نئے صوبے اور کرپشن کا خاتمہ

اگر یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں زیر بحث لایا جائے تو یقینا اس کے مثبت نتائج حاصل ہوں گے بشرطیکہ عوام ساتھ دیں۔


[email protected]

کرپشن نے اس ملک کے در و دیوار کو اس قدر ہلا کر رکھ دیا ہے کہ پاناما، بہاما اور اس جیسے کئی چھپے ہوئے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں جہاں پرائز بانڈ سیاستدانوں نے اپنی رقوم کو تحفظ دیا ہوا ہے۔ یہ سیاستدان جب کرپشن کرتے ہیں تو یا یہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے گھروں میں خندقیں کھودتے ہیں، یا دوستوں کی کمپنیوں میں انویسٹ کرتے ہیں اوریا اپنی کمپنیاں بناتے ہیں ' اگر پھر بھی پیسے بچ جائیں تو پاناما جیسے ملکوں میں آف شور کمپنیاں بنا کر اپنا مال چھپا لیتے ہیں، تاکہ نہ کسی کی نظر پڑے اور نہ کسی کی نظر لگے۔ بہرکیف یہی ٹولہ ملک میں سسٹم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

آپ گزشتہ 30سال کے دوران دیکھ لیں' ملک میں وہی چند مخصوص خاندان حکمرانی کر رہے ہیں جو نہ تو ملک کو انتظامی لحاظ سے ٹھیک کر پائے ہیں اور نہ اقتصادی و معاشی لحاظ سے اور اگر ان کے درمیان کوئی نئی سیاسی قوت اُبھرتی ہے تو وہ اُسے بھی ساتھ ملا لیتے ہیں یا اُسے دنیا سے ہی رخصت کر دیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ملک میں اکثر و بیشتر نئے صوبوں کی آوازیں آنا شروع ہوتی ہیں اور ساتھ ہی کچھ دیر کے بعد ختم ہو جاتی ہیں یعنی چند مفاد پرست عناصر اسے ''کارڈ'' کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اُسے ضایع کر دیتے ہیں۔

اگر ملک میں زیادہ سے زیادہ صوبے بنیں گے تو اقتدار زیادہ جگہ تقسیم ہوگا اور کرپشن کے مواقع کم سے کم پیش آئیں گے۔ مثلاََ سادہ سی بات ہے کہ فرض کیا پنجاب کا بجٹ اس وقت 1ہزار ارب روپے سالانہ ہے، اب جتنے پیسے زیادہ ہوں گے کرپشن بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوگی، اور اگر پنجاب کے ہی 6 صوبے ہوتے تو یہ بجٹ تقسیم ہو جاتا اور کرپشن کے مواقع کم سے کم ملتے۔ اور ہر صوبہ اپنے اپنے عوام کو جوابدہ ہوتا۔ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور مضبوظ وفاق کے لیے صوبوں کا چھوٹا ہونا، ایک دوسرے پر انحصار کرنا، عددی اعتبار سے تعداد میں زیادہ ہونا اور رقبہ اور آبادی میں صوبوں کے باہمی خدوخال متوازی ہونا وغیرہ مضبوط اور فعال مرکز کے لیے ناگزیر عناصر ہیں۔

اور سب سے بڑھ کر بات یہ کہ کیا اُن ممالک کے عوام پاگل ہیں جو تعداد میں پاکستان سے کئی گنا کم ہیں مگر اُن ملکوں کو انتظامی لحاظ سے درجنوں صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بلحاظ رقبہ پاکستان کے ہم پلہ ممالک اور پاکستان کی نصف آبادی سے بھی کم آبادی رکھنے والے ممالک مثلاً ترکی، افغانستان اور ایران پاکستان سے زیادہ انتظامی اکائیاں رکھتے ہیں۔ ترکی میں 81، افغانستان میں 34 اور ایران میں 31 صوبے ہیں جب کہ پاکستان سے رقبے اور آبادی دونوں اعتبار سے انتہائی چھوٹے ممالک سری لنکا میں 9 اور نیپال میں 7 صوبے ہیں۔ اور صوبے بننے کا عمل ہر دور میں جاری رہتا ہے، جیسے بھارت میں 2014ء میں مزید دو نئے صوبے بنے، موجودہ ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، 1950ء تک ایران کل 12 صوبوں میں تقسیم تھا۔

