قرآن کا اعجاز
الغرض قرآن ایک معجزہ ہے۔ ایک اچھوتا مرقع ہے۔ جو عیوب و فتور سے منزہ و مبرا ہے۔
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت اولا یزال است و قدیم
معجزہ، لفظ عجز سے بنا ہے۔ معجزہ اس کام کو کہتے ہیں، جسے کوئی نبی یا رسول اپنی نبوت یا رسالت کی بطور دلیل و ثبوت، عوام الناس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ جس کے کرنے سے لوگ بے بس، ناچار اور عاجز ہوجائیں اور عوام الناس کو علم یقین، عین یقین بلکہ حق یقین ہوجائے کہ رب الناس، ملک الناس الٰہ الناس ہی کا کلام ہوسکتا ہے۔ انسانی تفکر اور تدبر کے بس کی بات نہیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندا
ایک آسمانی پکار ہے ''ہے کوئی ایسا شعلہ بیاں،گوہر افشاں، فخرِ زماں، ترم خاں، مرد میدان شاعر یا ادیب، واعظ یا خطیب، مقرر یا محرر جو اسلوب بیان قرآن کے میدان میں مد مقابل بن کر مقابلہ کے لیے آئے، لیکن زبان گنگ اور ذہن سن ہوگئے، سر قلم تسلیم خم ہوگئے، مکہ میں کئی بار اعلان کیا گیا کہ قرآن اول تا آخر اللہ کا کلام ہے۔ کسی انسان کا کلام اور اس کے ذہن کی پیداوار نہیں۔ فرمان الٰہی ہے:(۱)۔ ''کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ اس شخص نے خود گھڑ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ اگر یہ اپنے قول میں سچے ہیں تو اسی شان کا ایک کلام بنالائیں۔'' (سورۂ طور آیات33-34)
(۲)۔ ''کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے۔ کہو اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں، ان کو مدد کے لیے بلاسکتے ہو تو بلا لاؤ اگر تم (انھیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔ اب اگر وہ تمہاری مدد کو نہیں آتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم (اس امر حق کے آگے) سر تسلیم خم کرتے ہو۔'' (سورۂ ہود آیات13-14)
(۳)۔ ''کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں۔ تو نہ لائیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔'' (بنی اسرائیل، آیت 88)
(۴)۔ ''تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سورۃ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلاسکتے ہو، مدد کے لیے بلا لاؤ۔'' (یونس، آیت 38)
مدینے میں آخری بار ایک سورۃ کی تکرار پر اصرار کرتے ہوئے اعلان عام کیا:''اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے۔ یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کی مانند ایک ہی سورۃ بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلالو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھادو، لیکن تم ایسا نہیں کرسکتے اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے۔'' (البقرۃ، 23-24)
بقول اقبال:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ نادان پر کلام نرم و نازک بے اثر
نادان کو الٹا بھی تو نادان ہی رہا والی کیفیت رہی۔ خود کو فخراً عربی اور دوسروں کو طنزاً عجمی کہنے والے قرآن عربی کے سامنے خود عجمی بن کر رہ گئے، لیکن سر پر غرور کی سختی نہ گئی۔ سب تدبیریں الٹی ہوگئیں مگر اکڑ نہ گئی۔ ظلم و ستم کی چکی چلتی رہی اور راہ حق پر چلنے والوں کو پیستی رہی۔
قرآن نے آپؐ کی حیات طیبہ کو خود آپؐ کی نبوت اور قرآن کی صداقت کے لیے بطور دلیل پیش کیا:''میں اس سے پہلے ایک عمر تم میں رہا ہوں، کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔''(سورۂ یونس۔ آیت16)
یعنی نبوت سے پہلے کی میری چہل سالہ طویل زندگی تمہاری نظروں کے سامنے ہے۔ وہ نازک دور حیات جس میں فسق و فجور میں تقاضۂ بشری کے تحت مبتلا ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ میں گرنا تو بڑی بات، پھسلا یا لڑکھڑایا تک نہیں، جب کہ بحر و بر، خشک و تر، فساد و شر سے زیر و زبر تھے۔ اللہ نے اپنی حفاظت اور امان میں رکھا۔ اس دور جاہلیت میں بھی میں شرافت، طہارت، صداقت، امانت، عدالت اور عصمت کا مثالی نمونہ رہا۔ جب میں نے تمہارے معاملات میں خیانت نہیں کی تو اللہ کے معاملے میں خیانت کرنے کی کیسے جسارت کرسکتا ہوں، لیکن افسوس صد افسوس کہ تم ضد و کد میں عقل کی میزان میں میرے دعویٰ کو نہیں تولتے۔ عقل سلیم تو میری رسالت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ نبی اُمّی اور اعجاز قرآنی سے متعلق ارشاد ہوا:''نہ تو تم قرآن سے پہلے کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو بے شک باطل پرستوں کو کچھ شک و شبہ کی گنجائش ہوتی۔'' (عنکبوت، آیت 48)
اہل فکر و دانش سے قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ ایک اُمّی جس نے نہ کبھی قلم پکڑا، نہ دوات اٹھائی، نہ کتاب پڑھی، نہ کسی مدرسہ یا مدرس کی شکل دیکھی۔ وہ یکایک گنجینۂ معنویت سے پُر ایسا فصیح و بلیغ طویل ترین کلام پیش کر رہا ہے، جو بے مثل، بے نظیر اور تضاد سے پاک ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے جب تک کہ ''کوئی معشوق نہ ہو اس پردہ زنگاری میں۔'' قرآن کے الفاظ میں ''اگر (قرآن) خدا کے سوا (کسی اور کے پاس سے آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔'' (سورۃ النساء، آیت 82)
جب آفتاب سے نظریں ملانے کی تاب نہ لاسکے تو پیچ و تاب کھانے لگے۔ دانا و بینا ہوکر نادانوں اور نابیناؤں کی سی باتیں کرنے لگے کہ آپؐ کو قرآن، کوئی دوسرا آدمی تعلیم دیتا ہے اور یہ اشارہ تھا شام کے بحیرا راہب کی طرف حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں ''پڑھنا تو درکنار کوئی شخص تاریخ سے ایک شہادت بھی اس بات کی پیش نہیں کرسکتا کہ چند ساعت کی صحبت میں آپؐ نے ایک کلمہ اور ایک حرف بھی بحیرا یا کسی اور راہب سے سیکھا ہو۔''اس قول کا قرآن نے ایسا معقول جواب دیا کہ عقل دنگ رہ گئی۔
''یہ لوگ کجروی سے جس شخص کی طرف قرآن کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہاں ایک روشن اور فصیح زبان عربی ہے۔'' (النحل آیت۔ 103)
کبھی کبھی بدحواسی، کج فہمی، تنگ نظری اور سر پر غرور کی پگڑی گرتے دیکھ کر بے سروپا باتیں کہنے لگتے۔
''یہ قرآن اس کے سوا کچھ نہیں کہ (معاذ اللہ) محمدؐ کے ذہن کی اختراع اور پیداوار ہے جس کی تصنیف میں دوسری جماعت نے اس کی مدد کی ہے۔ ارے ایسا ظلم اور ایسا سفید جھوٹ۔'' (الفرقان، آیت 4)
