ریل اور میل
انگریز نے ریل اور میل کو متعارف کراکے ڈیڑھ سو برس ہندوستان پر حکمرانی کی
ریل اور میل دونوں انگریز کی عنایت ہیں' ریل یعنی ٹرین ذرایع آمدورفت کا ایک سہل اور سستا ذریعہ۔ میل کے انگریزی اور ہندی/اردو میں بالکل مختلف معنی ہیں۔ انگریزی میں Mail پیغام رسانی یا خط و کتابت کی ترسیل کے لیے مستعمل ہے جب کہ ہندی/اردو میں میل بمعنی ملاپ استعمال ہوتا ہے۔
ریل اور میل نے پورے متحدہ ہندوستان کو بدل کر رکھ دیا۔ کراچی سے چٹاگانگ اور پشاور سے راس کماری تک عام سے عام آدمی کا سفر بھی آسان ہو گیا۔ میل نے محبتوں کو پروان چڑھانے، کہیں دور گئے پیاروں سے رابطہ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
معروف بھارتی دانشور رام پنیانی کا کہنا ہے کہ انگریز نے ریل اور میل کو متعارف کراکے ڈیڑھ سو برس ہندوستان پر حکمرانی کی۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے اس کی حکمرانی کی راہ میں روڑے اٹکائے ان کے لیے جیل بھی تعمیر کی۔ یوں ان کا دعویٰ ہے کہ ریل، میل اور جیل ہندوستان پر انگریز کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کا سبب بنے۔
انگریزوں پر نوآبادیاتی آقا کے طور پر تنقید اپنی جگہ، مگر انھوں نے اس خطے میں جو کام کیے وہ بھی قابل صد ستائش ہیں۔ پیمائش اراضی سے مردم شماری تک، قانون سازی سے اداروں کی تشکیل تک اور تعلیم و صحت کی سہولیات سے مواصلات کے نظام تک وہ کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں انگریز نے ہندوستان کو نئی زندگی سے روشناس نہیں کرایا۔
مرزا غالب، جب پنشن کی بحالی کے لیے کلکتہ جانے پر مجبور ہوئے تو دہلی سے بہار تک مختلف ذرایع استعمال کیے لیکن جب جمشیدپور سے کلکتہ تک ریل میں سفر کیا تو ان کی جہاندیدہ نظروں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں ایک نئی تبدیلی کروٹ بدل رہی ہے چنانچہ واپسی پر انھوں نے سر سید احمد خان کو مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ دینے پر آمادہ کیا جو اس وقت دہلی کی قدیم عمارتوں پر اپنی تصنیف آثار صنادید لکھنے میں مگن تھے۔
سر سید نے مرزا کی بات کو اہمیت دی اور اپنی بقیہ زندگی تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ سرسید کی راہ پر چلتے ہوئے حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام اور جسٹس امیر علی نے کلکتہ میں عصری تعلیم کا ادارہ قائم کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانان ہند پر غالب کا احسان ہے کہ انھوں نے سرسید کو جدید تعلیم کے فروغ کی جانب راغب کیا۔ آج برصغیر میں جتنے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں وہ انھی تینوں مدبرین کی بے لوث محنت اور مرزا نوشہ کی بصیرت کا صلہ ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا ریل کا۔ ریل کے سفر کی اپنی رومانیت ہے' جو مزا ریل کے سفر میں ہے وہ نہ تو ہوائی سفر میں نصیب ہوتا ہے اور نہ اپنی سواری میں۔ مجاز نے تو ایک پوری نظم ریل پر لکھ دی جس کا ہر شعر ایک نگینہ ہے۔ اس نظم کا پہلا شعر ہے:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
انگریز نے 1849ء میں ممبئی سے تھانے تک27 کلومیٹر ریل کی پٹڑی بچھا کر اس نئے ذریعہ آمدورفت کا آغاز کیا اور 1929ء تک محض 80برس کے دوران 66ہزار کلومیٹر ریلوے لائن بچھا کر پورے ہندوستان کے شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔
بھارت نے تو آزادی کے بعد ریل کے نظام میں مزید توسیع کرکے اس کے سفر کو اور زیادہ بہتر اور آرام دہ بنا دیا مگر پاکستان میں ریلوے کوتاہ بین قیادتوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے۔ پتا نہیں کب بند ہو کر ہمارے دقیانوسی ہونے کا منہ چڑائے۔ اگر ریلوے بند ہوتی ہے تو یہ اس ملک کے غریب عوام کے لیے ایک تازیانہ سے کم نہ ہو گا جن کے لیے سب سے سستا سفر ریل کا ہوتا ہے۔
انگریز کا دوسرا کارنامہ میل (Mail) یعنی ڈاک کا نظام تھا۔ پورے ہندوستان میں ڈاک خانوں کا جال بچھا دیا۔ ہر ڈاک خانے سے سرخ سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا گلی گلی، محلہ محلہ جاتا اور ان کے پیاروں کے خط انھیں پہنچاتا۔
وہ ہر گھر کا رازدان بھی ہوتا کیونکہ وہ ان کے خط لکھتا اور انھیں اپنی ذمے داری پر پوسٹ کرتا۔ یہ ماضی قریب کا بڑا خوبصورت کلچر تھا۔ ڈاکیے کی گھنٹی سنتے ہی بچے بالے ہی نہیں بزرگ بھی اس امید پر گھر سے باہر آجاتے کہ شاید ان کا کوئی خط آیا ہو۔ ڈاک اور ریل میں چولی دامن کا رشتہ تھا۔
ڈاک زیادہ تر ٹرین کے ذریعے ہی پورے ہندوستان میں جاتی تھی۔ ہر ٹرین میں سرخ رنگ کا ایک خصوصی ڈبہ ہوا کرتا تھا جس میں ہر شہر کے خطوط تھیلوں میں بند ہوتے تھے۔ ہر اسٹیشن پر عملہ یہ تھیلہ متعلقہ شہر کے ڈاک خانے کے عملے کو دیا کرتا تھا۔ خط کا ذکر آتے ہیں آنکھوں میں شبنم کا چہرہ گھومنے اور کانوں میں ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز گونجنے لگتی ہے۔
چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے
حال میرے دل کا تمام لکھ دے
مگر نہ اب وہ ریل ہے اور نہ وہ میل ہے۔ میں نے بیسویں صدی کے آخری برس جب اپنی بہن کو زندگی کا پہلا ای میل بھیجا تو اس کا جواب آیا کہ تمہارا خط پڑھ کر دل کو سکون ضرور ملا مگر خط بے رنگ و بے بو لگا۔ اس میں نہ تمہارے ہاتھ کی خوشبو تھی اور نہ تحریر کا بانکپن' اگر مجھ پر عنایت کرو تو یہ ''مشینی خط'' نہ ہی بھیجو تو بہتر ہے۔ فون پر تمہاری آواز سن کر خوش ہو جائیں گے۔ لیکن زمانہ بدل گیا ہے یعنی بقول اکبر الہ آبادی
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
خط پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
مگر آج ہماری مجبوری ہے کہ ہم پائپ سے آگے بڑھ کر منرل واٹر پیتے ہیں اور خط ہی پر کیا موقوف ہے عید کارڈ اور شادی کے دعوت نامے بھی ای میل کے ذریعے بھیجتے ہیں۔
ڈاکیے کی تو شکل کو ترس گئے ہیں۔ اس کی وہ خاکی وردی اور سرخ سائیکل قصہ پارینہ ہوئی۔ ٹیلی گرام کا محکمہ تو شاید بند ہی ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ ٹیلی فون اور موبائل فون نے لے لی ہے۔ sms نے ای میل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کا ناطقہ بند کر دیا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
زندگی کی بھاگ دوڑ، تیزی طراری نے سفر کی رومانیت کو کھا لیا ہے۔ ہم نے ٹرین کا آخری سفر 2004 میں کیا تھا۔ اس کے بعد نزدیکی سفر بذریعہ کار اور دور کے سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیے۔ 2004 میں ممبئی سوشل فورم میں شرکت کے لیے پہلے قراقرم ایکسپریس سے لاہور اور پھر امرتسر سے ممبئی تک گولڈن ٹیمپل ایکسپریس میں سفر کیا۔
کراچی سے لاہور کے20گھنٹے کے سفر نے تھکا دیا مگر امرتسر سے ممبئی کے33گھنٹے کے سفر میں جو لطف آیا وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کے بعد کئی بار ٹرین سے سفر کرنے کا قصد کیا مگر ٹرین کے تسلسل کے ساتھ کئی کئی گھنٹے تاخیر کی خبروں نے ہمت نہیں ہونے دی کہ ٹرین سے سفر کریں۔
65برس میں برصغیر میں کتنا فرق آگیا ہے۔1965 تک ان کی ٹرین سست روی کا شکار ہوتی تھیں جب کہ ہماری ٹرینیں تیز رفتار تھیں مگر ہم نے ریلوے کی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے اس دودھ دینے والی گائے کو ہی کاٹنا شروع کر دیا۔ نہ کوئی نئی پٹڑی بچھائی گئی نہ ٹرینوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری نے ریلوے کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج انجنوں کا قحط ہے اور انھیں چلانے کے لیے ڈیزل کی قلت۔
کوئی ٹرین نہ وقت پر روانہ ہوتی ہے اور نہ وقت پر منزل مقصود تک پہنچتی ہے۔ بہت سی نامی گرامی ٹرینیں بند ہو چکی ہیں، کچھ بند ہونے کو ہیں جب کہ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک ٹرین چل رہی ہے جن میں ہر آنے والے دن نئی سہولیات متعارف ہو رہی ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جس طرح آج ہم اپنے بچوں کو پرانے پوسٹ کارڈ دکھاتے ہیں اور انھیں ڈاک بابو کی کہانیاں سناتے ہیں اسی طرح ان کے بچوں یعنی اپنے پوتا پوتی کو ریل کی کہانی سنایا کریں گے اور بچے پوچھا کریں گے کہ دادا جان ٹرین کیسی ہوتی تھی، اس کی تصویر تو دکھائیں۔
علم سے دوری جہل آمادگی اور جنون پرستی کو جنم دیتی ہے۔ کوتاہ بینی قوموں کا مستقبل تباہ کرتی ہے۔ شاید ہمیں پتھر کا دور بہت عزیز ہے، اسی لیے ہر اس چیز کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو جدیدیت اور جدت طرازی کی طرف جاتی ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہم سے مڈل کلاس سوچ چھین لی جب کہ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور نے ہماری عقل و خرد پر تالے لگا دیے۔
اب ہماری پہچان دھوکا دہی، جعل سازی اور بے ایمانی ہے۔ جس ملک کی قیادت اپنے مواصلاتی نظام کو درست نہیں کر سکتی اس سے کیا توقع کی جائے کہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ دنیا کے ہم قدم بنا سکے گی۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے سوائے آنسو ضبط کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہے۔
ریل اور میل نے پورے متحدہ ہندوستان کو بدل کر رکھ دیا۔ کراچی سے چٹاگانگ اور پشاور سے راس کماری تک عام سے عام آدمی کا سفر بھی آسان ہو گیا۔ میل نے محبتوں کو پروان چڑھانے، کہیں دور گئے پیاروں سے رابطہ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
معروف بھارتی دانشور رام پنیانی کا کہنا ہے کہ انگریز نے ریل اور میل کو متعارف کراکے ڈیڑھ سو برس ہندوستان پر حکمرانی کی۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے اس کی حکمرانی کی راہ میں روڑے اٹکائے ان کے لیے جیل بھی تعمیر کی۔ یوں ان کا دعویٰ ہے کہ ریل، میل اور جیل ہندوستان پر انگریز کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کا سبب بنے۔
انگریزوں پر نوآبادیاتی آقا کے طور پر تنقید اپنی جگہ، مگر انھوں نے اس خطے میں جو کام کیے وہ بھی قابل صد ستائش ہیں۔ پیمائش اراضی سے مردم شماری تک، قانون سازی سے اداروں کی تشکیل تک اور تعلیم و صحت کی سہولیات سے مواصلات کے نظام تک وہ کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں انگریز نے ہندوستان کو نئی زندگی سے روشناس نہیں کرایا۔
مرزا غالب، جب پنشن کی بحالی کے لیے کلکتہ جانے پر مجبور ہوئے تو دہلی سے بہار تک مختلف ذرایع استعمال کیے لیکن جب جمشیدپور سے کلکتہ تک ریل میں سفر کیا تو ان کی جہاندیدہ نظروں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں ایک نئی تبدیلی کروٹ بدل رہی ہے چنانچہ واپسی پر انھوں نے سر سید احمد خان کو مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ دینے پر آمادہ کیا جو اس وقت دہلی کی قدیم عمارتوں پر اپنی تصنیف آثار صنادید لکھنے میں مگن تھے۔
سر سید نے مرزا کی بات کو اہمیت دی اور اپنی بقیہ زندگی تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ سرسید کی راہ پر چلتے ہوئے حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام اور جسٹس امیر علی نے کلکتہ میں عصری تعلیم کا ادارہ قائم کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانان ہند پر غالب کا احسان ہے کہ انھوں نے سرسید کو جدید تعلیم کے فروغ کی جانب راغب کیا۔ آج برصغیر میں جتنے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں وہ انھی تینوں مدبرین کی بے لوث محنت اور مرزا نوشہ کی بصیرت کا صلہ ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا ریل کا۔ ریل کے سفر کی اپنی رومانیت ہے' جو مزا ریل کے سفر میں ہے وہ نہ تو ہوائی سفر میں نصیب ہوتا ہے اور نہ اپنی سواری میں۔ مجاز نے تو ایک پوری نظم ریل پر لکھ دی جس کا ہر شعر ایک نگینہ ہے۔ اس نظم کا پہلا شعر ہے:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
انگریز نے 1849ء میں ممبئی سے تھانے تک27 کلومیٹر ریل کی پٹڑی بچھا کر اس نئے ذریعہ آمدورفت کا آغاز کیا اور 1929ء تک محض 80برس کے دوران 66ہزار کلومیٹر ریلوے لائن بچھا کر پورے ہندوستان کے شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔
بھارت نے تو آزادی کے بعد ریل کے نظام میں مزید توسیع کرکے اس کے سفر کو اور زیادہ بہتر اور آرام دہ بنا دیا مگر پاکستان میں ریلوے کوتاہ بین قیادتوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے۔ پتا نہیں کب بند ہو کر ہمارے دقیانوسی ہونے کا منہ چڑائے۔ اگر ریلوے بند ہوتی ہے تو یہ اس ملک کے غریب عوام کے لیے ایک تازیانہ سے کم نہ ہو گا جن کے لیے سب سے سستا سفر ریل کا ہوتا ہے۔
انگریز کا دوسرا کارنامہ میل (Mail) یعنی ڈاک کا نظام تھا۔ پورے ہندوستان میں ڈاک خانوں کا جال بچھا دیا۔ ہر ڈاک خانے سے سرخ سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا گلی گلی، محلہ محلہ جاتا اور ان کے پیاروں کے خط انھیں پہنچاتا۔
وہ ہر گھر کا رازدان بھی ہوتا کیونکہ وہ ان کے خط لکھتا اور انھیں اپنی ذمے داری پر پوسٹ کرتا۔ یہ ماضی قریب کا بڑا خوبصورت کلچر تھا۔ ڈاکیے کی گھنٹی سنتے ہی بچے بالے ہی نہیں بزرگ بھی اس امید پر گھر سے باہر آجاتے کہ شاید ان کا کوئی خط آیا ہو۔ ڈاک اور ریل میں چولی دامن کا رشتہ تھا۔
ڈاک زیادہ تر ٹرین کے ذریعے ہی پورے ہندوستان میں جاتی تھی۔ ہر ٹرین میں سرخ رنگ کا ایک خصوصی ڈبہ ہوا کرتا تھا جس میں ہر شہر کے خطوط تھیلوں میں بند ہوتے تھے۔ ہر اسٹیشن پر عملہ یہ تھیلہ متعلقہ شہر کے ڈاک خانے کے عملے کو دیا کرتا تھا۔ خط کا ذکر آتے ہیں آنکھوں میں شبنم کا چہرہ گھومنے اور کانوں میں ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز گونجنے لگتی ہے۔
چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے
حال میرے دل کا تمام لکھ دے
مگر نہ اب وہ ریل ہے اور نہ وہ میل ہے۔ میں نے بیسویں صدی کے آخری برس جب اپنی بہن کو زندگی کا پہلا ای میل بھیجا تو اس کا جواب آیا کہ تمہارا خط پڑھ کر دل کو سکون ضرور ملا مگر خط بے رنگ و بے بو لگا۔ اس میں نہ تمہارے ہاتھ کی خوشبو تھی اور نہ تحریر کا بانکپن' اگر مجھ پر عنایت کرو تو یہ ''مشینی خط'' نہ ہی بھیجو تو بہتر ہے۔ فون پر تمہاری آواز سن کر خوش ہو جائیں گے۔ لیکن زمانہ بدل گیا ہے یعنی بقول اکبر الہ آبادی
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
خط پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
مگر آج ہماری مجبوری ہے کہ ہم پائپ سے آگے بڑھ کر منرل واٹر پیتے ہیں اور خط ہی پر کیا موقوف ہے عید کارڈ اور شادی کے دعوت نامے بھی ای میل کے ذریعے بھیجتے ہیں۔
ڈاکیے کی تو شکل کو ترس گئے ہیں۔ اس کی وہ خاکی وردی اور سرخ سائیکل قصہ پارینہ ہوئی۔ ٹیلی گرام کا محکمہ تو شاید بند ہی ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ ٹیلی فون اور موبائل فون نے لے لی ہے۔ sms نے ای میل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کا ناطقہ بند کر دیا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
زندگی کی بھاگ دوڑ، تیزی طراری نے سفر کی رومانیت کو کھا لیا ہے۔ ہم نے ٹرین کا آخری سفر 2004 میں کیا تھا۔ اس کے بعد نزدیکی سفر بذریعہ کار اور دور کے سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیے۔ 2004 میں ممبئی سوشل فورم میں شرکت کے لیے پہلے قراقرم ایکسپریس سے لاہور اور پھر امرتسر سے ممبئی تک گولڈن ٹیمپل ایکسپریس میں سفر کیا۔
کراچی سے لاہور کے20گھنٹے کے سفر نے تھکا دیا مگر امرتسر سے ممبئی کے33گھنٹے کے سفر میں جو لطف آیا وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کے بعد کئی بار ٹرین سے سفر کرنے کا قصد کیا مگر ٹرین کے تسلسل کے ساتھ کئی کئی گھنٹے تاخیر کی خبروں نے ہمت نہیں ہونے دی کہ ٹرین سے سفر کریں۔
65برس میں برصغیر میں کتنا فرق آگیا ہے۔1965 تک ان کی ٹرین سست روی کا شکار ہوتی تھیں جب کہ ہماری ٹرینیں تیز رفتار تھیں مگر ہم نے ریلوے کی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے اس دودھ دینے والی گائے کو ہی کاٹنا شروع کر دیا۔ نہ کوئی نئی پٹڑی بچھائی گئی نہ ٹرینوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری نے ریلوے کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج انجنوں کا قحط ہے اور انھیں چلانے کے لیے ڈیزل کی قلت۔
کوئی ٹرین نہ وقت پر روانہ ہوتی ہے اور نہ وقت پر منزل مقصود تک پہنچتی ہے۔ بہت سی نامی گرامی ٹرینیں بند ہو چکی ہیں، کچھ بند ہونے کو ہیں جب کہ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک ٹرین چل رہی ہے جن میں ہر آنے والے دن نئی سہولیات متعارف ہو رہی ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جس طرح آج ہم اپنے بچوں کو پرانے پوسٹ کارڈ دکھاتے ہیں اور انھیں ڈاک بابو کی کہانیاں سناتے ہیں اسی طرح ان کے بچوں یعنی اپنے پوتا پوتی کو ریل کی کہانی سنایا کریں گے اور بچے پوچھا کریں گے کہ دادا جان ٹرین کیسی ہوتی تھی، اس کی تصویر تو دکھائیں۔
علم سے دوری جہل آمادگی اور جنون پرستی کو جنم دیتی ہے۔ کوتاہ بینی قوموں کا مستقبل تباہ کرتی ہے۔ شاید ہمیں پتھر کا دور بہت عزیز ہے، اسی لیے ہر اس چیز کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو جدیدیت اور جدت طرازی کی طرف جاتی ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہم سے مڈل کلاس سوچ چھین لی جب کہ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور نے ہماری عقل و خرد پر تالے لگا دیے۔
اب ہماری پہچان دھوکا دہی، جعل سازی اور بے ایمانی ہے۔ جس ملک کی قیادت اپنے مواصلاتی نظام کو درست نہیں کر سکتی اس سے کیا توقع کی جائے کہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ دنیا کے ہم قدم بنا سکے گی۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے سوائے آنسو ضبط کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہے۔