سوشلسٹ جیریمی کوربن برطانیہ پہ چھا گئے
برطانوی حکومت مسلسل امریکا کا ہر صورت میں ساتھ دے رہی ہے
برنی سینڈرز، امریکا کے صدرتو نہ بن پائے لیکن امریکی نوجوانوں،خواتین، مزدوروں اورشہریوں کو سوشلزم کا نعرہ دے کر دہائیوں بعد پھرایک بارامریکا میں سوشلزم کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے برطانیہ میں لیبرپارٹی کے لیڈرجیریمی کوربن نے بھی برطانیہ میں سوشلزم کے نام کو بلند کیا۔ 1970ء کی دہائی میں لیبر پارٹی، برطانیہ میں جس طرح سوشلسٹ نظریات کو بلندیوں پہ لے گئی تھی،آج پھر ایک بار جیمری کوربن بھی برطانیہ کی سیاست پہ چھا گئے۔ یہ وہی برطانیہ ہے جہاں سولہویں صدی میں انتہائی غربت اورافلاس کا ڈیرہ تھا۔آئرلینڈ میں فقیروں کے ہجوم پر بادشاہ نے گولیاں چلانے کا حکم دیا اور ہزاروں فقیر جان سے جاتے رہے۔
جب برطانیہ، سامراجی ملک بن گیا، پھراسی برطانیہ کے لوٹ مار کرنے والے تاجر لارڈکلائیو آٹھارہویں صدی میں ہندوستان سے سات پانی کے جہازوں میں سونا،چاندی کے سکے اورقیمتی زیورات بھر کر لے گئے۔ ہندوستانیوں کو غلام بناکر مشرق میں فیجی تک، مغرب میں جنوبی افریقہ، مڈغاسکراورماریشس وغیرہ تک میں غلاموں کو فروخت کیا گیا اورکھیتی باڑی کی غلامی میں جوت دیا گیا۔افریقہ سے پانی کے جہازوں میں ایک لاکھ تیس ہزارغلا موں کو ویسٹ انڈیز اورامریکا لے جا تے ہوئے پچیس ہزارغلام راستے میں ہی مرگئے اور انھیں جہاز سے نکال کر سمندر برد کردیا گیا۔ اسی برطانیہ، امریکا،کینیڈا، نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا کی مقامی آ بادی کو نسیت ونابود کرکے یورپ سے لوگوں کو لے جا کر بسایا اور جب یہاں بادشاہت ختم ہوئی تو جمہوری فضا میں عظیم انقلابی کمیونسٹ کارل مارکس کو پناہ بھی ملی۔اسی برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ جس طرح امریکا، جرمنی، فرانس اوراٹلی میں کمیونسٹوں کو سازش کے ذریعے ہروایا جاتا ہے اسی طرح برطانیہ میں بھی ہوتا ہے۔گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں امیدواروں کے مابین مباحثے، مہم اورانٹرویوز ہوئے جس کے نتیجے میں برنی سینڈرز اور سوشلسٹ نظریے کا پرچار ہوا، اس خوف سے اس بار برطانیہ میں انتخابی مباحثے نہیں کروائے گئے۔
اس لیے کہ جیریمی کوربن نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ ہم اقتدار میں آئے تو ریلوے اوردیگر اہم اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیں گے، طلبہ کی فیس معاف کردیں گے، خواتین کے ساتھ ناانصافیوں خاص کرکے ملازمت میں صنفی تفریق کا خاتمہ کردیں گے، صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کردیںگے وغیرہ وغیرہ۔ وہ فلسطین کی آ زادی کے زبردست حامی ہیں۔ برطانیہ میں ایشیا اورافریقہ سے محنت مزدوری کرنے کے لیے آنے والوں کو مہمان مزدورکہتے ہیں۔ جیریمی نے تو یہاں تک اعلان کردیا تھا کہ ''میں اگروزیراعظم بنا تو نیٹوکا ایٹمک ریموٹ کنٹرول جوکہ سب میرین میں زیرآب سمندر میں چھپا کر رکھا گیا ہے اسے اپنے ہاتھ میں لے لوں گا اورجنگ نہیں کر نے دوں گا۔''
جس برطانیہ کو جمہوریت کا علم بردار سمجھا جاتا ہے وہاں کے فوجی سر براہ نے بیان دیا کہ پھرہم بغاوت کردیں گے۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت ۔ بہرحال لیبر پارٹی 261 نشستیں حاصل کر پائی ہے جب کہ قدامت پرست پارٹی نے 318 نشستیں لی ہیں۔ قدامت پرست پارٹی نے حکو مت بنا بھی لے تو عوام کوکچھ نہیں دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں اب عوام کو دینے کے لیے بھوک اور افلاس کے سوا کچھ نہیں رکھا ہے۔اس کے باوجود تجزیہ کیا جائے تو لیبرپارٹی نے 2015ء کے مقابلے میں 29نشستیں زیادہ حاصل کی ہیں جب کہ قدامت پرست جما عت 20 نشستوں سے ہاتھ دھوبیٹھی ہے۔ اب آیندہ مزید قدامت پرست پارٹی کی صورتحال بدتر ہو گی۔
اس لیے کہ برطانوی حکومت مسلسل امریکا کا ہر صورت میں ساتھ دے رہی ہے۔ حال ہی میں امریکا نے شام، افغانستان اور یمن میں بمباری کی۔ بے شمار بار پاکستان میں ڈرون حملے کیے ، جب کہ سوشلسٹ لیبرلیڈر جیریمی کوربن بیرونی مداخلت کے خلاف ہیں۔ چند مہینوں قبل امریکی سعودی عرب اتحاد، جس کی فوجی اتحاد کے سر براہ راحیل شریف ہیں اب شاید ہی اس کے سر براہ رہ پائیں اس لیے کہ پاکستان ایران کے خلاف کاؤنٹر کرنے پر تیار نہیں۔ ادھر قطرکی جانب سے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے مشورے کی صورت میں سعودی عرب اور قطرکی فضائی، نقل و حمل اور تجارتی تعلقات ختم ہوگئے ہیں ۔ ترکی اورایران نے قطرکو راہداری، تجارتی سہولت اور فوجی مدد دینے کی پیش کش کی ہے۔ جیریمنی کے وفد نے بھی قطرکی حکومت سے ملا قات کی ہے جب کہ امریکا نے قطرکو خبردارکرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں وہ دہشتگردوں کا ساتھ دیتا رہا۔اس سنگین عالمی صورتحال میں برطانیہ کے سامنے ایک مضبوط سوشلسٹ حزب اختلاف ہونے کی وجہ سے وہ اس طرح سے امریکا کا ساتھ اب نہیں دینے کے قا بل رہا بلکہ برطانوی عوام بھی برطانوی سامراجی پا لیسیوں کے خلاف احتجاج کریں گے۔
اس لیے بھی کہ برطانیہ میں اس وقت 25 لاکھ لوگ بیروزگار ہیں۔اب جرمنی سے تعاون کی توقعات نہیں رہی کیونکہ وہ یورپی یونین سے نکل گیا ہے۔ جرمنی نے امریکی خواہش کے خلاف قطر سے تعلقات بر قرار رکھنے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں افراط زر، افلاس، مہاجرین کا ریلا، بیروزگاری اور مہنگائی، نوجوانوں، مزدوروں اورخواتین کو سڑکوں پہ آ نے پر مجبورکرے گی۔ برطانیہ کی سوشلسٹ تحریک، برطانیہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ تحریک اٹلی، اسپین، پرتگال اور یونان میں چلنے والی انارکوکمیونسٹ تحریک اور بھارت کی نکسلائیٹ تحریک کا سلسلہ چین میں چلنے والی مزدورکسان تحریک سے جڑ جائے گی۔ اس لیے بھی کہ برطانوی عوام دہائیوں سے سامراجی مداخلت سے نالاں ہیں۔ جب عراق پرامریکا نے حملہ کیا تو لندن میں بیس لاکھ اورجب کابل پر حملہ کیا تو تیس لاکھ عوام کا سیلاب سڑکوں پہ امنڈ آیا۔
یہ جو دنیا بھر میں داعش اوردیگر شدت پسندوں کے حملے ہیں، یہ امریکی سامراج کی ہی دین ہے۔ برطانیہ اورامریکا مل کر ہی عراق ، افغانستان ، شام، لیبیا اور یمن پر حملے کرتے آرہے ہیں۔ معروف امریکی انقلابی دانشور اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ ''امریکا نے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ طریقے سے 88 ملکوں میں مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔انڈونیشیا میں 15لاکھ، عراق میں 13لاکھ، ویتنام میں 22 لاکھ، بنگلہ دیش میں 30لاکھ، افغانستان میں 12لاکھ، شام میں 14لاکھ اور یمن میں 8 لاکھ انسانوں کو براہ راست قتل کیا گیا۔ دنیا کے سات سمندروں میں امریکا کے 68جنگی بحری بیڑے لنگر انداز ہیں اوران تمام جنگی تیاریوں اور سامراجی مفادات کے چکر میں برطانیہ امریکا کے ساتھ بلکہ اس کا دم چھلا بنا ہوا ہے تاہم اب برطانوی عوام، جیریمی کوربن، برطانیہ کے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اورانارکسٹوں کوامریکا کی کاسہ لیسی کرنے پر برطانیہ کو روکنا ہوگا ورنہ جیریمی کا سوشلزم دھرے کا دھرا رہ جائے گا لہٰذا صرف داعش کے خلاف جنگ کے لیے اتحاد ایک خواب بن کے رہ جائے گا۔
دنیا بھرکے ممالک اور عوام کو امریکی سامراج کی دہشتگردی کو روکنے کے لیے عملی قدم اٹھانے ہوں گے۔ جبتک امریکا اپنے 68 بحری جنگی بیڑ ے نہیں ہٹائے گا، دنیا بھر سے فوجی اڈے ختم نہیں کرے گا، شمالی کوریا (سوشلسٹ ) کے خلاف جارحیت بند نہیں کرے گا تب تک دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا۔ ہر چندکہ مکمل امن ایک کمیونسٹ سماج میں ہی قائم ہوسکتا ہے۔