اگر پاکستان کا انتظامی اکائیوں کی تعداد پر دیگر ممالک سے تقابلی موازنہ کیا جائے تو اِس حساب سے پاکستان میں کم از کم مزید 30 صوبوں کی ضرورت ہے۔لیکن اس کے برعکس پاکستان میں دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان سمیت کل آٹھ انتظامی اکائیاں ہیں جن میں فاٹا صوبائی درجے سے تاحال محروم ہے۔ پاکستان میں موجودہ صوبوں کی تقسیم اور مزید نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ نئی انتظامی اکائیوں کی تشکیل پاکستان کے وفاقی، قومیتی، جغرافیائی، ارضیاتی، تذویراتی اور انتظامی تناظرات کا تقاضا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف بھی 20 صوبوں کے قیام کے حامی تھے۔ انھوں نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام میں بڑے بڑے شہروں کو اسلام آباد سے براہِ راست کنٹرول کرنا شروع کیا تھا۔ یوں صوبائی خودمختاری کی پامالی سے وفاق کی وحدت متاثر ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے چوتھے اقتدار میں پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگایا، یوں سرائیکی صوبے کے قیام کا نظریہ سامنے آیا۔اس نظریے کو عملی شکل دینے کی پنجاب کی اسمبلی میں قرارداد تک منظور ہوئی، پیپلز پارٹی نے اپنے 1970ء کے مؤقف سے انحراف کرتے ہوئے تخت لاہور کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا مگر 2013ء کے انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد یہ معاملہ تاریخ کے گمشدہ اوراق کا حصہ بن گیا۔

اگرچہ صوبوں کی مختلف وجوہات کی بناء پر تقسیم اور نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں مختلف تجاویز پیش کی جاتی ہیں جن پر ہزارہ صوبہ، سرائیکی صوبہ، بلوچستان سے پختون اکثریتی علاقوں کی علیحدگی، قبائلی علاقوں پر مشتمل نئے صوبے کا قیام اور کراچی صوبے کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔ ہمیشہ سندھ کی تقسیم کے حوالے سے سیاسی ماحول زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔ سندھ اسمبلی نے 1940ء میں سائیں جی ایم سید کی ایماء پر یہ قرارداد منظور کی تھی کہ سارے ہندوستان سے مسلمان سندھ میں آ کر آباد ہو جائیں۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان کے لوگوں کو اپنے مسائل کے لیے دور دراز کا سفر طے کرکے لاہور آنا پڑتا ہے۔وسطی اور جنوبی پنجاب میں اقتصادی اور صنعتی توازن بھی وسطی پنجاب کی طرف ہے،یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کی اشرافیہ نے صنعتیں لگانے کا فیصلہ کیا تو وہ بھی وسطی پنجاب میں قیام پاکستان سے اب تک پنجاب میں یہی زیادہ تر حکمران رہے۔

مہاجر تو اپنے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کی جدوجہد سے گزر رہے تھے،لیکن شہری اشرافیہ نے آنکھیں کھولیں اور اقتدار انھیں ملا تو انھوں نے یہ مطالبہ شروع کیا،کیونکہ اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرائیکی صوبہ ہی ان کے ''وارے'' میں ہے۔ مخدوم، لغاری، عباسی، گیلانی سب کی نظریں جنوبی پنجاب کے عوام کی بہتری پر نہیں، اپنے ممکنہ اقتدار کی طرف ہیں،لیکن اگر جنوبی پنجاب کو صوبہ بننا ہی ہے تو اس میں عوام کی بہتری مدنظر ہونی چاہیے ناکہ یہ آثار قدیمہ پھر سے جاگیردارانہ نظام کے ذریعے جابرانہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

انتظامی حوالے سے موجودہ صوبوں کی تقسیم اور مزید نئے صوبوں کی تشکیل باقی عوامل کی نسبت زیادہ ناگزیر اور فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ اگر صرف پنجاب اور سندھ ہی کی مثال لی جائے تو لاہور اور کراچی کی اپنی آبادی دنیا کے کئی ملکوں کی نصف آبادی کے برابر ہو چکی ہے۔

کراچی اور لاہور کی آبادی نیوزی لینڈ، ناروے اور ڈنمارک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا اب لاہور 9 کروڑ پنجابیوں اور کراچی 5 کروڑ سندھیوں کے مسائل حل کرنے کی ذمے داری سے پوری طرح عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ جب کہ بلوچستان میں دوردراز علاقوں کے باشندوں کا دشوار گزار راستوں اور مخدوش ذرایع نقل و حمل سے کوئٹہ آنا جانا انتہائی کٹھن ہے اِس لیے ضروری ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ڈویژنوں کی جگہ نئے صوبے بنائیں جائیں۔ جب کہ فاٹا کا نظم و نسق اسلام آباد سے چلانے کے بجائے اْسے مکمل صوبے کا درجہ دیا جائے تاکہ وہاں کے لوگوں کی اسلام آباد کی محتاجی ختم ہو۔ اسی طرح پنجاب کی انتظامی تقسیم سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کا لاہور پر انحصار ختم ہو گا۔

میرے خیال میں اگر ملک سے کرپشن کو ختم کرنا ہے تو سندھ، پنجاب سمیت تمام صوبوں کو تقسیم کرکے زیادہ صوبے بنائے جائیں جس سے 70 فیصد تک کرپشن کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں زیر بحث لایا جائے تو یقینا اس کے مثبت نتائج حاصل ہوں گے بشرطیکہ عوام ساتھ دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں