صدر مملکت کا خطاب اور اپوزیشن کا رویہ

جمہوریت قوم کی ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں۔


[email protected]

پاکستان کی پارلیمنٹ کی یہ روایت ہے کہ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پرصدر مملکت پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہیں جس میں ملک کو درپیش داخلی مسائل، علاقائی معاملات اورخارجہ پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صدر مملکت کا خطاب آئینی تقاضے پورے کرنے کے علاوہ ملک کے اندرونی و بیرونی معاملات پر فکری رہنمائی کے لیے بھی ضروری تصورکیا جاتا ہے۔ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے صدر مملکت اپنے خطاب میں منتخب جمہوری حکومت اور سیاسی قیادت کو مختلف شعبوں میں رہنما اصول دیتے ہیں اورصدر مملکت کے نکتہ نظر کو قومی موقف کا بہترین عکاس تصورکیا جاتا ہے۔

صدر مملکت ممنون حسین تقریباً چار برس سے یہ فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں، یہ ان کا پانچواں خطاب تھا۔ حالیہ پارلیمانی سال کے آغاز پر بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ممنون حسین نے تاریخی خطاب کیا۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ خطے کے امن وامان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے اور اس نے دہشت گردی اورجاسوسی سے حالات خراب کیے ہیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے واضح کیا کہ سیاسی عمل کو افراتفری اور گروہی مفاد سے آزاد ہونا چاہیے۔ پاکستان میں جمہوریت نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

جمہوریت قوم کی ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں۔ پارلیمنٹ نے مشکل حالات میں قومی اتحاد کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے تاریخ اس پارلیمنٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ ترقی کے دھارے میں سب کو شامل کیا جانا ضروری ہے۔ پیچھے رہ جانے والوں کو قومی دھارے میں سب کو شامل کیا جانا ضروری ہے۔ پیچھے رہ جانے والوں کو قومی دھارے میں لانے کا احساس قومی ہورہا ہے۔ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ قومی تعمیر نو میں حصہ ڈالے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے خطاب میں ملک کی معاشی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی اہم معیشتوں میں شامل ہوچکا ہے۔ مہنگائی کم جب کہ شرح نمو 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ عالمی بینک نے بھی پاکستان کو بہترین کارکردگی والی معیشتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

صدرمملکت ممنون حسین نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ہمارے اہم قومی مسائل ہیں۔ صدر مملکت نے داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی معاملات پر بھی کھل کر گفتگو کی۔ انھوں نے چین سے تعلقات کو پاکستان کا قابل فخر اثاثہ قرار دیا۔ اسی طرح روس، ترکی اور سعوی عرب سمیت بعض دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر بھی گفتگو کی لیکن اس ضمن میں سب سے اہم بات صدرمملکت نے یہ کہی کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ انھوں نے کشمیریوں کے حق خود اداریت کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں طے کیا جائے۔ ویسے بھی جب مشرقی تیمور، سوڈان اورآئر لینڈ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی سے منسلک کیا جاسکتا ہے تو مظلوم کشمیریوں سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے کہ آج برسوں گزرنے کے باوجود انھیں استصواب رائے محروم رکھا گیا ہے۔ جب کہ یہ ان کا تسلیم شدہ حق ہے۔

عالمی برادری کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج کا رکھنا اور بھارت نے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو خطے میں امن و سلامتی کا تصور بھی محال ہوگا۔ بھارت کشمیریوں کے جذبات سے بخوبی آگاہ ہے اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو چھپانے کے لیے اور عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے کنٹرول لائن کشیدگی کا ماحول پیدا کررکھا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے اندر دہشتگردی، تخریب کاری اور بدامنی کی وارداتیں کررہا ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کی وجہ سے ہی جنوبی ایشیا میں ایٹمی ومیزائل ٹیکنالوجی کی دوڑ شروع ہوئی ہے۔ ان وجوہ کی بناء پر بھارت نے خطے کو عدم استحکام کا شکار کردیا ہے۔ صدرمملکت ممنون حسین نے داخلی معاملات کے حوالے سے بجا فرمایا ہے کہ مختلف طبقات میں اختلاف رائے کو انتشار میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں بلاشبہ ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ملک میں قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی فضا کے لیے اپنا کردار ادا کرے لیکن افسوس اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ بلکہ الزام تراشی اور دلیل کے بغیر مخالفت کو تنقید کا نام دے کر ہماری سیاسی اشرافیہ ملک کو بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کردیتی ہے۔

صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر یہ ناخوشگوار صورتحال بھی دیکھنے میں آئی کہ اپوزیشن نے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی طرح پارلیمانی اور جمہوری کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔ پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے صدرکے خطاب کی کاپیاں پھاڑ کر اچھال دیں۔ اپوزیشن کے بعض اراکین ایوان میں سیٹیاں بجاتے رہے اور گو نوازگو کے نعرے لگاتے رہے۔ بعض اراکین نے حکومت مخالف نعروں پر مبنی پہلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور وزیراعظم کے خلاف نعرے لگائے جارہے تھے۔

ہر سال اپوزیشن صدر مملکت کے خطاب کے موقعے پر یہی نازیبا طرز عمل اختیار کرتی اور پارلیمنٹ میں شور شرابہ کرکے صدر مملکت کو خطاب سے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس ناخوشگوار رویے سے قطع نظر صدر مملکت ممنون حسین نے نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ خطاب جاری رکھا۔ جب کہ اپوزیشن کے نعروں کا جواب دینے کے لیے بعض حکومتی اراکین بھی تیار ہورہے تھے مگر وزیر اعظم محمد نوازشریف نے انھیں روک دیا۔ میرا خیال ہے اسے شائستہ پارلیمانی رویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ اپوزیشن کو احتجاج کا حق حاصل ہے مگر اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ صدر مملکت کا خطاب سنجیدگی سے سن لیتی اور بعدازاں کسی مناسب فورم پر اپنے نکتہ نظرکی وضاحت کردیتی۔ تاکہ پارلیمنٹ میں کسی نئے جمہوری رویے کی جھلک تو نظر آئی۔ یقین جانیے اس قسم کی صورتحال پیدا کرکے اپوزیشن کبھی بھی مہمانوں کی گیلری میں بیٹھی ہوئی معزز اہم سیاسی و عسکری شخصیات کو متاثر نہیں کرسکتی۔ لہٰذا صدر مملکت کے آیندہ خطاب کے موقعے پر جمہوری رویے تبدیل ہونے چاہیئیں جہاں تک صدر مملکت کے تحمل سے خطاب کرنا ہے۔ اس حوالے سے میں صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں