کیا پورٹوریکو نئی امریکی ریاست بن جائے گا
ماضی میں کانگریس عوامی ریفرنڈم کو نظرانداز کرتی رہی ہے.
11 جون 2017ء کو ہونے والے ریفرنڈم کے دوران پورٹوریکو میں ووٹروں کی اکثریت نے ریاستہائے متحدہ امریکا کی اکیاون ویں ریاست بننے کے حق میں ووٹ دیا۔
ریفرنڈم کے دوران عوام سے تین سوالات پوچھے گئے تھے: کیا وہ امریکا کے زیرانتظام علاقے کی حیثیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ ریاست کی حیثیت سے امریکا کا حصہ بننا چاہتے ہیں ؟ یا پھر ایک آزاد اور خود مختار قوم بننا چاہتے ہیں؟ ریفرنڈم میں حصہ لینے والے 97فی صد لوگوں نے امریکی ریاست بننے کے حق میں ووٹ دیا۔ اگر امریکی کانگریس ریفرنڈم کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے پورٹوریکو کے عوام کی خواہش کا احترام کرتی ہے تو پھر یہ جزیرہ باقاعدہ سپرپاور کی اکیاون ویں ریاست بن جائے گا۔
پورٹو ریکو بحیرۂ کیریبین کے شمال مشرق میں واقع ایک جزیرہ ہے۔ رقبہ 9104 مربع کلومیٹر اور آبادی چونتیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اکثریتی آبادی ہسپانوی ہے، تاہم ہسپانوی کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ پورٹوریکو امریکا کی دولت مشترکہ ہے۔ امریکی اصطلاح میں دولت مشترکہ سے مراد منظم مگر غیرخودمختار اور تابع علاقہ ہے۔ پورٹوریکو کی اپنی حکومت، اپناآئین، قومی پرچم اور اپنا قومی ترانہ ہے تاہم کرنسی امریکی ڈالر ہی ہے۔ انتخابات بھی ہوتے ہیں جن میں عوام اپنے گورنر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسے امریکی صدر کے نمائندے کے طور پر جزیرے کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ موجودہ گورنر ریکارڈو اے روسیلو کا تعلق نیو پروگریسیو پارٹی سے ہے جو جزیرے کے امریکی ریاست میں بدل جانے کی حامی ہے۔ حالیہ ریفرنڈم کا انعقاد بھی اسی پارٹی کی جانب سے کروایا گیا ہے۔
پورٹوریکو کے عوام کو 1917ء میں امریکی شہری کا درجہ دیا گیا تھا مگر اصل امریکیوں کے برعکس انھیں صرف بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ سوشل سیکیورٹی کی مد میں وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن امریکی شہریوں کی طرح 'سپلیمینٹل سیکیورٹی انکم اسسٹینس' کے حق دار نہیں، البتہ علاج معالجے کی سہولت حاصل ہے۔ امریکی شہری ہونے کے باوجود وہ صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں۔ پورٹو ریکوکے شہری بغیرویزا اور پاسپورٹ کے امریکا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ امریکی شہریوں کے مقابلے میں انھیں یہ اضافی سہولت حاصل ہے کہ پورٹوریکو میںکاروبار یا ملازمت کرتے ہوئے وہ فیڈرل انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ ٹیکس ان کی امریکا میں موجودگی پر لاگو ہوتا ہے۔
زیرانتظام علاقہ ہونے کی حیثیت سے پورٹوریکوکو ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز امریکا فراہم کرتا ہے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت بھی امریکی فوج کے ذمے ہے۔
کہنے کو پورٹوریکو امریکا کی دولت مشترکہ یا اس کے زیرانتظام علاقہ ہے۔ ان اصطلاحات کوکالونی کی جدید شکل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ امریکا کے مخالف پورٹوریکن خود کو اب بھی امریکا کی کالونی ہی سمجھتے ہیں، کیوں کہ جزیرے اور اس کے وسائل پر سپرپاور کا مکمل کنٹرول ہے۔ جزیرے کی گورنری اسی شخص کو حاصل ہوتی ہے جو امریکی مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ پورٹوریکو سے ہر سال کئی ارب ڈالر امریکا منتقل ہوتے ہیں۔ 2009ء میں مختلف ٹیکسوں کی مد میں امریکی خزانے میں جمع ہونے والی رقم 3.742 ارب ڈالر تھی۔ بعد کے برسوں میں یقیناً اس حجم میں اضافہ ہوا ہوگا۔ پورٹوریکو سے حاصل کردہ رقم کا کچھ حصہ فنڈزکے نام پر واپس کردیا جاتا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورٹوریکو کے عوام ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے بجائے امریکا کا حصہ کیوں بننا چاہتے ہیں؟ اس کا سبب جزیرے کی دگرگوں معاشی صورت حال ہے۔ حکومت مجموعی طور پر 120ارب ڈالر کی مقروض ہے، جب کہ اس کی جی ڈی پی کا حجم بھی اتنا ہی ہے۔ یوں ایک لحاظ سے معاشی طور پر پورٹوریکو دیوالیہ ہوچکا ہے۔ پورٹوریکو میں فی کس آمدنی امریکا کی غریب ترین ریاست مسی سپی کے مقابلے میں بھی نصف ہے۔ تباہ شدہ معیشت کے اثرات جزیرے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ جزیرے کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔
عوامی خدمات کے منصوبوں کے لیے مختص رقم کا حجم برائے نام رہ گیا ہے۔ معاشی سرگرمیاں بھی سکڑتی جارہی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جزیرے کے باشندوں کی بڑی تعداد بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکا پہنچ چکی ہے مگر پورٹوریکن ہونے کی وجہ سے انھیں وہاں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ بہرحال اپنے وطن کے مقابلے میں وہاں انھیں روزگار کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے امریکی ریاست بن جانے کے بعد ان کے حالات بدل جائیں گے کیوںکہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ان کی مد دکرنے پر مجبور ہوگی۔ انھی خیالات کا اظہار ریفرنڈم کے بعد گورنر ریکارڈو اے روسیلو نے کیا۔ ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے روسیلو نے کہا کہ اس ریفرنڈم کے بعد وفاقی حکومت پورٹوریکو کے امریکی شہریوں کی اکثریت کے مطالبے کو نظرانداز نہیں کرسکے گی۔ کانگریس کو قائل کرنے کے لیے ریکارڈو اے روسیلو ایک پانچ رکنی وفد واشنگٹن روانہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔
قبل ازیں 1967ء سے لے کر 2012ء تک پورٹوریکو میں چار بار عوامی ریفرنڈم ہوچکے ہیں۔ ان کے نتائج کچھ بھی رہے ہوں مگر امریکی کانگریس نے انھیں کبھی اہمیت نہیں دی۔ 2012ء میں بھی ووٹروں کی اکثریت نے امریکی ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی مگر اس خواہش کو امریکی حکومت نے نظرانداز کردیا تھا۔ حالیہ ریفرنڈم پر امریکی توجہ کا امکان اس لیے بھی عنقا ہوجاتا ہے کہ اپریل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پورٹوریکو کو سابق صدر کے پروگرام کے تحت ہیلتھ کیئر کی مد میں فنڈز فراہم کرنے کی مخالفت کرچکے ہیں۔
پورٹوریکو عیسائی اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں کی لگ بھگ 97 فی صد آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔ مشرقی تیمور میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی تھی۔ انڈونیشیا کے زیرانتظام جزیرے کے عوام کی خواہش کے مطابق آزاد اور خودمختار ریاست بنوانے کے لیے امریکا سمیت عالمی طاقتیں متحرک ہوئیں اور مختصر عرصے میں مشرقی تیمور دنیا کے نقشے پر نئے ملک کی حیثیت سے اُبھر آیا تھا۔ مگر پورٹوریکو کے عوام کی خواہش کو امریکی کانگریس نظرانداز کرتی آرہی ہے۔
جزیرے کے ایک طبقے کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا پورٹوریکو کے وسائل پر قابض ہے۔ ہر سال کئی ارب ڈالر امریکی خزانے میں منتقل ہوتے ہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ ساڑھے تین ہزار میل کی دوری پر واقع جزیرے کو اپنا حصہ بنا کر یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کا ذمہ لے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عوام پورٹوریکو کو امریکا کی نئی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں؟97 فی صد ووٹروں کی امریکی ریاست کے حق میں رائے سامنے آنے کے بعد یہ سوال کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے مگر اس لحاظ سے موزوں ہے کہ ریفرنڈم میں صرف 23فی صد عوام نے حق رائے دہی استعمال کیا ! بقیہ 77فی صد 11 جون کو اپنے معمولات زندگی میںمصروف رہے۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کی وجہ ان کا یہ موقف تھا کہ حکمران پارٹی نے جو جزیرے کو امریکی ریاست بنانے کی حامی ہے، ریفرنڈم میں حسب منشا نتیجہ حاصل کرنے کی غرض سے دھاندلی کی تیاری کررکھی تھی۔
حزب مخالف کی جماعتوں کے حامیوں کے علاوہ عام لوگوں کی اکثریت نے ماضی میں ہر ریفرنڈم پر امریکی حکومت کے کسی ردعمل کا اظہار نہ کرنے کے رویے کے پیش نظر حالیہ ریفرنڈم میں دل چسپی نہیں لی اور اسے ایک بے کار مشق قرار دیا۔ اکتوبر میں ایک بار پھر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا گیا ہے، مگر جب تک امریکی کانگریس پورٹوریکو کے عوام کی رائے کا احترام نہیں کرتی، اس وقت تک یہ مشق محض مشق ہی ثابت ہوتی رہے گی۔
تاریخی پس منظر
پورٹو ریکو کاجزیرہ زمانۂ قدیم سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہاں آباد ہونے والے اولین لوگوں کا تعلق چارہزار سال قبل مسیح سے تھا۔ وہ اورتورائید کہلاتے تھے۔ جزیرے کی موجودہ آبادی تائینو قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ یہاں یورپی اور افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے بھی آباد ہیں۔ 19 نومبر 1493ء کوکولمبس جب ہسپانوی شہنشاہیت کے نمائندے کی حیثیت سے پورٹوریکو پہنچا تو جزیرے پر تائینو ہی آباد تھے۔کولمبس کی آمد کے کچھ ہی دنوں بعد پورٹوریکو پر سلطنت ہسپانیہ قابض ہوگئی۔ سولھویں صدی کے آغاز پر یہ جزیرہ ہسپانیہ کی کالونی میں بدل چکا تھا۔ سلطنت ہسپانیہ کے عہدے داروں کے پے در پے مظالم نے انیسویں صدی میں یہاں تحریک آزادی کو جنم دیا۔ اس عرصے کے دوران یہاں اسپین سے لاکر بسائے جانے والے تارکین وطن کی اکثریت ہوچکی تھی۔ تعداد میں مختصر ہونے کے باعث پورٹوریکو کے مقامی باشندوںکی تحریک آزادی کام یاب نہ ہوسکی اورکچل دی گئی۔
انیسویں صدی کے اواخر میں امریکا نے برطانیہ کی رائل نیوی کے طرز پر بحریہ کی تشکیل نو کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے کیریبیئن میں اڈے درکار ہوتے۔ اس ضرورت کے لیے امریکا کی نظریں کیوبا اور پورٹوریکو پر جا ٹھہریں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان جزائر میں گنے کی شان دار پیداوار ہوتی تھی جس سے امریکی سرزمین محروم تھی۔ تجارتی لحاظ سے گنے کی پیداوار بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ چناں چہ ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی افواج نے ہلہ بول دیا۔
اس جنگ میں امریکا کا پلّہ بھاری رہا اور 1898ء میں سلطنت ہسپانیہ پورٹوریکو، گوام، کیوبا اور فلپائن موجودہ سپرپاورکے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئی۔ زیرقبضہ علاقوں کی امریکا کو حوالگی کا یہ معاہدہ، معاہدۂ پیرس کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کے ساتھ ہی ہسپانوی شہنشاہیت کا سورج غروب ہوگیا اور امریکا کے سپرپاور بننے کی بنیاد پڑگئی۔
ریفرنڈم کے دوران عوام سے تین سوالات پوچھے گئے تھے: کیا وہ امریکا کے زیرانتظام علاقے کی حیثیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ ریاست کی حیثیت سے امریکا کا حصہ بننا چاہتے ہیں ؟ یا پھر ایک آزاد اور خود مختار قوم بننا چاہتے ہیں؟ ریفرنڈم میں حصہ لینے والے 97فی صد لوگوں نے امریکی ریاست بننے کے حق میں ووٹ دیا۔ اگر امریکی کانگریس ریفرنڈم کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے پورٹوریکو کے عوام کی خواہش کا احترام کرتی ہے تو پھر یہ جزیرہ باقاعدہ سپرپاور کی اکیاون ویں ریاست بن جائے گا۔
پورٹو ریکو بحیرۂ کیریبین کے شمال مشرق میں واقع ایک جزیرہ ہے۔ رقبہ 9104 مربع کلومیٹر اور آبادی چونتیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اکثریتی آبادی ہسپانوی ہے، تاہم ہسپانوی کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ پورٹوریکو امریکا کی دولت مشترکہ ہے۔ امریکی اصطلاح میں دولت مشترکہ سے مراد منظم مگر غیرخودمختار اور تابع علاقہ ہے۔ پورٹوریکو کی اپنی حکومت، اپناآئین، قومی پرچم اور اپنا قومی ترانہ ہے تاہم کرنسی امریکی ڈالر ہی ہے۔ انتخابات بھی ہوتے ہیں جن میں عوام اپنے گورنر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسے امریکی صدر کے نمائندے کے طور پر جزیرے کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ موجودہ گورنر ریکارڈو اے روسیلو کا تعلق نیو پروگریسیو پارٹی سے ہے جو جزیرے کے امریکی ریاست میں بدل جانے کی حامی ہے۔ حالیہ ریفرنڈم کا انعقاد بھی اسی پارٹی کی جانب سے کروایا گیا ہے۔
پورٹوریکو کے عوام کو 1917ء میں امریکی شہری کا درجہ دیا گیا تھا مگر اصل امریکیوں کے برعکس انھیں صرف بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ سوشل سیکیورٹی کی مد میں وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن امریکی شہریوں کی طرح 'سپلیمینٹل سیکیورٹی انکم اسسٹینس' کے حق دار نہیں، البتہ علاج معالجے کی سہولت حاصل ہے۔ امریکی شہری ہونے کے باوجود وہ صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں۔ پورٹو ریکوکے شہری بغیرویزا اور پاسپورٹ کے امریکا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ امریکی شہریوں کے مقابلے میں انھیں یہ اضافی سہولت حاصل ہے کہ پورٹوریکو میںکاروبار یا ملازمت کرتے ہوئے وہ فیڈرل انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ ٹیکس ان کی امریکا میں موجودگی پر لاگو ہوتا ہے۔
زیرانتظام علاقہ ہونے کی حیثیت سے پورٹوریکوکو ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز امریکا فراہم کرتا ہے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت بھی امریکی فوج کے ذمے ہے۔
کہنے کو پورٹوریکو امریکا کی دولت مشترکہ یا اس کے زیرانتظام علاقہ ہے۔ ان اصطلاحات کوکالونی کی جدید شکل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ امریکا کے مخالف پورٹوریکن خود کو اب بھی امریکا کی کالونی ہی سمجھتے ہیں، کیوں کہ جزیرے اور اس کے وسائل پر سپرپاور کا مکمل کنٹرول ہے۔ جزیرے کی گورنری اسی شخص کو حاصل ہوتی ہے جو امریکی مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ پورٹوریکو سے ہر سال کئی ارب ڈالر امریکا منتقل ہوتے ہیں۔ 2009ء میں مختلف ٹیکسوں کی مد میں امریکی خزانے میں جمع ہونے والی رقم 3.742 ارب ڈالر تھی۔ بعد کے برسوں میں یقیناً اس حجم میں اضافہ ہوا ہوگا۔ پورٹوریکو سے حاصل کردہ رقم کا کچھ حصہ فنڈزکے نام پر واپس کردیا جاتا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورٹوریکو کے عوام ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے بجائے امریکا کا حصہ کیوں بننا چاہتے ہیں؟ اس کا سبب جزیرے کی دگرگوں معاشی صورت حال ہے۔ حکومت مجموعی طور پر 120ارب ڈالر کی مقروض ہے، جب کہ اس کی جی ڈی پی کا حجم بھی اتنا ہی ہے۔ یوں ایک لحاظ سے معاشی طور پر پورٹوریکو دیوالیہ ہوچکا ہے۔ پورٹوریکو میں فی کس آمدنی امریکا کی غریب ترین ریاست مسی سپی کے مقابلے میں بھی نصف ہے۔ تباہ شدہ معیشت کے اثرات جزیرے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ جزیرے کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔
عوامی خدمات کے منصوبوں کے لیے مختص رقم کا حجم برائے نام رہ گیا ہے۔ معاشی سرگرمیاں بھی سکڑتی جارہی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جزیرے کے باشندوں کی بڑی تعداد بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکا پہنچ چکی ہے مگر پورٹوریکن ہونے کی وجہ سے انھیں وہاں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ بہرحال اپنے وطن کے مقابلے میں وہاں انھیں روزگار کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے امریکی ریاست بن جانے کے بعد ان کے حالات بدل جائیں گے کیوںکہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ان کی مد دکرنے پر مجبور ہوگی۔ انھی خیالات کا اظہار ریفرنڈم کے بعد گورنر ریکارڈو اے روسیلو نے کیا۔ ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے روسیلو نے کہا کہ اس ریفرنڈم کے بعد وفاقی حکومت پورٹوریکو کے امریکی شہریوں کی اکثریت کے مطالبے کو نظرانداز نہیں کرسکے گی۔ کانگریس کو قائل کرنے کے لیے ریکارڈو اے روسیلو ایک پانچ رکنی وفد واشنگٹن روانہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔
قبل ازیں 1967ء سے لے کر 2012ء تک پورٹوریکو میں چار بار عوامی ریفرنڈم ہوچکے ہیں۔ ان کے نتائج کچھ بھی رہے ہوں مگر امریکی کانگریس نے انھیں کبھی اہمیت نہیں دی۔ 2012ء میں بھی ووٹروں کی اکثریت نے امریکی ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی مگر اس خواہش کو امریکی حکومت نے نظرانداز کردیا تھا۔ حالیہ ریفرنڈم پر امریکی توجہ کا امکان اس لیے بھی عنقا ہوجاتا ہے کہ اپریل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پورٹوریکو کو سابق صدر کے پروگرام کے تحت ہیلتھ کیئر کی مد میں فنڈز فراہم کرنے کی مخالفت کرچکے ہیں۔
پورٹوریکو عیسائی اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں کی لگ بھگ 97 فی صد آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔ مشرقی تیمور میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی تھی۔ انڈونیشیا کے زیرانتظام جزیرے کے عوام کی خواہش کے مطابق آزاد اور خودمختار ریاست بنوانے کے لیے امریکا سمیت عالمی طاقتیں متحرک ہوئیں اور مختصر عرصے میں مشرقی تیمور دنیا کے نقشے پر نئے ملک کی حیثیت سے اُبھر آیا تھا۔ مگر پورٹوریکو کے عوام کی خواہش کو امریکی کانگریس نظرانداز کرتی آرہی ہے۔
جزیرے کے ایک طبقے کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا پورٹوریکو کے وسائل پر قابض ہے۔ ہر سال کئی ارب ڈالر امریکی خزانے میں منتقل ہوتے ہیں تو اسے کیا پڑی ہے کہ ساڑھے تین ہزار میل کی دوری پر واقع جزیرے کو اپنا حصہ بنا کر یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کا ذمہ لے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عوام پورٹوریکو کو امریکا کی نئی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں؟97 فی صد ووٹروں کی امریکی ریاست کے حق میں رائے سامنے آنے کے بعد یہ سوال کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے مگر اس لحاظ سے موزوں ہے کہ ریفرنڈم میں صرف 23فی صد عوام نے حق رائے دہی استعمال کیا ! بقیہ 77فی صد 11 جون کو اپنے معمولات زندگی میںمصروف رہے۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کی وجہ ان کا یہ موقف تھا کہ حکمران پارٹی نے جو جزیرے کو امریکی ریاست بنانے کی حامی ہے، ریفرنڈم میں حسب منشا نتیجہ حاصل کرنے کی غرض سے دھاندلی کی تیاری کررکھی تھی۔
حزب مخالف کی جماعتوں کے حامیوں کے علاوہ عام لوگوں کی اکثریت نے ماضی میں ہر ریفرنڈم پر امریکی حکومت کے کسی ردعمل کا اظہار نہ کرنے کے رویے کے پیش نظر حالیہ ریفرنڈم میں دل چسپی نہیں لی اور اسے ایک بے کار مشق قرار دیا۔ اکتوبر میں ایک بار پھر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا گیا ہے، مگر جب تک امریکی کانگریس پورٹوریکو کے عوام کی رائے کا احترام نہیں کرتی، اس وقت تک یہ مشق محض مشق ہی ثابت ہوتی رہے گی۔
تاریخی پس منظر
پورٹو ریکو کاجزیرہ زمانۂ قدیم سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہاں آباد ہونے والے اولین لوگوں کا تعلق چارہزار سال قبل مسیح سے تھا۔ وہ اورتورائید کہلاتے تھے۔ جزیرے کی موجودہ آبادی تائینو قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ یہاں یورپی اور افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے بھی آباد ہیں۔ 19 نومبر 1493ء کوکولمبس جب ہسپانوی شہنشاہیت کے نمائندے کی حیثیت سے پورٹوریکو پہنچا تو جزیرے پر تائینو ہی آباد تھے۔کولمبس کی آمد کے کچھ ہی دنوں بعد پورٹوریکو پر سلطنت ہسپانیہ قابض ہوگئی۔ سولھویں صدی کے آغاز پر یہ جزیرہ ہسپانیہ کی کالونی میں بدل چکا تھا۔ سلطنت ہسپانیہ کے عہدے داروں کے پے در پے مظالم نے انیسویں صدی میں یہاں تحریک آزادی کو جنم دیا۔ اس عرصے کے دوران یہاں اسپین سے لاکر بسائے جانے والے تارکین وطن کی اکثریت ہوچکی تھی۔ تعداد میں مختصر ہونے کے باعث پورٹوریکو کے مقامی باشندوںکی تحریک آزادی کام یاب نہ ہوسکی اورکچل دی گئی۔
انیسویں صدی کے اواخر میں امریکا نے برطانیہ کی رائل نیوی کے طرز پر بحریہ کی تشکیل نو کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے کیریبیئن میں اڈے درکار ہوتے۔ اس ضرورت کے لیے امریکا کی نظریں کیوبا اور پورٹوریکو پر جا ٹھہریں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان جزائر میں گنے کی شان دار پیداوار ہوتی تھی جس سے امریکی سرزمین محروم تھی۔ تجارتی لحاظ سے گنے کی پیداوار بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ چناں چہ ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی افواج نے ہلہ بول دیا۔
اس جنگ میں امریکا کا پلّہ بھاری رہا اور 1898ء میں سلطنت ہسپانیہ پورٹوریکو، گوام، کیوبا اور فلپائن موجودہ سپرپاورکے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئی۔ زیرقبضہ علاقوں کی امریکا کو حوالگی کا یہ معاہدہ، معاہدۂ پیرس کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کے ساتھ ہی ہسپانوی شہنشاہیت کا سورج غروب ہوگیا اور امریکا کے سپرپاور بننے کی بنیاد پڑگئی۔