سوارہ کی حقیقت

اس زمانے میں کوئی اور پیشہ تو تھا نہیں یا زراعت تھی او یا خانہ بدوشی اور لڑائی۔


Saad Ulllah Jaan Baraq June 16, 2017
[email protected]

دنیا میں ایسی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جو اپنی بنیاد میں بری نہیں ہوتیں اور ان کی ابتدا بڑے نیک جذبات، اچھے مقاصد، اور انسانی معاشرے کی بہبود کے لیے ہوتی ہے لیکن بعد میں غلط لوگ اسے اپنے مذموم اور شیطانی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں مثلاً علاج معالجہ، تجارت، مذہب، خدمت خلق اور انتظامی اور معاشرتی ادارے وغیرہ۔ان چیزوں میں ایک ''سوارہ'' بھی ہے جسے غلط لوگوں نے غلط طریقے پر استعمال کر کے فلاح کے بجائے ظلم و استبداد کا روپ دے دیا ہے اور اپنے گرے ہوئے ظالمانہ مقام تک پہنچایا کہ پورا معاشرہ چیخ اٹھا اور اس چیخ کے نتیجے میں اسے قانونی طور پر بند کرنا پڑا ور یہ بہت اچھا اقدام ہے کیونکہ اسے اپنے اصل مقام سے گرا کر معصوم حوا زادیوں کے لیے موت سے بھی زیادہ بھیانک بنا دیا گیا تھا اور وہ بھی ''بے گناہ ''ہوتے ہوئے عورتوں پر بے پناہ ظلم کے ساتھ ساتھ اسے انسانیت کے لیے بھی کلنک کا ٹیکہ بنا دیا گیا تھا۔

غیرت، بہادری اور پشتونیت کے منہ پر بھی ایک طمانچہ تھا۔ یہ کتنا ظلم اور بے غیرتی ہے کہ جرم کوئی اور کرتا ہے اور پھر اس عمل کے نتائج مردانہ وار بھگتنے کے بجائے اپنی معصوم بیٹی بہن یا کسی اور کے پیچھے چھپ جاتا ہے جو اس جرم سے آگاہ تک نہیں ہوتی۔لیکن اس رسم یا طریقے کی ابتدا ایسی نہیں ہوئی تھی بلکہ ابتدا میں یہ ایک بہترین رسم ہوا کرتی تھی۔اس کی پوری بنیاد سے واقفیت کے لیے پشتون معاشرے سے واقف ہونا ضروری ہے۔

پشتون بنیادی طور پر ایک کوچی اور خانہ بدوش قوم جسے رزق کی تلاش میں کبھی یہاں کبھی وہاں رہنا پڑتا تھاکیونکہ ان کا رہائشی خطہ مکمل طور پر پہاڑی اور غیر زرعی تھا اور اوپر سے سردیوں کے موسم میں برفباری اور بے پنا ہ سردی سے ان کو نقل مقانی پر مجبور ہونا پڑتا تھا،دوسرا مسٔلہ یہ تھا کہ ہندوستان کے دروازوں پر ہونے کی وجہ سے ان کو ہر بیرونی حملہ آور سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔پھروہ حملہ آور فاتح ہو کر ان کو اپنے لیے مختلف میدانوں میں لے جا کر لڑاتے تھے۔

اس زمانے میں کوئی اور پیشہ تو تھا نہیں یا زراعت تھی او یا خانہ بدوشی اور لڑائی۔ سوبد قسمتی سے پشتونوں کی قسمت میں لڑنا، مرنامستقل طور پر لکھ دیا گیا تھا، ظاہر ہے کہ اس لڑاکو پن کا مظاہرہ وہ آپس میں بھی کر تے تھے جس سے دشمنیاں اور قتل مقاتلے پیدا ہوتے تھے۔ایک اور بات یہ کہ کسی حکومت یا حکمران کی مستقل رعیت کبھی نہیں رہے اس لیے حکومتی قوانین کے بجائے اپنے مسائل کے لیے ان کو خود ہی کچھ قوانین اور ادارے بنانا پڑے۔جن میں جرگہ اور حجرہ سرفہرست ہے۔ حجرہ ان کی اسمبلی بھی تھا، عدالت بھی تھا، اسکول بھی تھا اور شادی غمی کا مرکز بھی۔

چنانچہ جب کہیں دشمنی پڑجاتی تھی او یاحد سے گزر جاتی تھی تو اس کا حل جرگے کو حجرے میں بیٹھ کر تلاش کیا جاتا تھا۔ جرگے کے اپنے قوانین اور طریقہ کارہو تا تھا۔آہستہ آہستہ ایک باقاعدہ غیر محررہ قانون وجود میں آتا چلا گیا جو اتنا سخت ہے کہ اب بھی اگر کوئی حکومتی ادارہ کسی جرم پر کسی کو سزا دیتا ہے تو پشتون اسے تسلیم نہیں کرتے جب تک اپنے اس قانون کے تحت اس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔مثلاً کسی کو قتل کی پاداش میں کوی عدالت عمر قید یا پھانسی کی سزا دیتی ہے تو بات ختم ہو جانی چاہیے لیکن پشتونوں میں تب تک بات ختم نہیں ہوتی جب تک ''بدلہ'' نہیں لے لیا جاتا یا جرگے میں اس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔

جرگے میں اگر سو خون بھی معاف کیے جائیں تو ''طعنہ'' باقی نہیں رہتا۔ لیکن کسی اور ادارے میں کوئی بھی سزا اس جرم کو ختم نہیں کر سکتی۔ان ابتدائی زمانوں میں دو قوانین نہایت اہم ہوا کرتے تھے اور یہ دو قوانین ہی کسی دشمنی کو ختم کرنے کا ذریعہ ہوتے تھے، ایک سوارہ اور ایک ننواتی۔ ان دونوں کی صورت یہ ہوتی تھی کہ ننواتی تو جرگے کے فیصلے کے بغیر ہی لاگو ہو جاتی اس میں یوں ہوتا ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ سے قتل ہوجاتا ہے یا کتنے بھی قتل ہو جائیں اگر وہ کسی نہ کسی طرح مقتول کے گھر، حجرے یا کسی جنازے میں اچانک پہنچ کر معافی کا طلب گار ہو جائے تو پھر اسے گزند پہنچانا دوسرے فریق کے لیے ناممکن ہو تاہے۔

ایسی کسی صورت حال سے بچنے کے لیے اکثر وہ خاندان اپنے گھر، حجرے یا جنازے کے گرد مسلح آدمی تعینات کرتا کہ مجرم فریق کسی طرح اچانک ننواتے کرکے ''بیس ایریا'' میں آنے اور اس سے پہلے پہلے ہی اسے بھگایا جائے، روکاجائے یا مار دیا جائے۔ یہ تو '' ننہ واتی'' ہوئی

سوارہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ''سوار'' کی مونث ہے یعنی وہ عورت جو''سوار'' ہوتی ہے

چونکہ پشتونوں کی دشمنی کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ معمولی فیصلوں سے قابو میں نہیں آتی اور دونوں فریق مرنے مارنے کی حد سے گزر جاتے ہیں' بدلہ اور انتقام بھی مسلسل پھیلتا جاتا ہے اور مسلسل اس دشمنی کی آگ پھیلتی جاتی ہے تو اس وقت ''سوارہ'' کے ذریعے اسے حل کیا جاتا تھا۔عورت درمیان میں اس لیے آتی کہ اس مرحلے میں جان و مال کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہر فریق سب کچھ کرنے اور سہنے کے لیے تیار ہوتا ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ بے سہارا ہو جاتا ہے ایسے وقت میں بات سر سے گزر کر ''عزت'' تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ پشتو میں یہ ایک کہاوت ہر پشتون کو ازبر ہے کہ مال قربان ہو سر پر اورسر قربان ہو عزت پر۔ایسے وقت میں صرف عورت ہی جس کا دوسرا نام عزت کام آتی ہے ''سوارہ'' دینے کا مقصد عورت دینا نہیں بلکہ جھکنا ہوتا ہے اور جھکنے کی انتہائی حد اپنی عورت ہے اور اس کی بنیادی حصہ پشتون کی نظر میں عورت کی تحقیر نہیں بلکہ بے پناہ قیمت اور اہمیت ہے اسی صورت میں یہی ایک ''راہ'' رہ جاتی ہے کیونکہ جان و مال بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اس لیے مخالف فریق کسی بھی چیز کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس کا مقصد صرف مخالف فریق کو جھکانا ہو تا ہے او اس سے زیادہ جھکنا ممکن ہی نہیں کہ کوئی اپنی ماں، بہن، بیٹی یا کسی بھی عورت کو ہار مان کر درمیان میں لے آئے۔ لیکن بعد میں اتنا سا اضافہ ہوا کہ وہ اس گھر میں اتر کر تھوڑی دیر بیٹھ جاتی یا کھڑے کھڑے ہی گھر والے اسے دوپٹہ یا جوڑا یا کوئی اور تحفہ دیتے تھے اور وہ واپس سوار ہو کر گھر جاتی اور اکیلی کبھی نہیں ہوتی جتنے رشتہ دار یا مرد و خواتین اس کے ساتھ جانا چاہتے جا سکتے تھے۔

سوارہ کو گھر بٹھانے، قبضے میں لینے یا شادی کرنے کا عنصر اس میں بہت بعد کے زمانوں میں داخل ہو گیا۔کیونکہ ''سوارہ'' اصل میں اس فریق کو دی ہی جاتی تھی لیکن پشتو قوانین کے مطابق اس کی بحالی ظرفی اور پشتونیت عزت کے ساتھ واپس کرنے کی متقاضی ہو تی تھی جس سے بد معاملہ لوگوں سے آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچا دیا جو ایک گھناؤنے جرم کے مصداق بن گیا۔میں ایک مرتبہ عرض کرنا چا ہوںگا کہ اس کے نام سوارہ ہی میں اس کی ساری معنویت مرتکز ہے لیکن برے لوگ تو مذہب، قرآن اور نماز کو بھی اپنے اغراض کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔

سوارہ ختم ہو گیا اچھا ہو گیا کہ یہی اصل کا حل ہے لیکن بعض لوگ اس پر لکھتے ہوئے پشتون قوم اور پشتو کو مورد الزام ٹھراتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے اور اس کی بنیاد اس صورت میں کبھی کسی نے نہیں ڈالی تھی،اچھی بات یہ ہے کہ قانونی کے بعد اب آہستہ آہستہ کہیں کہیں پر ''سوارہ'' کی وہی اصلی صورت بحال ہو رہی ہے اس فرق کے ساتھ کہ زیادتی کرنے والے کے گھر اور چند محلے کی خواتین مل کر ایک جرگے کی صورت میں جاتی ہیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس آجاتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں