سرطان پر تحقیق خلا میں

کشش ثقل کی عدم موجودگی میں سائنس داں مہلک مرض کا علاج دریافت کرنے کے لیے امید

خلا میں سرطان زدہ خلیات پر تحقیق سے اس مہلک مرض کے علاج میں اہم پیش رفت ہوگی۔ فوٹو : فائل

سرطان ان مہلک ترین امراض میں سے ایک ہے جن کا ابھی تک شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا۔

عام طور پر اس مرض کا پتا اس وقت چلتا ہے جب یہ ناقابل علاج مرحلے میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ سائنس اس مہلک مرض کے لاحق ہونے کی وجوہ کا تعین کرنے سے ہنوز قاصر ہے جو دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ افراد کو زندگیوں سے محروم کردیتا ہے۔ سرطان پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ماہرین اس مرض کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی ہی منفرد کوشش کے طور پر اب سرطان زدہ خلیات پر تحقیق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر کی جائے گی۔

سرطان کا مرض دراصل انسانی جسم کے خلیوں کو متأثر کرتا ہے، اور پھر ان سرطان زدہ خلیوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ انسانی جسم میں یہ خلیے سہ سمتی یا تھری ڈی ہیئت میں نمو پاتے ہیں۔ ان کی شکل و صورت قریب قریب کروی ہوتی ہے۔ محققین ان خلیات کو تجربہ گاہوں میں اُگانے کے کام یاب تجربات کرچکے ہیں مگر ٹیسٹ ٹیوبس اور پیٹری ڈشوں میں یہ خلیات سہ سمتی ہیئت کے بجائے دو سمتی تہوں کی صورت میں نمو پاتے ہیں۔ باوجود کوشش کہ انھیں سہ سمتی ہیئت میں اُگانے کی کوششیں کام یاب نہیں ہوسکیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا سبب کشش ثقل ہے جو انھیں کروی شکل اختیار کرنے سے روکتی ہے۔

محققین کے مطابق سرطان کے خلیوں پر تحقیق کے لیے ان کا کروی شکل میں اُگایا جانا ضروری ہے تاکہ یہ جسم کے اندر پائے جانے والے سرطان زدہ خلیوں سے قریب ترین ہوں۔ یہ کام کشش ثقل کی عدم موجودگی ہی میں انجام پاسکتا ہے۔ خلا میں سرطان کے خلیے انسانی جسم کی طرح تھری ڈی صورت میں نمو پائیں گے۔


خلا میں خلیات کی نمو کی تجویز امریکا کی کولوراڈو یونی ورسٹی کے ذیلی ادارے بایوسرو اسپیس ٹیکنالوجیز نے پیش کی ہے۔ ڈاکٹر لوئس زی اس پروجیکٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرطان کے خلیوں پر مؤثر تحقیق اسی وقت ممکن ہے جب انھیں اسی شکل میں اُگایا جاسکے جس صورت میں یہ انسانی جسم کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ محض شکل و صورت مختلف ہونے کی وجہ سے تحقیق میں بڑا فرق آجاتا ہے۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ خلاء میں خلیوں کی تھری ڈی صورت میں نمو تحقیق کے نئے در وا کرے گی تاہم ارضی مدار میں خلیے اُگانا آسان نہیں ہوگا۔ کشش ثقل کی عدم موجودگی کے باعث وہاں محققین کو کئی چیلنج درپیش ہوں گے۔ ان میں سے ایک چیلنج خلیات کو الٹنا پلٹنا اور حرکت دینا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے محققین نے مقناطیس سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی لیے اس منصوبے کو Magnetic 3D Cell Culturing Investigation کا نام دیا گیا ہے۔

زمینی تجربہ گاہوں میں خلیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے لیے بایوپرنٹنگ نامی تیکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ اس تیکنیک میں مقناطیسی قوتوں کے ذریعے خلیوں کو حسب منشا حرکت دی جاتی ہے۔ سرطان زدہ خلیات میں سونے کے ایٹم داخل کیے جاتے ہیں جو خلیوں کی جھلی کے ساتھ مضبوطی سے چپک جاتے ہیں۔ ان ایٹموں کی وجہ سے خلیوں کو الٹنا پلٹنا اور حرکت دینا آسان ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر زی کے مطابق یہ ٹیکنالوجی خلا میں خلیوں کے ساتھ اس انداز سے چھیڑ چھاڑ کو ممکن بناسکتی ہے جو زمین پر ممکن نہیں ہے۔

محققین کو امید ہے خلا میں سرطان زدہ خلیات پر تحقیق سے اس مہلک مرض کے علاج میں اہم پیش رفت ہوگی۔
Load Next Story