سعودی عرب قطر مصالحت کی پاکستانی کوشش
حقیقت یہ ہےکہ پیدا شدہ سنگین صورتحال کےتناظرمیں پاکستان اس مرحلےمیں سعودی عرب اورقطر میں ثالثی نہیں کرارہا
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی و خود مختاری اور حرمین الشریفین کے تحفظ کے لیے پاکستان پُرعزم ہے اور توقع ہے خلیج میں موجودہ بحران مسلم امہ کے بہترین مفاد میں جلد حل کر لیا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق وزیراعظم نے سعودی عرب میں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان سے شاہی محل میں ملاقات کی۔
ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مشیرخارجہ سرتاج عزیز بھی موجود تھے۔ ملاقات میں وزیراعظم نے مملکت سعودی عرب اوراس کے عوام سے اظہار یکجہتی کیا جب کہ وزیراعظم نے سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی اورخودمختاری کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ ترجمان وزیراعظم کے مطابق شاہ سلمان نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ پر شکریہ ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی غیر معمولی کامیابی کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے آزادی کے بعد سے خصوصی تعلقات ہیں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑائی تمام مسلمانوں کے مفاد میں ہے جب کہ پاکستان کی قومی سلامتی سمیت تمام ایشوز پر سعودی عرب مکمل تعاون کرے گا۔
سعودی عرب اور قطر کے درمیان سنگین کشیدگی کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی جانب سے خیرسگالی، اور مصالحت کے لیے کوشش خوش آیند ہے، اگرچہ وزیراعظم کی قیادت میں سعودی عرب جانے والے وفد نے کوئی بریک تھرو نہیں کیا تاہم وفد نے ثالثی کے نقطہ نگاہ سے سعودی عرب اور قطر کا دورہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خواہش اور فوری کوشش دو برادر اسلامی ملکوں کے مابین مصالحت اورپیداشدہ تنازع کے پر امن حل اور امہ کے وسیع تر مفاد میں تھی تاکہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال عالم اسلام کو کسی نئے بحران میں مبتلا نہ کردے۔
ایک معاصر انگریزی اخبار نے سفارتی ذرایع کے حوالہ سے کہا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب پر واضح کردیا ہے کہ وہ خلیجی بحران میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دے گا بلکہ ہر اس کوشش کی حمایت کریگا جو مسلم امہ میں یکجہتی پیدا کرے گی۔ بلاشبہ پاکستان کے اس صائب موقف کی تمام اسلامی دنیا حمایت کرے گی کیونکہ عالم اسلام میں تفرقہ ڈالنے اور عراق ، شام و یمن کے بعد دو برادر ملکوں میں تنازعات کو بھڑکانے میں مصروف قوتوں کے عزائم کی ناکامی ملت اسلامیہ کے عظیم تر اتحاد سے ہی ممکن ہے اور وزیراعظم نے بجاطور پر قومی امنگوں کی درست ترجمانی کرتے ہوئے سعودی فرمانرواؤں اور حکام کو پاکستان کے عزم ، درد مندی اور مسئلہ کے پر امن اور مفاہمانہ حل پرمعاونت کا یقین دلایا تاکہ استعماری اور سامراجی قوتوں کو مشرق وسطیٰ میں شر انگیزی کا موقع نہ مل سکے، لہٰذا پاکستان نے یہی موقف وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات میں اختیارکیا، میڈیا رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے خلیجی بحران پر پاکستانی پوزیشن کے سوال پر پاکستانی قیادت نے سعودی حکام کو بتایا کہ پاکستان ایسے کسی واقعے کی حمایت نہیں کرے گا جو مسلم دنیا میں تفریق پیدا کرے تاہم پاکستان نے سعودی عرب کو یہ پیشکش ضرور کی کہ وہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے قطر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تاکہ وہ اس بحران کو ختم کرنے میں مدد دے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیدا شدہ سنگین صورتحال کے تناظر میں پاکستان اس مرحلے میں سعودی عرب اور قطر میں ثالثی نہیں کرا رہا کیونکہ مسئلہ کی شدت و نوعیت ایسی ہے کہ پاکستان اس امید کے ساتھ پیش رفت کررہا ہے کہ دونوں ممالک باہمی طورپر خود ہی اس مسئلے کو حل کرلیں ، سعودی عرب اور قطر میں پیدا ہونے والی اندوہ ناک کشیدگی مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال کے لیے خطرناک مضمرات کی حامل ہے، مسئلہ دہشتگردی کی حمایت، دہشتگردوں کی مالی معاونت اور خطے کی سلامتی اور مسلم امہ کی یکجہتی اور بقا کا ہے، اس میں بحرین ، یو اے ای اور ایران فیکٹر مرکزی اہمیت رکھتا ہے، کویت اور ترکی سمیت دیگر مسلم ملکوں اور عالمی طاقتوں کی طرف سے پر امن مکالمہ کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے مگر اس مسئلہ کی کلید پاکستان ،کویت، ترکی سمیت تمام عالم اسلام کے پاس ہے۔
وہی دو برادر ملکوں کو باہم شیر و شکر بنا سکتے ہیں، قطر اور سعودی عرب کشیدگی مزید بڑھنے نہ پائے، اس لیے بے حد احتیاط ، دانشمندی اور تدبر کے ساتھ مسلم دنیا مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے پیش قدمی کرے، پاکستان ، کویت ، ترکی ، مسقط سمیت دیگر اسلامی ملک مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ٹھہراؤ لانے کے لیے مشترکہ خیر سگالی مشن لے کر سعودی اور قطر کے حکمرانوں سے رابطہ کریں، یاد رہے بعض بداندیش قوتیں صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ گزشتہ دنوں غیر ملکی میڈیا میں پاکستانی فوج قطر بھیجے جانے کی شرانگیز خبر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید پاکستان اس بحران میں کسی ایک ملک کی طرفداری کرنے جا رہا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ، ترکی، کویت اور دیگر اسلامی ملک سعودی قطر تنازع کے پر امن حل کے لیے کوششیں تیز کردیں ، دوست نما دشمن خنجر بہ دست ہیں، دو برادر اسلامی ملکوں کے مابین رنجشیں جلد ختم ہوجانی چاہئیں۔
ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مشیرخارجہ سرتاج عزیز بھی موجود تھے۔ ملاقات میں وزیراعظم نے مملکت سعودی عرب اوراس کے عوام سے اظہار یکجہتی کیا جب کہ وزیراعظم نے سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی اورخودمختاری کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ ترجمان وزیراعظم کے مطابق شاہ سلمان نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ پر شکریہ ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی غیر معمولی کامیابی کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے آزادی کے بعد سے خصوصی تعلقات ہیں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑائی تمام مسلمانوں کے مفاد میں ہے جب کہ پاکستان کی قومی سلامتی سمیت تمام ایشوز پر سعودی عرب مکمل تعاون کرے گا۔
سعودی عرب اور قطر کے درمیان سنگین کشیدگی کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی جانب سے خیرسگالی، اور مصالحت کے لیے کوشش خوش آیند ہے، اگرچہ وزیراعظم کی قیادت میں سعودی عرب جانے والے وفد نے کوئی بریک تھرو نہیں کیا تاہم وفد نے ثالثی کے نقطہ نگاہ سے سعودی عرب اور قطر کا دورہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خواہش اور فوری کوشش دو برادر اسلامی ملکوں کے مابین مصالحت اورپیداشدہ تنازع کے پر امن حل اور امہ کے وسیع تر مفاد میں تھی تاکہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال عالم اسلام کو کسی نئے بحران میں مبتلا نہ کردے۔
ایک معاصر انگریزی اخبار نے سفارتی ذرایع کے حوالہ سے کہا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب پر واضح کردیا ہے کہ وہ خلیجی بحران میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دے گا بلکہ ہر اس کوشش کی حمایت کریگا جو مسلم امہ میں یکجہتی پیدا کرے گی۔ بلاشبہ پاکستان کے اس صائب موقف کی تمام اسلامی دنیا حمایت کرے گی کیونکہ عالم اسلام میں تفرقہ ڈالنے اور عراق ، شام و یمن کے بعد دو برادر ملکوں میں تنازعات کو بھڑکانے میں مصروف قوتوں کے عزائم کی ناکامی ملت اسلامیہ کے عظیم تر اتحاد سے ہی ممکن ہے اور وزیراعظم نے بجاطور پر قومی امنگوں کی درست ترجمانی کرتے ہوئے سعودی فرمانرواؤں اور حکام کو پاکستان کے عزم ، درد مندی اور مسئلہ کے پر امن اور مفاہمانہ حل پرمعاونت کا یقین دلایا تاکہ استعماری اور سامراجی قوتوں کو مشرق وسطیٰ میں شر انگیزی کا موقع نہ مل سکے، لہٰذا پاکستان نے یہی موقف وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات میں اختیارکیا، میڈیا رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے خلیجی بحران پر پاکستانی پوزیشن کے سوال پر پاکستانی قیادت نے سعودی حکام کو بتایا کہ پاکستان ایسے کسی واقعے کی حمایت نہیں کرے گا جو مسلم دنیا میں تفریق پیدا کرے تاہم پاکستان نے سعودی عرب کو یہ پیشکش ضرور کی کہ وہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے قطر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تاکہ وہ اس بحران کو ختم کرنے میں مدد دے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیدا شدہ سنگین صورتحال کے تناظر میں پاکستان اس مرحلے میں سعودی عرب اور قطر میں ثالثی نہیں کرا رہا کیونکہ مسئلہ کی شدت و نوعیت ایسی ہے کہ پاکستان اس امید کے ساتھ پیش رفت کررہا ہے کہ دونوں ممالک باہمی طورپر خود ہی اس مسئلے کو حل کرلیں ، سعودی عرب اور قطر میں پیدا ہونے والی اندوہ ناک کشیدگی مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال کے لیے خطرناک مضمرات کی حامل ہے، مسئلہ دہشتگردی کی حمایت، دہشتگردوں کی مالی معاونت اور خطے کی سلامتی اور مسلم امہ کی یکجہتی اور بقا کا ہے، اس میں بحرین ، یو اے ای اور ایران فیکٹر مرکزی اہمیت رکھتا ہے، کویت اور ترکی سمیت دیگر مسلم ملکوں اور عالمی طاقتوں کی طرف سے پر امن مکالمہ کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے مگر اس مسئلہ کی کلید پاکستان ،کویت، ترکی سمیت تمام عالم اسلام کے پاس ہے۔
وہی دو برادر ملکوں کو باہم شیر و شکر بنا سکتے ہیں، قطر اور سعودی عرب کشیدگی مزید بڑھنے نہ پائے، اس لیے بے حد احتیاط ، دانشمندی اور تدبر کے ساتھ مسلم دنیا مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے پیش قدمی کرے، پاکستان ، کویت ، ترکی ، مسقط سمیت دیگر اسلامی ملک مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ٹھہراؤ لانے کے لیے مشترکہ خیر سگالی مشن لے کر سعودی اور قطر کے حکمرانوں سے رابطہ کریں، یاد رہے بعض بداندیش قوتیں صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ گزشتہ دنوں غیر ملکی میڈیا میں پاکستانی فوج قطر بھیجے جانے کی شرانگیز خبر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید پاکستان اس بحران میں کسی ایک ملک کی طرفداری کرنے جا رہا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ، ترکی، کویت اور دیگر اسلامی ملک سعودی قطر تنازع کے پر امن حل کے لیے کوششیں تیز کردیں ، دوست نما دشمن خنجر بہ دست ہیں، دو برادر اسلامی ملکوں کے مابین رنجشیں جلد ختم ہوجانی چاہئیں۔