تاریخ کی گمشدہ شخصیت اے کے بروہی

اس میں کوئی شک نہیں کہ اے کے بروہی پاکستان کے بڑے فلاسفر بھی تھے.


لیاقت راجپر June 16, 2017

سندھ میں کئی ایسی شخصیات ہیں جنھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے،ان میں اے کے بروہی بھی شامل ہیں، جن کا پورا نام اللہ بخش ہے مگر جب وہ یورپ گئے تو انھیں اپنے نام کے پہلے لفظ سے لوگ پکارنے لگے جو ہمارے مسلمانوں کے لیے کفر ہے۔انھوں نے پاکستان واپسی پر اپنے آپ کو اے کے بروہی کے نام سے بلوانا اور لکھوانا شروع کیا جس کا مطلب تھا۔ اللہ بخش، کریم بخش، کریم بخش ان کے والد کا نام تھا۔ اپنے نام کا پہلا حصہ اور والد کے نام کا پہلا حصہ جو اے کے بروہی بنتا تھا۔ اب باہر ممالک میں بھی انھیں اے کے بروہی کے نام سے جانا پہچانا جانے لگا۔

وہ ایک بڑے پائے کے وکیل تھے اور جو بھی کیس لیے اس کی کامیابی ضروری ہوتی تھی اس لیے وہ اپنا معاوضہ منہ مانگا لیتے تھے۔ان کی یاد داشت کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ Photogenic یادداشت والے وکیل ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جو بھی چیز ایک مرتبہ پڑھتے چاہے وہ ایک ہزار صفحے کی کتاب کیوں نہ ہو اور وہ کتنی مشکل کیوں نہ ہو وہ فوٹو کی طرح اس کے ذہن میں چھپ جاتی ہے، مگر جب انھوں نے جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا اور بین الاقوامی شخصیت اور ملک کے عوام کے پیارے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی دلوانے، اس کے کیس کوکمزور کرنے اور ضیا الحق کی ڈکٹیٹر شپ کو برقرار رکھوانے میں مدد کی تو وہ عام آدمی کے دل سے اتر گئے، انھیں ضیا الحق کے 'کارناموں' میں برابرکا شریک تصور کیا جاتا ہے ۔

اس دشمنی کی ساری وجہ اے کے بروہی کی پی پی پی امیدوار علی حسن کے ہاتھوں سکھرکی ایم این اے کی سیٹ پر ہارنا ہے۔ اے کے بروہی کہتے تھے کہ ان جیسے بڑے ماہر قانون دان اور فلاسفرکو ایک ایسے سیاسی امیدوار کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے جس کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ لیکن بروہی صاحب یہ بھول گئے تھے کہ اس وقت بھٹو سیاسی میدان میں ایک ایسی آندھی بن کر آئے تھے جس نے پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی بتوں کو عام آدمی سے شکست دلوائی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اے کے بروہی پاکستان کے بڑے فلاسفر بھی تھے، وہ رائٹر تھے جس کی وجہ سے عام آدمی سے دور تھے مگر ان کی علمی، ادبی، قانونی، دانشمندی کا جواب نہیں تھا۔ ایک مرتبہ یو این او نے پوری دنیا سے صرف چھ فلاسفر بلوائے تھے جن میں ایک اے کے بروہی بھی تھے اور پورے ایشیا کی وہ نمایندگی کررہے تھے۔ جب انھوں نے بین الاقوامی تعاون کے موضوع پر اپنی تقریرکی تو وہاں پر سب دنگ رہ گئے۔ وہ بڑے مقرر اور رائٹر بھی تھے جسے دنیا میں خاص طور پر سنا جاتا تھا۔ وہ انگریزی بولنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔

ان کے مشہورکیسز میں سے ایک کیس راولپنڈی کانسپیرنسی ہے جس میں انھوں نے شیخ مجیب کو Defend کیا تھا جو کسی مارشل لا کورٹ میں مجیب شیخ کے خلاف غداری کا چلا تھا۔ اس کے علاوہ مشتاق احمد گورمانی کیس، آدم اسمتھ کیس اور بھٹو کے خلاف کیس میں وہ بطور Treasury Advocate پیش ہوئے تھے جس کی وجہ سے عوام ان کے خلاف تھے کہ وہ ضیا الحق کا آدمی ہے۔ ایک عاصمہ جیلانی کیس میں بھی وہ وکیل بن کر appear ہوئے تھے۔

وہ 24دسمبر کو 1915 میں شکارپور ضلع کے شہر گڑھی یاسین میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد پولیس محکمے میں جمعدار تھے (Head Constable) ابتدائی تعلیم گڑھی یاسین سے حاصل کی، میٹرک کا امتحان سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے پاس کیا، بی اے ڈی جے کالج سے کیا۔ جب کہ ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحان بمبئی یونیورسٹی سے پاس کیے۔ پہلے وہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں ٹیچر بنے، اس کے بعد ایس ایم لا کالج میں تین سال تک پڑھاتے رہے اور پھر وکالت کرنے لگے۔ 1951 میں انھیں ایڈووکیٹ جنرل سندھ بنایا گیا۔ اسی سال میں انھوں نے پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے سوشل اکنامکس کونسل کے ڈیلی گیشن کی سربراہی کی اور سینڈیاگوکا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے یو این او شین میں پاکستان ڈیلی گیشن کی وائس چیئرمین کے طور پر نمایندگی کی۔

بروہی صاحب 1953 میں وفاقی لا منسٹر بنائے گئے مگر پتا نہیں کیوں انھوں نے 23 اکتوبر 1954 کو استعفیٰ دے دیا۔ وہ 1960-61 میں ہندوستان میں ہائی کمشنر پاکستان بھی رہ چکے ہیں۔ اس منصب کے دوران انھوں نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں بڑا اچھا کردار ادا کیا اور خاص طور پر پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں انھوں نے بڑی کاوشیں کیں۔ ان کے پنڈت جواہر نہرو کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ پاکستان بار کونسل کے صدر بھی رہے جو عرصہ 1964 سے 1967 تک محیط ہے اس کے علاوہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ جنیوا کے ممبر،امریکن بار ایسوسی ایشن کی ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر، چیئرمین نیشنل حجرہ کونسل 1979 سے 1982 تک رہے، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے Rector کی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ پھر دوبارہ 1978 میں انھیں وفاقی لا منسٹر بنایا گیا۔

وہ تقریباً آدھا درجن کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں خاص طور پر An Adventure in Self Expression جو 1954 میں شایع ہوئی۔ دوسری اہم کتاب ہے Fundamental Law of Pakistan جو جوڈیشل کمنٹری پر مشتمل ہے جس میں 1956 کے آئین پر تبصرہ شامل ہے، تیسری کتاب ہے Islam in the Moderen Worldجو 1969 میں شایع ہوئی تھی، چوتھی اہم کتاب ہے Testament of Faith جو 1973 میں شایع ہوئی، پھر پانچویں کتاب ہے Strategy of Human Action in History ۔ وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بڑے مداح تھے جس کی بڑی مثال یہ ہے کہ اس نے ایلسا قاضی کا بھٹائی پر لکھا گیا انگریزی میں مقدمہ سندھی میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے خود بھی کئی مضمون اور مقالے بھٹائی پر لکھے تھے۔

ایک مرتبہ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسفے کے پروفیسر بننا چاہتے ہیں مگر وہ خواہش ان کی اس وقت پوری نہ ہوسکی کیونکہ وہ یورپ نہیں جاسکے جس کی وجہ دوسری عالمگیر جنگ چھڑ چکی تھی۔ انھیں اسلام سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ مولانا مودودی، علامہ آئی آئی قاضی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی سے بڑے متاثر تھے۔ اسلامی تعلیم انھوں نے نہ تو بچپن میں حاصل کی تھی اور نہ ہی یہ تعلیم والدین سے ملی تھی بس وہ خود ہی اسلام کی طرف راغب ہوتے چلے گئے۔

وہ اس خیال کے حامی تھے کہ اسلام ہماری روح ہے اور ہمارا جذبہ جب کہ سوشلزم مادہ پرستی ہے ۔اس لیے اسلام اور سوشلزم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ کئی مرتبہ کئی جگہوں پر تقریرکرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے مگر وہ الیکشن بھی لڑے اور ناکام رہے۔ وہ قانون کی بالادستی کے حامی تھے اس لیے کہ قانون ہر جگہ Apply ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنے سے قومی ادارے، عدالتیں اور دوسرے ادارے آزادی سے کام کرسکیں گے جس کی وجہ سے عوام کے حقوق کو تحفظ ملے گا۔ جب بروہی انڈیا میں ہائی کمشنر تھے تو انھوں نے جواہر لعل نہرو کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی اور Water Accord میں بڑا رول ادا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں بہتری آئی تھی۔

انھوں نے جو کتاب Islam in the Modern World لکھی ہے اس میں ان کی اس طرح کی تقریریں شامل ہیں۔ لوگ لکھتے اور بتاتے ہیں کہ وہ بچوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اور اسکالر شپ دیا کرتے تھے۔ وہ Well Dresser تھے اور کم نیند کرتے تھے اور اگر نیند آنے لگتی تو Arms Chair پر آنکھیں بند کرکے نیند کرنے لگتے۔

اے کے بروہی کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ تقریر مختصر اور To The Point کرتے تھے مگر وہ جامع ہوتی تھی۔ وہ کالا چشمہ اکثر پہنے رکھتے تھے کیونکہ ان کی ایک آنکھ بچپن میں گلی لگنے سے ضایع ہوگئی تھی۔ ان کی شخصیت پررعب تھی۔ وہ جب بولتے تھے تو اپنے موقف کی مضبوطی کے لیے بین الاقوامی اور قومی کتابوں کے ریفرنس دیا کرتے جس کی وجہ سے اس کے بحث و مباحثے میں بھی وزن آجاتا تھا جس میں خاص طور پر دنیا کے فلاسفروں اور ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا ذکر ضرور کرتے تھے۔

اے کے بروہی 13 ستمبر 1987 کو لندن میں انتقال کرگئے ،ان کے جسد خاکی کو پاکستان لاکر 16 ستمبر 1987 کو ملٹری کے قبرستان کراچی میں دفن کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں