چیئرمین نیب عدلیہ کیخلاف نفرت پھیلا رہے ہیں چیف جسٹس
یہ توہین عدالت ہے، متن پڑھنے کے بعد تعین ہوگا کہ مقاصد کیا ہیں اور میڈیا کو کیسے تقسیم کیا گیا، افتخارچوہدری
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کی جانب سے صدر کوعدلیہ کے کردار پر تنقید سے متعلق لکھے گئے خط کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی مصدقہ نقل جمعرات کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے خط کے ذریعے عدالت کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے جس کی انھیں اجازت نہیں۔ عدالت نے اس سلسلے میں سابق فوجی جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے فوجی وردی میں ملبوس ایک ڈکٹیٹر کو عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی تو کوئی اور کیسے مداخلت کر سکتا ہے؟۔ عدالتیں آئین کے تحت قائم ہیں، اگر عدالتوں کو چلنے نہیں دینا ہے تو پھر انھیں بند کر دیں، خط کا متن پڑھنے کے بعد اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ خط لکھنے اور اس کی میڈیا پر تشہیر کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔
سپریم کورٹ میں بدھ کو رینٹل پاور عمل درآمد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے چیف جسٹس کو نیب کے چیئرمین کی غیر حاضری سے متعلق آگاہ کرنا چاہا جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اسے چھوڑیں! پہلے یہ بتایئے کہ آپ کے چیئرمین کی جانب سے صدر کو بھیجے گئے خط میںکیا لکھا ہے؟۔ جواب میں پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ خط میں نیب کے چیئرمین نے عدالت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس پر عدالت نے اپنے ردعمل میں انھیں حکم دیا کہ وہ خط کی تصدیق شدہ نقل عدالت میں جمع کرائیں اور یہ بھی بتائیں کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس خط کی تشہیر کیوں کی گئی؟۔
پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت جب تک باقاعدہ حکم جاری نہیں کرتی وہ چیئرمین کو کیسے اس بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں؟ عدالت نے اپنا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور کسی کواس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے توہین آمیز خط لکھ کر عدلیہ کے خلاف نفرت پھیلائے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ یہ ایک عام خط ہے لیکن چیف جسٹس نے کہا عدالت کے لیے یہ ایک عام خط نہیں اور اس کا متن پڑھنے کے بعد ہی اس کا تعین کیا جائے گا ۔ اگر نیب کے چیئرمین یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ایسے کرنے کا حق حاصل ہے تو اس کا فیصلہ بھی عدالت ہی کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ اس خط کا مقصد کیا ہے؟کیا چیئرمین نیب عدالت کو دبائو میں لانا چاہتے ہیں ،عدالت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں یا عدالت کے خلاف نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟جو کچھ اخبارات میں پڑھا، اس کے بعد خط کا متن ہمارے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ جو شخص عدالت کو بدنام کرے گا، دبائو میں لانے کی کوشش کرے گا اور عدالت کے خلاف نفرت ابھارے گا اسے آسانی سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ توہین عدالت ہے اور خط دیکھنے کے بعد اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی تین نومبر کو ہم نے ایک آمر کو عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی،سب نے مزاحمت دیکھ لی۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں آئین کے مطابق کام کر رہے ہیںہم جاننا چاہتے ہیں کہ کونسی ایسی وجہ تھی جس پر چیئرمین نیب صدر کو خط لکھنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں تین رکنی بنچ نے کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کی جانب سے صدر کوعدلیہ کے کردار پر تنقید سے متعلق لکھے گئے خط کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی مصدقہ نقل جمعرات کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے خط کے ذریعے عدالت کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے جس کی انھیں اجازت نہیں۔ عدالت نے اس سلسلے میں سابق فوجی جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے فوجی وردی میں ملبوس ایک ڈکٹیٹر کو عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی تو کوئی اور کیسے مداخلت کر سکتا ہے؟۔ عدالتیں آئین کے تحت قائم ہیں، اگر عدالتوں کو چلنے نہیں دینا ہے تو پھر انھیں بند کر دیں، خط کا متن پڑھنے کے بعد اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ خط لکھنے اور اس کی میڈیا پر تشہیر کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔
سپریم کورٹ میں بدھ کو رینٹل پاور عمل درآمد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے چیف جسٹس کو نیب کے چیئرمین کی غیر حاضری سے متعلق آگاہ کرنا چاہا جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اسے چھوڑیں! پہلے یہ بتایئے کہ آپ کے چیئرمین کی جانب سے صدر کو بھیجے گئے خط میںکیا لکھا ہے؟۔ جواب میں پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ خط میں نیب کے چیئرمین نے عدالت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس پر عدالت نے اپنے ردعمل میں انھیں حکم دیا کہ وہ خط کی تصدیق شدہ نقل عدالت میں جمع کرائیں اور یہ بھی بتائیں کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس خط کی تشہیر کیوں کی گئی؟۔
پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت جب تک باقاعدہ حکم جاری نہیں کرتی وہ چیئرمین کو کیسے اس بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں؟ عدالت نے اپنا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور کسی کواس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے توہین آمیز خط لکھ کر عدلیہ کے خلاف نفرت پھیلائے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ یہ ایک عام خط ہے لیکن چیف جسٹس نے کہا عدالت کے لیے یہ ایک عام خط نہیں اور اس کا متن پڑھنے کے بعد ہی اس کا تعین کیا جائے گا ۔ اگر نیب کے چیئرمین یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ایسے کرنے کا حق حاصل ہے تو اس کا فیصلہ بھی عدالت ہی کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ اس خط کا مقصد کیا ہے؟کیا چیئرمین نیب عدالت کو دبائو میں لانا چاہتے ہیں ،عدالت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں یا عدالت کے خلاف نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟جو کچھ اخبارات میں پڑھا، اس کے بعد خط کا متن ہمارے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ جو شخص عدالت کو بدنام کرے گا، دبائو میں لانے کی کوشش کرے گا اور عدالت کے خلاف نفرت ابھارے گا اسے آسانی سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ توہین عدالت ہے اور خط دیکھنے کے بعد اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی تین نومبر کو ہم نے ایک آمر کو عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی،سب نے مزاحمت دیکھ لی۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں آئین کے مطابق کام کر رہے ہیںہم جاننا چاہتے ہیں کہ کونسی ایسی وجہ تھی جس پر چیئرمین نیب صدر کو خط لکھنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں تین رکنی بنچ نے کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