الغرض قرآن ایک معجزہ ہے۔ ایک اچھوتا مرقع ہے۔ جو عیوب و فتور سے منزہ و مبرا ہے۔ کہیں تضاد نہیں، فساد نہیں۔ بے سروپا بات نہیں۔ عبادت حسین، سادہ، دلکش اور رنگین۔ اتنی ضخیم کتاب ہونے کے باوصف اپنے اصل مقصد کے محور پر گھومتی نظر آتی ہے۔ قرآن کی خوبی یہ ہے کہ اس کا اسلوب بیان پُر اثر ہے۔ ہر شعبہ زندگی کے لیے روشنی کا سفر ہے۔ یقین محکم اور جذب باہم کی اذان سحر ہے۔ حکمت و عبرت کا دفتر ہے۔ تسخیرکائنات کے لیے دعوت غوروفکر ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کی خبر ہے۔ سراپا خیر ہے، رہبر بشر ہے۔ عظمت خیرالبشرؐ ہے۔ ہر علم و ہنر، خشک و تر کا ذکر ہے۔ رد شرک وکفر ہے۔ خودی کی بے خودی کا دیدنی منظر ہے۔ نشان ظفر ہے۔ عقل سے بالاتر ہے۔ فتح اہل روم کی غیبی خبر ہے۔
رشد وہدایت کا پیکر ہے۔ اسی لیے حکیمانہ قول عمرؓ ہے ''ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے۔'' قول علیؓ ہے ''اگر میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر لکھتا تو ستر اونٹوں کو بوجھل کردیتا۔'' قول ابن عباسؓ ہے ''قرآن میں تمام علوم ہیں لیکن ہر فرد بشر کی ان تک رسائی نہیں۔'' قول ابن عربی ہے ''قرآن میں 77450 علوم ہیں۔'' قول فیضی ہے ''کلام اللہ کی معلومات کے علاوہ تمام علوم درد سر ہیں اور کلام اللہ کے محامد کی کوئی تعداد نہیں، نہ اس کی مناقبت کی کوئی انتہا ہے۔ اس کی صداقت کے نشان غیر محصور اور اس کے علوم غیر محدود ہیں۔ ان سب پر سوائے اللہ کے کسی کا احاطہ نہیں۔ تمام اہل علم کو جو کچھ ہاتھ آیا وہ ایک محدود حصہ ہے۔'' امام فخر الدین کا قول ہے کہ ''قرآن کے اعجاز کی وجہ اس کی فصاحت، اسلوب بیاں کی ندرت و غرابت اور اس کا تمام عیوب کلام سے پاک ہونا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں ''کوئی انسان ایسا نہیں مل سکتا کہ وہ 23 سال کی مدت میں جوکہ نزول قرآن کا زمانہ ہے۔ ایک ہی مقصد اور ایک ہی طریقہ پر ایسی گفتگو کرتا رہے، جس میں فصاحت و بلاغت، طرز بیان، طریق استدلال اور منشاء کلام کا ذرا بھی فرق و امتیاز نہ پایا جائے۔ اس لیے اگر قرآن آپؐ کا کلام ہوتا یا آپؐ کے سوا کسی دوسرے انسان کا تو اس میں شک نہ تھا کہ لوگ اسے بہت کچھ اختلاف سے بھرا ہوا پاتے۔'' ابن سراقہ کا قول ہے ''قرآن کے وجوہِ اعجاز میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اعداد، حساب، جمع، ضرب تقسیم، موافقت، تالیف، تصنیف اور مضاعفت کو بیان فرمایا ہے تاکہ اس بات سے حساب دانوں کو رسولؐ کے اپنے قول میں صادق ہونے کا علم ہوجائے اور وہ جان لیں کہ فی الواقع قرآن خود ان کا نہیں خدا کا کلام ہے، کیوں کہ رسول اللہؐ ان لوگوں میں سے نہ تھے، جو اہل علم و دانش کی صحبت میں بیٹھے ہوں اور ہندسہ کے ماہروں سے فیض حاصل کیا ہو۔'' امام راغب فرماتے ہیں ''اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کریم کا ایک معجزہ یہ قرار دیا ہے کہ باوجود کئی حجم کے بہت کثیر معنی کی جامع ہے اور معانی کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ عقل انسانی ان کے شمار کرنے اور ان کو پوری طرح جمع کرنے میں قاصر ہیں۔
النبی الخاتم ﷺ نے فرمایا:''قرآن مجید کے عجائب کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔''
قرآن کے عجائب و غرائب کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ اس دعویٰ کو جانچنے، پرکھنے اورعدل کی میزان میں تولنے کے لیے عقل سلیم، نظر وسیع، روشن ضمیر، بنیادی شرائط ہیں۔ مرد ناداں کی ضرورت نہیں۔
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
عقل کا نور' دل کا نور نہیں