منظور تھی یہ شکل تجلی کو نُور کی

ایسی باکمال اور روح پرور شاعری صرف اور صرف خارجی محرکات کی بنا پر ممکن نہیں ہو سکتی


Amjad Islam Amjad August 02, 2012
[email protected]

ارادہ تھا کہ اس بار ماہ رمضان کے دوران لکھے جانے والے کالموں میں نعتیہ شاعری پر بالعموم اور اس سے متعلق کچھ کتابوں پر بالخصوص اظہار رائے کروں گا لیکن کچھ جھمیلے ایسے رہے کہ آج اس ماہ مبارک کا تقریباً نصف حصہ گزر جانے کے بعد ہی اس موضوع پر کچھ لکھنے کی صورت بنی ہے اور اس کا سارا کریڈٹ عمران نقوی کے تازہ تر نعتیہ شعری مجموعے ''وجب الشُکر علینا'' کو جاتا ہے کہ اگرچہ گزشتہ تیس چالیس برسوں میں نعتیہ شاعری کے حوالے سے کئی اہم' خوب صورت' تخلیقی اور عشق محمدﷺمیں سر تا پا ڈوبے ہوئے شعری مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہوئے کہ جن میں سے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ جس میں بوجوہ معمول کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی کہ بقول غالب

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد است

اور یہ کہ ''نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا''

لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر صحیح اور باوزن ہے کہ کچھ شاعروں نے اس حق کو دوسروں سے بہتر انداز میں ادا کیا ہے اگرچہ یہ فہرست بھی خاصی طویل ہے لیکن وہ چند نام جنھیں بہرصورت مولانا حالی' علامہ اقبال' حفیظ جالندھری' مولانا ظفر علی خان' محسن کاکوروی اور احمد رضا خان بریلوی کی صف میں شامل کیا جانا چاہیے بلاشبہ حفیظ تائب' احمد ندیم قاسمی اور مظفر وارثی ہی کے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کے فوری بعد کی صف میں بھی انتہائی باکمال شاعروں کی خاصی بڑی تعداد ہے اور ان کے بعد کی صف تو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ سب لوگ اہل خیر ہیں اور عشق نبی کی برکت سے ان کا کلام منور اور معطر ہو گیا ہے سو دیکھا جائے تو اس درجہ بندی کا تعلق عشق نبی ﷺ سے کہیں زیادہ فکری اور فنی وسعت' استعداد اور گہرائی سے ہے کہ اس جذبے کی شدت جاننے اور ماپنے کے لیے تو نہ کوئی پیمانہ آج تک ایجاد ہوا ہے اور نہ آیندہ کبھی ہو سکے گا کہ یہ دنیا ہی کچھ اور ہے۔

عمران نقوی کو ادبی دنیا میں وارد ہوئے تقریباً 25 برس ہو چلے ہیں اور اس دوران میں اس نے بطور شاعر' مدیر' انٹرویور اور نعت گو جو نام اور مقام حاصل کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہاں تک نعت سے اس کے شغف کا تعلق ہے تو اس کا ایک حوالہ اس کے برادر بزرگ نعت کے شاعر' نقاد اور محقق سید آفتاب نقوی مرحوم کا بھی ہے (جو بدقسمتی سے چند برس قبل اس فرقہ واریت اور مذہبی تنگ نظری کا نشانہ بن کر ہم سے جدا ہو گئے جو ایک زہر قاتل کی طرح ہمارے قومی وجود میں سرایت کر چکی ہے) لیکن اس کی نعتیہ شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سعادت اس کے بخت میں روز ازل سے لکھی جا چکی تھی کہ ایسی باکمال اور روح پرور شاعری صرف اور صرف خارجی محرکات کی بنا پر ممکن نہیں ہو سکتی۔

اظہار مطالب کے لیے مناسب ترین الفاظ کا چنائو (جسے مولانا حالی نے ''تفحص الفاظ'' کی ترکیب سے واضح کیا ہے) بظاہر بہت سادہ لیکن حقیقتاً بہت پُرپیچ اور پُراسرار عمل ہے کہ ہمیں مختلف شعرا کے ہاں ایک ہی مفہوم سے متعلق الفاظ کے چنائو میں عجیب و غریب قسم کا رد و قبول دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ بعض الفاظ تو کچھ شعراء کا ''ٹریڈ مارک'' بن جاتے ہیں اس کی تشریح کسی حد تک لسانی' فکری' عملی' موضوعاتی اور سیاسی وغیرہ حوالوں سے کی تو جا سکتی ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو اس کا بہت گہرا تعلق شاعر کی نفسیات اور ان کی کیفیات سے بھی ہوتا ہے جن میں وہ بوجوہ مبتلا یا ان سے دوچار ہوتا ہے مثال کے طور پر اس کتاب میں شامل نعتوں میں روشنی اور بینائی سے متعلق الفاظ اور استعاروں کو یک جا کر کے دیکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ وہ غیرمعمولی کثرت اور تواتر سے استعمال کیے گئے ہیں۔ برادرم ڈاکٹر خورشید رضوی نے کتاب میں شامل اپنے مضمون ''خیرمقدم'' میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اب اس بات کو اس صورت حال سے ملا کر دیکھئے جس میں شاعر عمران نقوی نہ صرف برسوں سے گزر رہا ہے بلکہ اب اس میں ایک مخصوص نوع کی شدت اور دہشت بھی پیدا ہو گئی ہے میرا اشارہ اس کی مسلسل گرتی ہوئی نزدیک کی بینائی کی طرف ہے جس کے ضمن میں وہ کئی آپریشن کروا چکا ہے اور اب یہ صورت حال ہے کہ (اللہ نہ کرے) اس کے مستقل طور پر ضایع یا انتہائی کم ہو جانے کے امکانات زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ اب یہ خوف نفسیاتی طور پر اس کے شعری مضامین قافیوں ردیفوں اور انتخاب الفاظ میں کس طرح ظہور کر رہا ہے اس کا کچھ اندازہ ان چند اشعار سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

مدینہ اک خزینہ روشنی کا
اسی سے بول بالا روشنی کا
سر مژگاں ہے اک اشک ندامت
لیے پھرتا ہوں دریا روشنی کا
در دل سے دیار مصطفےﷺ تک

بچھا تھا اک مصلیٰ روشنی کا
پھر آج نعت نبیؐ کا ہوا دیا روشن
دیار جاں سے گزرنے لگی ہوا روشن
مجھ پہ جو رب دو عالم کی عطا روشن ہے
مدح سرکار دو عالمؐ کی جزا روشن ہے
کوئی سورج مری شبوں پہ اتار
روشنی تیرے اختیار میں ہے
کس کی آواز دل میں ہے روشن
کون اس دشت کے غبار میں ہے
نعت میں جب سخن آغاز کیا
روشنی دیدہ فن تک پہنچی
دف بجاتی فضائوں سے دیکھا
ایک روشن جہاں مدینے کا
روشنی جب کلام کرتی ہے
تیریؐ سیرت کو عام کرتی ہے
سورج تو تجھ سے پہلے بھی ہوتا رہا طلوع
اُترا نہ تھا نظر میں سویرا تیرے بغیر
شہر انوار تیرے ذروں میں
آٹھواں آسماں تلاش کروں

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ روشنی نور اور اجالے کے استعارے تو نعت کے ذخیرہ الفاظ کے مقبول ترین اور کثیرالاستعمال الفاظ ہیں اور انھیں سب ہی شاعر استعمال کرتے ہیں یہ بات بلاشبہ درست ہے مگر جب ہم عمومیت میں تخصیص کی تلاش کرتے ہیں تو اس طرح کی اندرونی شہادتوں سے کسی شاعر کی اس تخلیقی Range تک رسائی یقیناً آسان ہو جاتی ہے جہاں وہ ''صاحب اسلوب'' اور دوسروں سے مختلف قرار پاتا ہے۔عمران نقوی کی نعتوں میں عشق نبی کی جو شدت' گہرائی اور وسعت نظر آتی ہے اور اس حوالے سے اس نے اپنی قلبی وارداتوں کو جس موثر' دل کش اور روح پرور انداز میں پیش کیا ہے اس کی بنیاد پر یقیناً اس کتاب کو جدید نعتیہ شاعری کی عمدہ اور منتخب کتابوں میں جگہ دی جا سکتی ہے اور یہ وہ مقام ہے جو نایاب ہو نہ ہو کمیاب ضرور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں