جاپانی خواتین جوڈو ایتھلیٹس کی کوچز سے پٹائی کا انکشاف

لکڑی کی تلواروں اور تھپڑوں سے مارا،15 کھلاڑیوں پر مشتمل گروپ نے ملکی اولمپک کمیٹی سے شکایت کردی۔


Sports Desk/AFP January 31, 2013
لکڑی کی تلواروں اور تھپڑوں سے مارا،15 کھلاڑیوں پر مشتمل گروپ نے ملکی اولمپک کمیٹی سے شکایت کردی۔ فوٹو : اے ایف پی

KARACHI: ایک اسکول طالبعلم کی خودکشی کے کئی ہفتوں بعد جاپان میں جسمانی سزا پر شدید بحث شروع ہو گئی۔

حکام نے بتایا کہ خواتین اولمپک جوڈو ایتھلیٹس کو کوچزنے لکڑی کی تلواروں اور تھپڑوں سے مارا ہے،15 کھلاڑیوں پر مشتمل ایک گروپ نے جاپان کی اولمپک کمیٹی سے گزشتہ ماہ شکایت کی کہ ہیڈکوچ نے ان کی پٹائی لگائی تھی،گروپ میں شامل ایتھلیٹس نے لندن اولمپکس میں بھی حصہ لیا تھا، انھوں نے بتایا کہ ہیڈ کوچ ریوجی سونوڈو باقاعدگی سے انھیں بُرا بھلا کہتے رہے، چہرے پر تھپڑ مارے اور لکڑی کی ان سخت تلواروں سے پٹائی کی جو جاپان کے مارشل آرٹ میں استعمال ہوتی ہیں،انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ زخمی افراد کو زبردستی مقابلوں میں حصہ لینے پر مجبورکیا جاتا ہے۔

جے او سی کے ایک افسر نے بتایا کہ ہم نے آل جاپان جوڈو فیڈریشن سے تفتیش کرنے اور الزامات درست ہونے پر اپنے طریقوں کو بہتر بنانے کے لیے کہا ہے، اے جے جے ایف کے سربراہ کوشی اونوزاوا نے کہا کہ ہمارے ایگزیکٹیو آفس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور کوچ و ایتھلیٹس سے پوچھ گچھ کی، اس سے معلوم ہوا کہ الزامات بڑی حد تک درست ہیں،اے جے جے ایف نے سونوڈو اور دیگرکوچز کو سمجھا دیا کہ انھیں اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے،اگر مستقبل میں اس قسم کی کوئی شکایت ملی تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔



کیوڈو نیوز کا کہنا ہے کہ رپورٹرزکے سوالات پر سونوڈو نے ان الزامات کی تردید نہیں کی،ان کے مطابق وہ وہی طریقہ استعمال کرتے رہے جسے بہتر سمجھتے تھے لیکن اب وقت کے مطابق اسے تبدیل کریں گے۔ جاپان کی خواتین لندن سے ایک سونے، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ جیت کر لوٹی تھیں جبکہ 2008 کے بیجنگ گیمز میں انھوں نے بڑی تعداد میں تمغے جیتے تھے۔ جے او سی سیکریٹری نوری یوکی اچی ہارا نے میڈیا کو بتایا کہ معاملہ ختم نہیں ہوا، ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایتھلیٹس اور کوچز کے مابین اعتبار اب بھی باقی ہے یا اسے کسی طریقے سے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

یاد رہے یہ معاملہ جاپان کے ایک ہائی اسکول طالب علم کے اس واقعے کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا، جس نے اپنے باسکٹ بال کوچ کی مسلسل مارپیٹ کے بعد خودکشی کرلی تھی۔ اس واقعے نے معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ 1947 سے جاری ایک قانون کے مطابق اساتذہ کو جسمانی مارپیٹ کے اجازت نہیں ہے، البتہ ایسا کرنے والوں کیلیے کوئی سزا بھی مقرر نہیں، جاپانی کھیلوں کی دنیا میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے،2007 میں سومو ریسلنگ کی تربیت حاصل کرنے والا ایک شخص بھی اسی طرح کی سزا سے ہلاک ہوچکا ہے۔

تعلیم اور کھیلوں کے وزیر ہاکوبن شیمورا نے رپورٹرز کو بتایا کہ اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے،اب وقت آگیا کہ جاپان کو کھیلوں بشمول فزیکل ڈسپلن میں کوچنگ کے نئے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ نیہون یونیورسٹی میں کھیلوں کے ماہر ٹوموہیرو نوگوچی کہتے ہیں کہ تعجب ہے اس قسم کے واقعات اولمپک لیول پر واقع ہورہے ہیں۔ 46 سالہ سابق پیراک نوگوچی کو بھی بچپن میں کوچ نے مارا پیٹا تھا،اب بھی چند ایسے کوچز باقی ہیں جنھیں نوجوانی میں ان کے کوچز نے سزا دی اور وہ اب بھی پرانے طریقے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کوچز کو کھیلوں میں کس طرح تعلیم دی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں