سندھ حکومت اور آئی جی میں کشیدگی سے پولیس کا نظام درہم برہم
ایڈیشنل آئی جی کراچی اورڈی آئی جیز سمیت کئی افسران حکومت کی ٹیم اور کچھ آئی جی کے ہم خیال ہیں
RIYADH:
سندھ حکومت اور آئی جی سندھ میں مبینہ اختلافات کے باعث پولیس کا نظام درہم برہم ہوگیا.
ایڈیشنل آئی جی کراچی اورڈی آئی جیز سمیت کئی اہم سیٹوں پر براجمان پولیس افسران سندھ حکومت کی ٹیم میں جبکہ چند ایک ایسے افسران جو وفاقی حکومت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں وہ آئی جی سندھ کی ٹیم میں شامل ہیں،سندھ حکومت اور پولیس افسران کے اختلافات کے باعث افسران بالا نے تھانوں کی طرف توجہ کم کر دی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایس ایس پی اور ایس پی کی سطح کے افسران نے مبینہ طور پر شہر بھر میں جوئے اور منشیات کے اڈے آباد کرانے کی اجازت بھی دینی شروع کردی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت پورے شہر میں 150 سے زائد جوئے اور منشیات کے اڈے علاقہ پولیس کی مبینہ اجازت سے کام کر رہے ہیں جبکہ شراب اور دیگر غیر قانونی کام بھی کرائے جا رہے ہیں ، پولیس ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ جوئے اور منشیات کے اڈے ضلع ملیر کے تھانے شاہ لطیف ، قائد آباد ، ملیر سٹی ، سکھن ، اسٹیل ٹاؤن سمیت دیگر تھانوں میں ہیں جبکہ عزیز آباد کے علاقے حسین آباد ، جوہر آباد کے علاقے فیڈرل بی ایریا جاوید نہاری کی عقبی گلی میں عتیق کا جوئے کا اڈا ، ناظم آباد تھانے کی حدود چھوٹا میدان میں فقیرا کا جوئے سٹے ، اور دیگر کرمنل گیمز کا اڈا ، عزیز بھٹی کے علاقے ڈالمیا توفیق نامی شخص کا جوئے کا اڈا جبکہ جمشید کوارٹر ، گارڈن اور لیاری سمیت پورے شہر میں جوئے، سٹے اور منشیات کے اڈے کھلے ہوئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شہر کا سب سے بڑا جوئے کا اڈا محمود آباد میں برطرف آل محمد نامی پولیس اہلکار کا ہے، شہر بھر میں جوئے کا کاروبار کرنے والے آل محمد سے رابطہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ انھیں بھی محمود آباد میں چھوٹا موٹا اڈا کھولنے کی جگہ مل جائے کیونکہ آلے کے پولیس افسران سے مبینہ طور پر تعلقات بہت اچھے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ آلے جس مقام پر جوا کھلنے کی اجازت دلوائے گا وہاں کوئی بھی چھاپہ نہیں مارے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے مبینہ اختلافات کے باعث ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق احمد مہر اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ میں بھی رابطہ منقطع ہے ، جبکہ ڈی آئی جیز بھی شہر کے کسی بھی مسئلے پر آئی جی سندھ کو اعتماد میں لینے کے بجائے ایڈیشنل آئی جی کراچی اور وزیر داخلہ کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے پولیس افسران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئی جی سندھ انھیں معطل یا ریورڈ نہیں کرسکتے ان سے یہ اختیار لے لیا گیا ہے لہذا اگر سندھ میں کسی سیٹ پر نوکری کرنی ہے،آئی جی سندھ کی بات سنی ان سنی اور وزیر داخلہ کی بات ماننی پڑے گی۔
سندھ حکومت اور آئی جی سندھ میں مبینہ اختلافات کے باعث پولیس کا نظام درہم برہم ہوگیا.
ایڈیشنل آئی جی کراچی اورڈی آئی جیز سمیت کئی اہم سیٹوں پر براجمان پولیس افسران سندھ حکومت کی ٹیم میں جبکہ چند ایک ایسے افسران جو وفاقی حکومت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں وہ آئی جی سندھ کی ٹیم میں شامل ہیں،سندھ حکومت اور پولیس افسران کے اختلافات کے باعث افسران بالا نے تھانوں کی طرف توجہ کم کر دی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایس ایس پی اور ایس پی کی سطح کے افسران نے مبینہ طور پر شہر بھر میں جوئے اور منشیات کے اڈے آباد کرانے کی اجازت بھی دینی شروع کردی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت پورے شہر میں 150 سے زائد جوئے اور منشیات کے اڈے علاقہ پولیس کی مبینہ اجازت سے کام کر رہے ہیں جبکہ شراب اور دیگر غیر قانونی کام بھی کرائے جا رہے ہیں ، پولیس ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ جوئے اور منشیات کے اڈے ضلع ملیر کے تھانے شاہ لطیف ، قائد آباد ، ملیر سٹی ، سکھن ، اسٹیل ٹاؤن سمیت دیگر تھانوں میں ہیں جبکہ عزیز آباد کے علاقے حسین آباد ، جوہر آباد کے علاقے فیڈرل بی ایریا جاوید نہاری کی عقبی گلی میں عتیق کا جوئے کا اڈا ، ناظم آباد تھانے کی حدود چھوٹا میدان میں فقیرا کا جوئے سٹے ، اور دیگر کرمنل گیمز کا اڈا ، عزیز بھٹی کے علاقے ڈالمیا توفیق نامی شخص کا جوئے کا اڈا جبکہ جمشید کوارٹر ، گارڈن اور لیاری سمیت پورے شہر میں جوئے، سٹے اور منشیات کے اڈے کھلے ہوئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شہر کا سب سے بڑا جوئے کا اڈا محمود آباد میں برطرف آل محمد نامی پولیس اہلکار کا ہے، شہر بھر میں جوئے کا کاروبار کرنے والے آل محمد سے رابطہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ انھیں بھی محمود آباد میں چھوٹا موٹا اڈا کھولنے کی جگہ مل جائے کیونکہ آلے کے پولیس افسران سے مبینہ طور پر تعلقات بہت اچھے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ آلے جس مقام پر جوا کھلنے کی اجازت دلوائے گا وہاں کوئی بھی چھاپہ نہیں مارے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے مبینہ اختلافات کے باعث ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق احمد مہر اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ میں بھی رابطہ منقطع ہے ، جبکہ ڈی آئی جیز بھی شہر کے کسی بھی مسئلے پر آئی جی سندھ کو اعتماد میں لینے کے بجائے ایڈیشنل آئی جی کراچی اور وزیر داخلہ کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے پولیس افسران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئی جی سندھ انھیں معطل یا ریورڈ نہیں کرسکتے ان سے یہ اختیار لے لیا گیا ہے لہذا اگر سندھ میں کسی سیٹ پر نوکری کرنی ہے،آئی جی سندھ کی بات سنی ان سنی اور وزیر داخلہ کی بات ماننی پڑے گی۔