمال کنندگان کے لیے قیمتوں کے تعین پر دوبارہ غور کریں۔
گھروں اور صنعتوں کے لیے گیس کی کم قیمت مقرر کرنے کا نتیجہ اس کے زیاں کی صورت میں نکلتا ہے اور اس پر بھاری موقع لاگت آتی ہے (دیکھئے باب 3)۔ اگرچہ حکومت نے حال ہی میں منظور ہونے والی پٹرولیم پالیسی میں قیمتوں میں خاصا اضافہ کرتے ہوئے پورے ملک کے لیے معیاری قیمت (جس سے ملک میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری آنی چاہیے) مقرر کی ہے لیکن اس سے پہلے سیکورٹی اور معاہدے پر عملدرآمد کے بارے میں خدشات دور کرنا ضروری ہے۔پیپکو کی تحلیل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
بجلی کے شعبے میں پیپکو کی انتظامی اور مالی مداخلت ختم کر دی گئی ہے۔سی پی پی اے، کیسکو، سیپکو اور جینکو ہولڈنگ کمپنی (جی ایچ سی) کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل۔ جی ایچ سی، حیسکو اور پیسکو کے نئے سربراہان کا تقرر کیا جا چکا ہے، جبکہ تین دوسری ڈسکوز (لیسکو، میپکو اور سیپکو) کے سربراہان کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کا بار صارفین کو منتقل کرنے کے لیے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کر لی گئی ہے۔ تاہم نیپرا ایف پی اے کے تعین میں تاخیر کر رہی ہے جو اس شعبے میں سیالیت کے بحران کا ایک سبب ہے۔
کابینہ نے بجلی چوری اور دیگر انتظامی نقصانات کی روک تھام کے لیے قانونی فریم ورک مستحکم کرنے کی غرض سے ایک نیا الیکٹریسٹی ایکٹ منظور کیا ہے۔ حکومت ان اصلاحات کے علاوہ ملک کے لیے ایک پائیدار، ناقابل تنسیخ اور معتبر انرجی پالیسی تشکیل دینے کی غرض سے عالمی مالی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔اگرچہ توانائی عوام کی توجہ کا مرکز و محور رہی ہے تاہم یہ بات سمجھ لینی ہو گی کہ توانائی کے شعبے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری شعبے کے ادارے تجارتی طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دوسرے سرکاری اداروں مثلاً پاکستان ریلوے، پی آئی اے، اور پاکستان اسٹیل ملز کو بھی اصلاحات کی مشکل راہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں پھر سے کاروباری طور پر چلنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اصلاحات کی جامع حکمت عملیاں بنائی جا چکی ہیں، عملے میں کمی اور آپریشنز کو معقول بنانے کا صرف پہلا مشکل قدم اٹھانے کا عزم درکار ہے۔
اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ میں ملک کی معیشت کو درپیش توانائی کے بحران اور سرکلر ڈیٹ جیسے سنگین چیلنج، سرکاری اداروں کی حالت زار اور مالیاتی و محصولاتی خسارے کا جائزہ لیتے ہوئے ان شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں توانائی کے پی ایس ایز کے بڑھتے ہوئے نقصانات محدود مالی وسائل کے زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔ خصوصاً وفاقی حکومت گذشتہ چار برسوں کے دوران بجلی کے شعبے کو دس کھرب روپے فراہم کر چکی ہے۔ یہ رقم دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر آنے والی لاگت سے زیادہ ہے۔
ان کوششوں کے باوجود م س 12 میں ملک کو بجلی و قدرتی گیس دونوں کی ریکارڈ قلت کا سامنا کرنا پڑا اور 27 جولائی 2012ء تک گردشی قرضہ.5 382 ارب روپے کی سطح تک پہنچ گیا تھا۔ توانائی کے بحران کا قلیل مدتی حل فراہم کرنے کے لیے بجلی کے شعبے کی گنجائش کے استعمال کو بڑھانا ضروری ہے۔ اس مرحلے پر مقصد نئی گنجائش میں سرمایہ کاری کے بجائے دستیاب انفراسٹرکچر سے استفادہ ہونا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نقد رقوم کی دستیابی میں رکاوٹ نہ ہو اور حکومتی ضمانتیں پوری کی جائیں۔
اس کے علاوہ زر اعانت کا درست بجٹ بنایا جائے اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو بلز کی بروقت ادائیگی پر مجبور کیا جائے۔پیداوار اور ترسیل کی سطح پر چوری اور خامیوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹا جائے۔ اس ضمن میں نجکاری شدہ کے ای ایس سی کی مثال قابل ذکر ہے: اس یوٹیلٹی ادارے نے فاضل عملے (یونین کی سخت مخالفت کے باوجود) سے نجات حاصل کی، غیر اداشدہ بلز کے باعث بجلی کی رسد منقطع (حتیٰ کہ اعلیٰ سطح کے حکومتی اداروں کی بھی) کی گئی، زیادہ بہتر کارکردگی والے پیداواری یونٹوں میں سرمایہ کاری کی گئی اور کمرشل بنیادوں پر لوڈ شیڈنگ کا نظام الاوقات تشکیل دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کراچی کی صورتحال ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔
ڈسکوز (DISCOs) کو چاہیے کہ وہ وصولی بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات کریں کیونکہ موجودہ صورتحال اطمینان بخش نہیں۔ہائیڈل اور کوئلے پر مبنی پیداواری یونٹوں کو ترقی دینے کے لیے وسط تا طویل مدتی جامع حکمت عملی تشکیل دینا بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ عوام کو اس منصوبے سے آگاہ کرنا چاہیے تا کہ ان کے علم میں یہ بات ہو کہ آئندہ چند برسوں میں توانائی کی رسد کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے گا۔بجلی و گیس کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ضوابطی اداروں کو چاہیے کہ وہ استعمال کنندگان کے لیے قیمتوں کے تعین پر دوبارہ غور کریں۔
گھروں اور صنعتوں کے لیے گیس کی کم قیمت مقرر کرنے کا نتیجہ اس کے زیاں کی صورت میں نکلتا ہے اور اس پر بھاری موقع لاگت آتی ہے (دیکھئے باب 3)۔ اگرچہ حکومت نے حال ہی میں منظور ہونے والی پٹرولیم پالیسی میں قیمتوں میں خاصا اضافہ کرتے ہوئے پورے ملک کے لیے معیاری قیمت (جس سے ملک میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری آنی چاہیے) مقرر کی ہے لیکن اس سے پہلے سیکورٹی اور معاہدے پر عملدرآمد کے بارے میں خدشات دور کرنا ضروری ہے۔پیپکو کی تحلیل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
بجلی کے شعبے میں پیپکو کی انتظامی اور مالی مداخلت ختم کر دی گئی ہے۔سی پی پی اے، کیسکو، سیپکو اور جینکو ہولڈنگ کمپنی (جی ایچ سی) کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل۔ جی ایچ سی، حیسکو اور پیسکو کے نئے سربراہان کا تقرر کیا جا چکا ہے، جبکہ تین دوسری ڈسکوز (لیسکو، میپکو اور سیپکو) کے سربراہان کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کا بار صارفین کو منتقل کرنے کے لیے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کر لی گئی ہے۔ تاہم نیپرا ایف پی اے کے تعین میں تاخیر کر رہی ہے جو اس شعبے میں سیالیت کے بحران کا ایک سبب ہے۔
کابینہ نے بجلی چوری اور دیگر انتظامی نقصانات کی روک تھام کے لیے قانونی فریم ورک مستحکم کرنے کی غرض سے ایک نیا الیکٹریسٹی ایکٹ منظور کیا ہے۔ حکومت ان اصلاحات کے علاوہ ملک کے لیے ایک پائیدار، ناقابل تنسیخ اور معتبر انرجی پالیسی تشکیل دینے کی غرض سے عالمی مالی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔اگرچہ توانائی عوام کی توجہ کا مرکز و محور رہی ہے تاہم یہ بات سمجھ لینی ہو گی کہ توانائی کے شعبے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری شعبے کے ادارے تجارتی طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دوسرے سرکاری اداروں مثلاً پاکستان ریلوے، پی آئی اے، اور پاکستان اسٹیل ملز کو بھی اصلاحات کی مشکل راہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں پھر سے کاروباری طور پر چلنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اصلاحات کی جامع حکمت عملیاں بنائی جا چکی ہیں، عملے میں کمی اور آپریشنز کو معقول بنانے کا صرف پہلا مشکل قدم اٹھانے کا عزم درکار ہے۔